اقبال کی فکر اور غلطی ہائے مضامیں – ڈاکٹر ساجد علی

sajid-ali

ناصر کاظمی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے:

ہجوم نشہ فکر سخن میں
بدل جاتے ہیں لفظوں کے معانی

فکر سخن ہی میں نہیں بلکہ بعض اوقات گروہی، سیاسی مذہبی مفادات کے لیے بھی الفاظ کے معنی تبدیل کر لیے جاتے ہیں۔ عظیم فلسفی کارل پوپر نے سائنس کے مورخین کے بارے میں گلہ کیا تھا کہ وہ بالعموم بہت خراب قاری ہوتے ہیں۔ مجھے اس بات سے صرف اتنا اختلاف ہے کہ بری خواندگی کو سائنس کے مورخین تک محدود کر دینا شاید درست نہ ہو کیونکہ یہ بیماری کافی ہمہ گیر ہے۔تاریخی متون کو درست پڑھنا شاید اس لیے ممکن نہیں رہتا کہ ہم نے پہلے سے بہت سے تصورات وضع کر رکھے ہوتے ہیں اور جب ان کی روشنی میں متن کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کا درست مفہوم سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ کبھی اندھی عقیدت اور کبھی بے جا تعصب اور عداوت رکاوٹ بن جاتے ہیں۔

افلاطون کے بہت سےمترجمین اور شارحین ہیں جو ایک طرف تو جمہوریت اور لبرل ازم کے حامی ہیں، اور ساتھ ہی افلاطون سے بھی عقیدت رکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں کارل پوپر اپنی شہرہ آفاق کتاب The Open Society and its Enemies میں شکوہ کناں ہے کہ وہ افلاطون کی ان عبارتوں کا جو ان کے جمہوری تصورات سے مطابقت نہیں رکھتیں ترجمے میں ان کا ڈنک نکال کر انہیں بے ضرر بنا دیتے ہیں۔ افلاطون کی عظمت اپنی جگہ مگر یہ حقیقت ہے کہ اس کا سیاسی اور سماجی فلسفہ بہت سے پہلوؤ ں سے ناقابل قبول ہے۔

مجھے ذاتی طور پر شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی عبارتوں کو پڑھتے ہوئے اسی قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ شیخ کی فصوص الحکم میں متعدد عبارتیں ایسی ہیں کہ مقبول عام مذہبی تصورات کی رو سے ان کی تاویل کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ مگر عبد الوہاب شعرانی نے جو شیخ اکبر کے بہت مداح تھے مگر ساتھ ہی وحدت الوجود کو کفر گردانتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے شیخ اکبر کی عبارتوں کی ایسی دور از کار تاویلیں کیں جو انہیں وحدت الوجود کے بجائے وحدت الشہود سے سازگار کر دیتی تھیں۔ بعد میں شاہ ولی اللہ اور اشرف علی تھانوی صاحب نے شعرانی کو ہی بنیاد بنا کر شیخ اکبر کا دفاع کیا۔

فصوص الحکم میں ایک مقام ہے جہاں شیخ اکبر نے خاتم الانبیاء اور خاتم الاولیاء کا فرق واضح کیا ہے اور بین الفاظ میں بیان کیا ہے کہ خاتم الاولیاء کا مرتبہ خاتم الانبیاء سے بڑا ہے۔ انہوں نے قصر نبوت میں خاتم الانبیاء کو چاندی کی اینٹ اور خاتم الولیاء کو سونے کی اینٹ قرار دیا ہے ۔ اب عبد الرزاق کاشانی سمیت اکثر شارحین نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ یہاں خاتم الانبیاء اور خاتم الولیاء سے ایک ہی شخصیت مراد ہے۔ اگر آنکھوں سے عقیدت کی پٹی اتار کر اس عبارت کو پڑھا جائے تو اس تاویل کا کوئی قرینہ تلاش کرنا ممکن نہیں رہتا۔

