شرفِ “صحابیت”، ایمان، علم اور عملِ صالح، ایک اجمالی جائزہ – امجد عباس

unnamed

صحابی کے اصل معنی ساتھی اور رفیق کے ہیں؛ اصطلاحی طور پر صحابی کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جنھوں نے اسلام لاکر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےملاقات کی ہو اور اسلام ہی کی حالت میں دنیا سےرخصت ہوئے ہوں۔

بلا شبہ صحبتِ نبوی عظیم شرف ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت کا نتیجہ ہے کہ اُن کی رفاقت و صحبت پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے۔

عظیم لوگوں سے ملنے، بات چیت کرنے، ساتھ میں فوٹو بنانے کو آج بھی باعثِ فخر جانا جاتا ہے۔ اِسی لحاظ سے صحبتِ نبوی بھی اعزاز سے کم نہیں۔ یہ لیکن شرف مقصودِ اصلی نہیں، نہ ہی ایمان، علم اور عملِ صالح کے بغیر اِس کا کوئی فائدہ۔۔۔

لیکن اللہ تعالیٰ نے جس شرف کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے وہ “ایمان” ہے، علم ہے، عملِ صالح ہے۔

اسلام قیامت تک رہنے والا دین ہے، اِس میں برہمن کلاس نہیں پائی جاتی، “صحبت” کا شرف ایک مخصوص عہد تک میسر رہ سکتا تھا، اِسی کے پیشِ نظر اللہ تعالیٰ نے تا قیامت قابلِ حصول شرف “تقویٰ ” کو بارگاہِ خداوندی میں قبولیت کا معیار قرار دیا ہے۔

اِس آیتِ حمیدہ میں بھی ایمان لانے کو اصلی شرف شمار کیا گیا ہے، اِسی لحاظ سے اِس میں سبقت لے جانے کو بھی مستحسن جانا گیا ہے وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿التوبة: ١٠٠﴾ جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی۔ اور جنہوں نے نیکو کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی خدا ان سے خوش ہے اور وہ خدا سے خوش ہیں اور اس نے ان کے لیے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔

قرآنِ مجید میں جہاں بھی صحابہ کرام کی فضیلت ذکر کی گئی ہے، اُس میں اصل مطمعِ نظر “ایمان اور عملِ صالح” ہے چنانچہ اِس آیتِ گرامی میں اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پکے ایمان دار ساتھیوں کی مدح فرما رہا ہے ساتھ میں اُن کی نشانیاں بھی بیان کی ہیں

مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴿الفتح:

محمدﷺ خدا کے پیغمبر ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں سخت ہیں اور آپس میں رحم دل، (اے دیکھنے والے) تو ان کو دیکھتا ہے کہ (خدا کے آگے) جھکے ہوئے سر بسجود ہیں اور خدا کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب کر رہے ہیں۔ (کثرت) سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے یہی اوصاف تورات میں (مرقوم) ہیں۔ اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں۔ (وہ) گویا ایک کھیتی ہیں جس نے (پہلے زمین سے) اپنی سوئی نکالی پھر اس کو مضبوط کیا پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی اور لگی کھیتی والوں کو خوش کرنے تاکہ کافروں کا جی جلائے۔ جو لوگ ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان سے خدا نے گناہوں کی بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔

اِس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے بیعتِ رضوان میں صاحبانِ ایمان سے راضی ہونے کی نوید سنائی ہے، ملحوظ رہے کہ علماء کرام کے مطابق اِس موقع پر کئی منافق بھی بیعت میں شامل تھے، تب ہی قرآن نے “المؤمنین” کی تخصیص فرمائی ہے لَّقَدْ رَضِيَ اللَّـهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا ﴿الفتح: ١٨﴾ یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وه درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے۔ ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کر لیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی۔

اللہ تعالیٰ بندے سے کئی اعمال پر راضی ہوتا ہے، یہ رضایت تب تک باقی رہتی ہے جب تک کوئی دوسرا فاسد عمل نہ سرزد ہوجائے، احادیث کو ملاحظہ کیا جائے تو یہ امر روشن ہوجاتا ہے کہ بارگاہِ خداوندی میں رضایت کا معیار “خاتمہ” ہے، اگر بالخیر نہ ہوا تو کوئی عملِ صالح نہ بچا پائے گا، جیسا کہ ایک صحابی، جس نے جہاد میں ڈٹ کر حصہ لیا، لیکن خود کُشی کر لی تو آں حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اظہارِ ناراحتی فرمایا۔

اِس آیت مجیدہ میں صحابہ کرام سے خطاب ہے کہ تُم میں سے صاحبانِ علم کو اللہ تعالیٰ نے بلند مرتبہ دیا ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّـهُ لَكُمْ وَإِذَا قِيلَ انشُزُوا فَانشُزُوا يَرْفَعِ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ﴿المجادلة: ١١﴾

اے مسلمانو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلسوں میں ذرا کشادگی پیدا کرو تو تم جگہ کشاده کر دو اللہ تمہیں کشادگی دے گا، اور جب کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہو جاؤ تو تم اٹھ کھڑے ہو جاؤ اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان ﻻئے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دے گا، اور اللہ تعالیٰ (ہر اس کام سے) جو تم کر رہے ہو (خوب) خبردار ہے۔

اِس آیتِ مجیدہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت کا معیار تقویٰ ہے، جس کی حقیقت علم کے ساتھ ایمان اور عملِ صالح بجا لانا ہے، آیت ملاحظہ ہو إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ﴿الحجرات: ١٣﴾ خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے۔

اِس آیت میں بالکل واضح کر دیا گیا ہے کہ اصلی شرف ایمان، علم اور عملِ صالح ہے چنانچہ ارشادِ ربانی ہے أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ لَا يَسْتَوُونَ عِندَ اللَّـهِ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿التوبة: ١٩﴾
کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلا دینا اور مسجد حرام کی خدمت کرنا اس کے برابر کر دیا ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان ﻻئے اور اللہ کی راه میں جہاد کیا، یہ اللہ کے نزدیک برابر کے نہیں اور اللہ تعالیٰ ﻇالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔

صحابیت اُسی طرح کا شرف ہے جیسے “سید ہونا” یا کسی اعلیٰ جامعہ میں داخلہ لینا، بات یہاں ختم نہیں ہوتی، بلکہ اِس کے مکمل تقاضوں کو پورا کرنا اصل “شرف” ہے۔ صحابہ کرام سبھی ایک جیسے نہ تھے، کئی ایک نے صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے صرف ایک حدیث مبارکہ سُنی، کئی ایک نے زیادہ احادیث سُنیں، کچھ صحابہ کرام اکثر اوقات آپ کے ساتھ رہے، اسی اعتبار سے اِن کے علم، عمل اور ایمانی درجات میں بھی فرق ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴿الزمر: ٩﴾ بتاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر کے ہیں؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں۔

صحابہ کرام عام انسانوں کی طرح تھے، اُنھوں نے بھی خطائیں کیں، اُن سے بھی کبیرہ و صغیرہ گناہ دانستہ و نادانستہ سر زد ہوئے، اُن میں اچھے اور منافق دونوں طرح کے لوگ تھے، شرفِ صحبت اضافی شرف ہے،اِس کی ذاتی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اصل اور ذاتی شرف “ایمان، علم اور عملِ صالح” ہیں۔ اِس لحاظ سے غیرِ صحابی بھی افضل قرار پا سکتا ہے صحابی سے، جیسے ایک غیر صحابی مجتہد از رُوِ علم مقدم ہے غیر مجتہد صحابی پر۔۔۔

Comments

comments