دیوبندی وہابی لابی اور دگلے والی پلٹن – عدنان خان کاکڑ
ہمیں ہمارے بعض نئے نئے پولیٹیکل اسلامسٹ ہوئے دوستوں کے توسط سے علم ہوا ہے کہ فیس بکی دنیا اس وقت حالت جنگ میں ہے اور داہنے بازو پر بائیں بازو نے شدید یلغار کر رہی ہے اور داہنا بازو یدھ کا شکار ہے۔ اس یلغار کا پہلا حملہ مبینہ طور پر ستر کی دہائی میں ہوا تھا۔
لیکن یہ عاجز اگر چالیس کی دہائی میں جاتا ہے تو اس وقت کا انتہائی داہنا بازو جو کہ اس وقت کے علمائے دیوبند کے تحت کام کر رہا تھا، ہمیں یہ بتا رہا تھا کہ اس پر ترقی پسند پولیٹیکل اسلامسٹوں نے یلغار کی ہوئی ہے جو کہ قوم کو مذہب کے نام پر بہکا رہے ہیں۔ جی ہاں، ان کا روئے سخن سید مودودی کی مبینہ طور پر ترقی پسند اسلامی تحریک کی طرف تھا جو کہ یہ قرار دے چکی تھی کہ جدید مسلمانوں کے عقائد کا حال زمانہ اسلام سے قبل کے جاہل عربوں کا سا ہے۔ ان کے نزدیک غالباً مسلم لیگ اس زمانے میں بھی بایاں بازو قرار پاتی تھی اور کمیونسٹ نوجوان بھی اس کے ساتھ مل کر تحریک پاکستان چلا رہے تھے جس سے یہ معاملہ بالکل واضح ہو چکا تھا۔ ہمارا یہ علمائی داہنا بازو اس وقت ایک طرف تو کانگریس سے مل کر تحریک پاکستان کے خلاف کام کر رہا تھا اور اس کا مودودی طبقہ کانگریس اور مسلم لیگ کو یکساں برا بھلا کہتا ہوا پہلے طبقے ہی کی مانند تحریک پاکستان کے خلاف مہم چلائے
ہوئے تھا۔ لیکن پھر
موسم بدلا، رت گدرائی اہلِ جنوں بے باک ہوئے
فصلِ بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے
برقِ زمانہ دور تھی لیکن مشعلِ خانہ دور نہ تھی
ہم تو ظہیر اپنے ہی گھر کی آگ میں جل کر خاک ہوئے
یعنی تحریک پاکستان کے حق میں تحریک چلانے والے مسلمان کمیونسٹ اور مسلم لیگی وغیرہ قیام پاکستان کے مقاصد کے غدار قرار پائے، اور قیام پاکستان کے خلاف کام کرنے والے ان داہنے بازو کے پولیٹیکل اسلامسٹوں نے ساٹھ کی دہائی میں ایک نظریہ پاکستان ایجاد کیا اور خود کو اس کا محافظ مقرر کر دیا۔ نہ تو ہمیں قائد کی کسی تحریر و تقریر میں نظریہ پاکستان دکھائی دیتا ہے اور نہ اقبال نے ایسا کچھ کہا ہے۔ اگر ہمارے موجود داہنے بازو کے مجاہدین کی یہ بات مان لی جائے کہ تحریک پاکستان کا مطالعہ کر کے ہر شخص نظریہ پاکستان کو جان سکتا ہے، تو پھر تو داہنے بازو کے مجاہدین کے نظریہ پاکستان کو سیکولروں کے نظریہ پاکستان پر فوقیت کیوں دی جائے؟ کیا یہ پولیٹیکل اسلامسٹ کسی وجہ سے خود کو دوسرے انسانوں سے برتر سمجھنے کے خناس میں مبتلا ہیں؟
اس معرکہ جانکاہ کے بارے میں جان کر ہمیں سو دو سو سال پہلے ہونے والے ایک ایسے ہی معرکے کا خیال آ گیا ہے جو کہ ممتاز مورخ پنڈت رتن ناتھ سرشار نے فسانہ آزاد میں درج کیا ہے۔ دگلے والی پلٹن کے کمیدان میاں بدیع الزمان خوجی صاحب ہی کی طرح یہ مجاہدین بھی خبر نہیں کس کیفیت کے زیر اثر ہر وقت معرکہ حق و باطل میں مبتلا رہتے ہیں۔ صبح چائے میں چینی کم ہو جائے یا ناشتے میں انڈا جل جائے، یہ اسے اپنے خلاف یہود و ہنود، یا کم از کم سیکولروں کی سازش سمجھتے ہیں اور میاں خوجی کی طرح قرولی لہرا لہرا کر دشمنوں کو دھمکاتے رہتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ان کا ٹکراؤ ان خیالی دشمنوں کی بجائے قرب و جوار کی کسی بوا زعفران سے ہو جاتا ہے جو کہ کچھ وقت کے لیے ان کی نظریاتی تطہیر ویسے ہی کر ڈالتی ہے جیسی وہ دگلے والی پلٹن کے سالار خواجہ بدیع الزمان خوجی کی کیا کرتی تھی۔