خیر یہ تو تصوف اور مابعد الطبیعیات کی باتیں ہیں جن سے ہم عامیوں کو کوئی سروکار نہیں۔ میرا آج کا سروکار علامہ اقبال کی چند نثری تحریروں سے ہے۔علامہ اقبال کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ قیام پاکستان کے بعد ان کی تشریح و تفسیر کا کام ان لوگوں نے سنبھال لیا جو قیام پاکستان سے قبل کانگرس اور احرار سے وابستہ تھے۔ انہوں نے اقبال کے چند مخصوص اشعار کا انتخاب کرکے ان کی نثری تحریروں کو یک سر نظر انداز کر دیا یا ان کی من مانی تاویلیں شروع کر دیں۔ بہت چالاکی سے کام لیتے ہوئے اقبال کی نثر کو اس کے شعر کے تابع کردیا۔ حالانکہ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ شعر کو علمی اور منطقی دلیل کی جگہ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ رشید احمد صدیقی صاحب نے ایک مرتبہ قوم کی بدمذاقی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ دلیل کی جگہ شعر پڑھ کر ایسا سمجھتے ہیں کہ بڑا علمی کارنامہ سرانجام دے دیا ہے۔اگر علم اور خبر کی بات ہو گی تو نثر میں کہی ہوئی بات کو شعر پر ترجیح حاصل ہو گی۔

لفظوں کی معنوی تراش خراش کا ایک عبرت ناک مظہر اقبال کے خطبہ الہ آباد میں استعمال ہونے والی ایک ترکیب ہے۔ اقبال نے جہاں شمال مغربی ہندوستان کو ایک مربوط صوبہ بنانے کے لیے بہت سے سیاسی دلائل دیے ہیں اور کہا ہے کہ ہندوؤں کو اس سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے وہاں اس صوبے کے قیام کے حق میں ایک اور دلیل بھی دی ہے۔ فرماتے ہیں:

”میں صرف ہندوستان اور اسلام کے فلاح و بہبود کے خیال سے ایک منظم اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہا ہوں۔ اس سے ہندوستان کے اندر توازن قوت کی بدولت امن و امان قائم ہو جائے گا۔ اور اسلام کو اس امر کا موقع ملے گا کہ وہ ان اثرات سے آزاد ہو کر جو عربی شہنشاہیت کی وجہ سے اب تک اس پر قائم ہیں، اس جمود کو توڑ ڈالے جو اس کی تہذیب و تمدن، شریعت اور تعلیم پر صدیوں سے طاری ہے۔ اس سے نہ صرف ان کے صحیح معانی کی تجدید ہو سکے گی بلکہ وہ زمانہ حال کی روح سے بھی قریب تر ہو جائیں گے۔( خطبہ الہ آباد۔ اردو ترجمہ از سید نذیر نیازی)

اس میں سید نذیر نیازی صاحب نے ”عربی شہنشاہیت“ کی ترکیب اقبال کے الفاظ ”عرب امپیریل ازم“ کے ترجمے کے طور پر استعمال کی ہے۔ ڈاکٹر ندیم شفیق ملک صاحب نے بھی یہی ترکیب استعمال کی ہے مگر جب اقبال ”برٹش امپیریل ازم“ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں تو ندیم شفیق ملک صاحب اس کا ترجمہ برطانوی سامراج کرتے ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک ہی لفظ کے یہ دو متفاوت معنی کس طرح مراد لیے جا سکتے ہیں۔ اقبال نے جب ”عرب امپیریل ازم“ کے الفاظ استعمال کیے تو یقینا وہ ان کے مضمرات سے بھی واقف ہوں گے۔ اقبال نثر لکھ رہے تھے اس لیے شعر کی طرح وزن کی کوئی مجبوری حائل نہ ہو سکتی تھی۔ایسا بھی نہیں ہے کہ اقبال نے بے دھیانی میں یہ الفاظ استعمال کر لیے ہوں۔ اس خطبے سے کوئی ایک دہائی پیشتر وہ نکلسن کے نام اپنے خط میں مسلم تاریخ کے متعلق اپنے نقطہءنظر کو واشگاف انداز میں بیان کر چکے تھے:

”مجھے اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مسلمان بھی دوسری قوموں کی طرح جنگ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے فتوحات بھی کی ہیں۔ مجھے اس امر کابھی اعتراف ہے کہ ان کے بعض قافلہ سالار ذاتی خواہشات کو دین و مذہب کے لباس میں جلوہ گر کرتے رہے ہیں لیکن مجھے پوری طرح یقین ہے کہ کشور کشائی اور ملک گیری ابتداً اسلام کے مقاصد میں داخل نہیں تھی۔

’اسلام کو جہاںستانی اور کشورکشائی میں جو کامیابی حاصل ہوئی ہے میرے نزدیک وہ اس کے مقاصد کے حق میں بے حد مضر تھی۔ اس طرح وہ اقتصادی اور جمہوری اصول نشو و نما نہ پا سکے جن کا ذکر قرآن کریم اور احادیث نبوی میں جا بجا آیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ مسلمانوں نے عظیم الشان سلطنت قائم کر لی لیکن اس کے ساتھ ہی ان کے سیاسی نصب العین پر غیر اسلامی رنگ چڑھ گیا اور انہوں نے اس حقیقت کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں کہ اسلامی اصولوں کی گیرائی کا دائرہ کس قدر وسیع ہے۔“ (اردو ترجمہ از چراغ حسن حسرت)

