اعجاز منگی صوفی سماج واد سے طالبان کا وکیل صفائی بننے تک – عامر حسینی
میں نے یورپ میں ایسے سوشلسٹوں کے بارے میں پڑهتا تها کہ جنهوں نے ہٹلر کی سپورٹ کی تهی اور خود ہندوستان میں بهی سبهاش چندر بوس اور ان کے ساتهی نازی ہٹلر کو گلوریفائی کرنے لگے تهے اور معروف ہندوستانی کامریڈ برکت اللہ بهوپالی بهی ایک عرصہ برلن رہے ، اسی طرح سے ایسے کمیونسٹ اور سوشلسٹ بهی تهے جنهوں نے پہلی جنگ عظیم میں اپنے سامراجی ملکوں کی جنگوں کی حمایت کی تهی یعنی سامراجیوں کی حمائت یا فاشسٹوں کی حمائت کے رجحانات سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں میں دیکهنے کو ملے اور خود روس زار کے زمانے میں نردونک دہشت گردی کو نجات کا راستہ سمجهنے والے نام نہاد انقلابی سوشلسٹ بهی سامنے آگئے اور پهر ان سب رحجانات پہ عالمگیر بحث و مباحثے ہوتے رہے
آج جبکہ مذهبی بنیاد پرستی ، انتہاپسندانہ راسخ العقیدہ اسلام پسند یوٹوپیا اور اس کی بنیاد پہ سامنے آنے والا سلفی جہاد ازم ، تکفیری دیوبندی دہشت گردی کا مظہر ، طالبان کا امارت اسلامی کا یوٹوپیا اور ان کی اپنے تئیں استعمار مخالف جنگ اس پر حیرت انگیز طور پہ ایسے لوگ موجود ہیں جو سوشلسٹ ، کمیونسٹ ، ترقی پسند اور یہاں تک کہ صوفی امن واد چہرے کے ساته طالبان کو حقیقی سامراج دشمن ، قومی خودمختاری کے علمبردار خیال کرتے ہیں
ایسا ہی ایک چہرہ اعجاز منگی کا بهی ہے ، یہ سندهی کالم نگار ، صحافی ڈی ایس ایف کے سابق طالب علم رہنماء ہیں ، کمیونسٹ پارٹی سے ان کی وابستگی کس سطح کی تهی یہ تو کمیونسٹ پارٹی کے احباب جانتے ہوں گے لیکن ایک سٹیٹس فیس بک کا یہ بتاتا ہے کہ شیخ ایاز کی طرح تصوف سے ان کو گہرا شغف ہے لیکن لگتا ہے کہ ان کا تصوف سندهی صوفیوں کی بجائے وسط ایشیا اور افغان کے مجددی صوفیوں سے اخذ کردہ ہے یا پهر مدرسہ و مسجد منزل گاہ والوں جن کی روایت کا ایک اہم امین ڈاکٹر خالد سومرو بهی تها تبهی تو ان کے ہاں طالبان ہیرو ٹهہرتے ہیں اور یہاں تک کہ پی پی پی دور میں جو ناموس کے ایشو پہ ڈپلومیٹک انکلیو میں مارچ ہوا تها اس کی داد وتحسین بهی ہمیں اعجاز منگی دیتے نظر ائے
اعجاز منگی حسن مجتبی کی وساطت سے صحافت کی دنیا میں داخل ہوئے اور حسن مجتبی ڈاکٹر خالد سومرو کو سنده کا هیرو قرار دیتے ہیں مجهے لگتا ہے اعجاز منگی کی فکر میں اتنی بڑی کجی کا ایک سبب حسن مجتبی کی یہ غلط سوچ بهی ہے
جنرل مشرف کے دور میں افغانستان پہ امریکہ اور اقوام متحدہ کی فوج کے مشترکہ حملے اور پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں سامراج سے اشتراک پر اعجاز منگی نے جو بهی لکها وہ اس موضوع پہ روایتی جماعت اسلامی اور دیوبندی -سلفی اسلام ازم اور جہاد ازم کے کیمپ کے تجزیوں ، تبصروں اور جذباتیت پر مبنی تها اور آج بهی ہے اور یہ انداز فکر بالآخر اعجاز منگی کو روزنامہ امت کراچی تک لے گیا ، اعجاز منگی کے روزنامہ امت کراچی میں افغان وار ہو کہ پاکستان کے اندر جاری دہشت گردی اور دیگر مسائل پر شایع کالم سب کے سب جماعت اسلامی سمیت یہاں کے مودودی ازم ، دیوبندی ازم ، سلفی جہادی ازم کی روشنی میں ابهرنے والی رائے کے عکاس ہیں
یہی وجہ ہے کہ جماعت والے اور ملک میں جتنے تکفیری فاشزم کے
Apologists
ہیں سبهی مدح سرائی کرتے ہیں اعجاز منگی کی – اعجاز منگی کو صوفی کمیونسٹ کہہ کر بات شروع کرتے ہیں اور پهر اس کی تحریروں میں طالبان کی مدح سرائی کا زکر لاکر اور دیوبند کی تکفیری رجحان بارے اعجاز منگی کے فکری مغالطوں کو دوهرا کر کہا جاتا ہے کہ بڑا کهرا صوفی کمیونسٹ ہے ، مطلب یہ ہوا کہ اگر آپ مذهبی بنیاد پرستوں کے
Ultra Orthodox Utopian Ideology
کو کہیں
Glorify
کرتے ہیں اور طالبانئزیشن کے پروسس کو
anti -imperialist struggle
بناکر دکهاتے ہیں تو آپ ایک ایماندار ، کهرے صوفی کمیونسٹ ہو ورنہ نہیں