دگلے والی پلٹن کی للکار سنیں تو بخدا ہم ان کو حال کھیلتا دیکھ کر خود بھی وجد میں آ جاتے ہیں۔ وہ ایسی باتیں کہتے ہیں کہ
دگلے والی پلٹن کی اس جنگ نے جلدی ختم نہیں ہوجانا۔ لمبا معرکہ ہوگا۔ یہ قسطوں میں لڑی جانے والی جنگ ہے، باربار غنیم کے لشکر امنڈ امنڈ کر آئیں گے۔ بار بار قرولی نکال کر لڑنا پڑے گا۔ بہتر ہو گا کہ داہنے بازو والے اپنے اپنے کام کا تعین کر لیں۔ کچھ چنیا بیگم کی خریداری کو نکلیں۔ کچھ اس کی پیالی نکال کر اسے گھولنے پر مامور ہوں۔ کچھ قرولی کو تلاش کرتے پھرا کیا کریں۔ کچھ بوا زعفران سے کمانڈو ٹریننگ لینے کی مشق کریں اور مار کھا کھا کر بعد از جنگ غنیم کو للکارا کریں۔ کچھ نسیم حجازی کے ناول نکالیں اور اس گمان میں رہیں کہ ان کی اس عظیم المقاصد جنگ کی وجہ سے کل عالم کی حسینائیں ان پر مری جا رہی ہیں اور تصور عشق کو بیان کیا کریں۔ کام بہت نکلا ہے دگلے والی پلٹن کے لیے۔
دگلے والی پلٹن کے کمیدانوں کو یہ سوچ کر لکھنا چاہیے کہ وہ کس مائنڈ سیٹ کے علمبردار ہیں اور ان کے تحریر ہی سے ان کی سوچ رکھنے والوں کے کردار کو جانچا جائے گا۔ اس لیے اخلاق ، شائستگی اور متانت کا دامن قطعاً نہ پکڑا جائے۔ دشنام طرازی کی صنعت میں نیا مقام پیدا کیا جائے۔ اس پر بھی غنیم باز نہ آئے تو پہلے اسے ڈالر خور قرار دیا جائے، پھر اسے یہود و نصاری کا ایجنٹ بنا دیا جائے، اور پھر بھی وہ عبرت نہ پکڑے تو اسے اسلام دشمن قادیانی قرار دے دیا جائے اور اس کی تصاویر فوٹو شاپ کی جائیں جیسا کہ پہلے بے نظیر بھٹو اور ملالہ یوسفزئی کی کرتے رہے ہیں۔
ایک بات اور ذہن میں رکھیں کہ سیکولرفکر کے بیشتر علمبرداروں یا نئی نسل کو آپ دلیل سے قائل نہیں کر سکتے کیونکہ ان کی دانش مسلم ہے اور آپ کی دلیل اتنی بوسیدہ ہو چکی ہے کہ اسے کوئی بھی خاطر میں نہیں لاتا ہے۔ پچھلے پچاس سال سے ایک ہی چیز دہرا دہرا کر آپ اپنی بالکل ذاتی خودی تو بلند کر سکتے ہیں لیکن کسی ذی شعور نوجوان کو اس سے قائل نہیں کر سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ سارے سیکولروں کو مذہب دشمن سمجھنا غلط ہے۔ ان میں سے سیکولر ازم کے کچھ پرستار مجاہد اعظم سید رجب طیب ایردوان شاہ صاحب جیسے بھی ہوتے ہیں جو کہ مصر میں صدر مرسی کی اخوانی حکومت آنے پر ان کو سیکولر دستور کے قیام کا مشورہ تک دے ڈالتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے اس وجہ سے بھی سیکولر ہو جاتے ہیں جس وجہ سے مغرب سیکولر ہوا تھا۔ جب وہ مذہب کے نام پر ساٹھ ستر ہزار پاکستانیوں کو شہید ہوتے اور پاکستانی فوجیوں کے سروں سے فٹ بال کھیلے جانے کے مناظر دیکھتے ہیں تو یہی سوچتے ہیں کہ کیا ایک مقدس نام پر ہونے والی خانہ جنگی سے بچ کر ہم امن و سکون کی زندگی گزار سکتے ہیں؟ کیا سب انسانوں کے عقائد کو ایک ذاتی معاملہ قرار دے کر حکومت کے معاملے میں ویسا ہی طریقہ اختیار کیا جائے جیسا کہ 1973 کے دستور کے قیام کے وقت بروئے کار لایا گیا تھا، اور جس میں تمام سیکولر، سوشلسٹ، کمیونسٹ، بنیاد پرست اور پولیٹیکل اسلامسٹ بھی ایک مشترکہ سماجی معاہدہ کر کے اکٹھے زندگی گزارنے پر تیار ہو گئے تھے۔ آپ ان گمراہوں کو ہماری طرح سادہ دل مت سمجھیے اور یہ جان لیجیے کہ آج مردان میں ہونے والا خود کش دھماکہ تو برے طالبان نے کیا تھا، لیکن کابل میں ہونے والا خود کش دھماکہ اچھے طالبان نے کیا ہے۔