مندرجہ بالا اقتباس یہ بات واضح کر دیتا ہے کہ اقبال نے وہ لفظ خوب سوچ سمجھ کر استعمال کیا تھا مگر ہماری حساسیت اس لفظ اور اس کے مضمرات کو قبول کرنے سے انکاری ہے اور ترجمے میں اس کا دف مار دیا جاتا ہے۔ خود حسرت صاحب نے جن الفاظ کا یہ ترجمہ ”ان کے سیاسی نصب العین پرغیر اسلامی رنگ چڑھ گیا“ کیا ہے اصل میں یہ ہیں:

they largely repaganized their political ideals

گویا اقبال یہ کہہ رہے ہیں کہ ملوکیت دور جاہلیت کی طرف رجعت کا نام ہے۔ چنانچہ مسلمانوں میں خلافت کے نام پر جس ملوکیت نے رواج پایا تھا اقبال اس کے سخت خلاف تھے۔ خطبہ الہ آباد کے تقریبا سات برس بعد پنڈت نہرو کے جواب میں اقبال نے اتا ترک کے تنسیخ خلافت کے فیصلے کی ان الفاظ میں تائید کی تھی:

”کیا تنسیخ خلافت یا مذہب و سلطنت کی علیحدگی منافی اسلام ہے؟ اسلام اپنی اصلی روح کے لحاظ سے شہنشاہیت نہیں ہے۔ اس خلافت کی تنسیخ میں جو بنو امیہ کے زمانہ سے عملًا ایک سلطنت بن گئی تھی اسلام کی روح اتا ترک کے ذریعے کارفرما ہو رہی ہے۔ “ (ترجمہ میر حسن الدین)

خطبہ الہ آباد میں ایک اور لفظ کی تبدیلی بہت دوررس اثرات کی حامل ہے۔ اس خطبہ میں انہوں نے صرف دو جگہ اسلامک کا لفظ استعمال کیا ہے 

Islamic principle of solidarity,Islamic solidarity

لیکن انہوں نے کسی جگہ سٹیٹ یا ریاست کے لیے یہ لفظ استعمال نہیں کیا۔ مگر سید نذیر نیازی صاحب نے ترجمے میں جہاں بھی مسلم کا لفظ استعمال ہوا ہے اسے اسلامی سے ترجمہ کیا ہے۔ خطبہ میں ایک ذیلی عنوان ہے: [Muslim India within India ] نیازی صاحب نے اور ندیم ملک صاحب نے بھی اس کا ترجمہ کیا ہے ”ہندوستان کے اندر ایک اسلامی ہندوستان“۔ جہاں جہاں اقبال نے مسلم سٹیٹ یا سٹیٹس کا لفظ استعمال کیا ہے اسے نیازی صاحب نے اسلامی ریاست یا ریاستوں سے ہی ادا کیا ہے۔ یہی وہ مغالطہ آفرینی ہے جس نے تحریک پاکستان میں راہ پائی اور مسلمانوں کے سیاسی اور دستوری مطالبات کو اسلامی مطالبات بنا دیا۔ تحریک پاکستان کے دنوں میں مذہبی مخالفین بالخصوص جماعت اسلامی کا یہی موقف تھا کہ مسلم لیگ کے مطالبات قومی مطالبات ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں مگر پاکستان کے وجود میں آنے بعد یہی لوگ تھے جنہوں نے یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا ہے اس لیے اسے اسلامی ریاست بنایا جائے۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ مسلم ریاست سے اسلامی ریاست کی طرف سفر خبط معنی کا نتیجہ ہے یا اس میں کچھ نیتوں کے فتور کو بھی دخل ہے؟

اقبال نے اگر چہ کہا تھا:

الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے

تاہم کبھی الفاظ بھی اہمیت اختیار کر لیتے ہیں کیونکہ مفہوم و مطلب ادا کرنے کا ہمارے پاس یہی وسیلہ ہے۔ الفاظ کے درست مفہوم کا تعین نہ کرنے کا نتیجہ یہ مقبول عام تصور ہے کہ علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں پاکستان کا تصور پیش کیا تھا۔ اس کو ہم اس مضمون کی آئندہ قسط پر اٹھا رکھتے ہیں۔

Source:

http://www.humsub.com.pk/12637/sajid-ali-5/

Comments

comments