سیکولروں کی ہارڈ کور کو متاثر یا قائل نہ کرسکنے کے امکان کے باوجود دگلے والی پلٹن کو یہ معرکہ جاری رکھنا ہوگا۔ اسے پوری قوم کو چنیا بیگم (افیم) پر لگا کر اپنا الو سیدھا کرنا ہو گا۔ یاد رکھیں، تحریک پاکستان، نظریہ پاکستان، قائداعظم اور مسلم لیگ کے دوران تحریک کیے گئے وعدے ہی وہ بنیاد فراہم کرتے ہیں، جس پر مملکت پاکستان کی بنیاد استوار ہوتی ہے۔ اس لیے نہ تو اقبال کے خطبات میں ملک کے نظام کے بارے میں موجود تجاویز پر عمل کریں، اور نہ پاکستانی کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے سربراہ اور بانی پاکستان جناب محمد علی جناح کی گیارہ اگست کی اس تقریر کو خاطر میں لائیں جس میں اسمبلی کی دستور سازی کے باب میں راہنمائی کی گئی تھی۔ اس کی بجائے مختلف مواقع پر عوام سے کی گئی سیاسی تقاریر پر ہی فوکس کریں جن کا دستور سازی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
قائداعظم کو جناح صاحب کہنا اب دگلے والی پلٹن نے پاکستان سے غداری کی نشانی قرار دیا ہے۔ دگلے والی پلٹن کے جانبازوں کا رویہ وہی ہونا چاہیے جو کہ سو سال پہلے ایک مقامی نئی نویلی دلہن کا ہوتا تھا جو کہ مدھانی میں بلوئی گئی لسی کے اوپر مکھن تیرتا دیکھ کر یہی کہتی تھی کہ منے کے ابا تیر رہے ہیں، کیونکہ مکھن نامی شوہر کا نام لینا بہت بے شرمی کی بات ہوا کرتی تھی۔ لیکن اس میں ایک مسئلہ یہ ہو گا کہ پاکستان میں تو آپ جناح صاحب کہنے سے بچ جائیں گے، لیکن جب بین الاقوامی آڈینس کے لیے کچھ لکھ بول رہے ہوں گے اور قائداعظم کہہ کر بات سمجھانا ممکن نہیں ہو گا، تو پھر انگریزی میں مسٹر جناح کہنا جائز ہو گا اور غداری نہیں سمجھی جائے گی۔ بس ہمارے دل میں یہی ہے کہ جو ہم کہہ رہے ہیں ساری قوم اسی پر چلے، جو نہ چلے وہ بھی غدار۔ نہ ہوئی قرولی ورنہ ان نابکاروں کا پیٹ چاک کر ڈالتا۔
یہ درست ہے کہ موجودہ پاکستان میں بسنے والے بہت سے لوگوں نے مسلم لیگ کو ووٹ نہیں دیا تھا۔ یہ بھی درست ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی ایک خاطر خواہ تعداد مسلم لیگ کی بجائے جمعیت علمائے ہند اور کانگریس وغیرہ کی حامی تھی اور جناب محمد علی جناح کو قائد اعظم نہیں سمجھتی تھی۔ یہ بھی درست ہے کہ بعض شدید مذہبی رجحان رکھنے والے پاکستانی یہ کہہ کر محترم جناح کو قائد اعظم کہنے سے انکاری ہوتے ہیں کہ ان کے نزدیک صرف رسول پاکؐ کی ذات ہی ایک مسلمان کے نزدیک قائد اعظم کہے جانے کی مستحق ٹھہرتی ہے اور یہ ان کے لیے عقیدے کا معاملہ ہے۔ لیکن کیونکہ ہم نے دگلے والی پلٹن کو یہ حکم دے دیا ہے کہ جو شخص بھی قائد اعظم کی بجائے جناح صاحب کہتا ہے، وہ غدار، کافر، سیکولر، لبرل فاشسٹ، یہود و ہنود کا ایجنٹ وغیرہ ہے، اس لیے ہم ان کے کسی بھی عذر کو سننے سے انکاری ہیں۔
سو دگلے والی پلٹن جنگ کے لیے تیار رہے۔ تمہارا کمیدان قرولی ملتے ہی تمہارے دشمنوں کی ایسی سرکوبی کرے گا جیسی کہ آج تک بوا زعفران تمہارے کمیدان کی کرتی رہتی ہے۔ جب تک چنیا بیگم کی پیالی نکالو، آج تو بدن ٹوٹ رہا ہے۔
Source:
http://www.humsub.com.pk/12695/adnan-khan-kakar-84/