اقبال، خلافت اور اسلامی نظریاتی کونسل – عدنان خان کاکڑ

adnan-khan-kakar-mukalima-3

ہمارے فکری لحاظ سے بعض نئے نئے صالحین میں شامل ہونے والے قلم بردار مفکرین یہ کہتے ہیں کہ جو کچھ بھی قائد اعظم اور علامہ اقبال پاکستان کی جنم کنڈلی میں لکھ گئے ہیں، پاکستان بس انہی راہنما اصولوں پر چلے گا اور موجودہ نسل کے پاس ان دو راہنماؤں کے خیالات کے اندر رہتے ہوئے ہی قانون و آئین سازی کا اختیار ہے۔

تو چلیں دیکھتے ہیں اقبال کے گنے چنے نثری کاموں میں سے ایک، اقبال کے چھٹے مقالے، ’اسلام میں حرکت کا اصول‘ کی جانب اور جانتے ہیں کہ اقبال خلافت کی موجودہ شکل کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ مزید یہ بھی دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ وہ ایسے حالات میں کیا کہتے ہیں جب کہ قانون ساز اسمبلی کے اراکین فقہ کی باریکیوں سے نا آشنا ہوں۔ اس صورت میں وہ آئین میں علما کی ایک الگ کمیٹی کے لیے گنجائش رکھنے کو جنہیں آئین سازی کی قانونی سرگرمیوں کی نگرانی کا حق حاصل ہو، ایک خطرناک انتظام قرار دیتے ہیں۔ یعنی پاکستانی آئین میں موجودہ اسلامی نظریاتی کونسل ٹائپ کے ادارے کو وہ ایک خطرناک انتظام سمجھتے ہوئے محض ایک مختصر مدت کے لیے ہی عارضی طور پر اسے بہ اکراہ برداشت کرنے کو تیار ہیں۔

تو اب صالح قلم برداروں سے یہ سوال ہے کہ کیا اقبال کے حکم پر چلتے ہوئے صدر پاکستان جناب ممنون حسین صاحب کو خلیفۃ المسلمین تسلیم کر لیا جائے اور اسلامی نظریاتی کونسل کو ختم کر دیا جائے جسے اقبال ایک نہایت خطرناک انتظام قرار دیتے ہیں؟

ایک بات اگر دور جدید کے لبرل پاکستانی کہتے ہیں تو وہ گمراہ ٹھہرتے ہیں اور انہیں فکر اقبال سے استفادے کا حکم دیا جاتا ہے، لیکن صالحین سے سوال ہے کہ اگر وہی بات اقبال خود کہہ رہے ہوں تو پھر کیا کیا جائے؟

تو آئیے پڑھتے ہیں کہ اقبال کے الفاظ کیا ہیں۔ چند اقتباسات پیش ہیں جن میں وہ کہتے ہیں کہ:۔

اسلام ایک ثقافتی تحریک کی حیثیت سے کائنات کے ساکن ہونے کے قدیم تصور کو مسترد کرتا ہے اور اس کے حرکی نظریے کو تسلیم کرتا ہے۔ اسلام میں حرکت کا اصول کیا ہے؟ اس کو عرف عام میں اجتہاد کہتے ہیں۔

اس مقالہ میں یں نے اپنے آپ کو اجتہاد کے پہلے درجے تک محدود رکھا ہے، یعنی قانون سازی میں مکمل اختیار۔

قدامت پسند مسلم مفکرین نے اپنی تمام تر توجہ ایک ہی نکتہ پر مرکوز کر دی اور وہ یہ کہ دور اول کے علمائے اسلامی کے تجویز کردہ قانون کو ہر قسم کے ترمیم و اضافے سے محفوظ قرار دیتے ہوئے عوام کی سماجی کی یک رنگی کو بچایا جائے۔ سماجی نظم و ضبط ان کے پیش نظر تھا۔ مگر انہوں نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ عوام کے مقدر کا حتمی انحصار تنظیم پر اتنا نہیں ہوتا جتنا کہ انفرادی شخصیات کی صلاحیت اور قوت پر ہوتا ہے۔ ایک ضرورت سے زیادہ منظم معاشرے میں ررد کی شخصیت مکمل طور پر کچلی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کا وجود بھی باقی نہیں رہتا۔ وہ سماجی فکر کی دولت سے تو مالا مال ہو جاتا ہے مگر اس کی روح مرجھا جاتی ہے۔ لہاذا گزری ہوئی تاریخ کا جھوٹا احترام اور اس کا مصنوعی احیا کسی قوم کے زوال کا علاج نہیں ہو سکتا۔

آئیے اب دیکھیں کہ (ترکی کی) قومی اسمبلی نے خلافت کے ادارے کے بارے میں اجتہاد کے اختیار کا کس طرح استعمال کیا ہے۔

ترکوں کے اجتہاد کی رو سے یہ اسلام کی روح کے بالکل مطابق ہے کہ خلافت یا امامت افراد کی ایک جماعت یا منتخب اسمبلی کو سونپ دی جائے۔ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ ترکوں کا موقف بالکل درست ہے اور اس کے بارے میں بحث کی بہت کم گنجائش ہے۔

ابن خلدون نے اسلام میں عالمی خلافت کے تصور کے بارے میں تین واضح نقطہ ہائے نظر پیش کیے ہیں

۔۱۔ عالمی امامت ایک الوہی ادارہ ہے، لہذا اس کا وجود ناگزیر ہے
۔۲۔ یہ مصلحت زمانہ کی پیداوار ہے۔
۔۳۔ اس ادارے کی قطعی طور پر کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔

آخری نقطہ نظر خوارج نے اپنایا تھا۔ کچھ یوں نظر آتا ہے کہ ترک پہلے نقطے سے دوسرے نقطہ پر آگئے ہیں جو معتزلہ کا نقطہ نظر تھا جو عالمی امامت کو محض مصلحت زمانہ تصویر کرتے تھے۔ ترکوں کی دلیل یہ ہے کہ ہمیں اپنے سیاسی افکار میں اپنے ماضی کے تجربے سے استفادہ کرنا چاہیے جو بغیر کسی شک و شبہ کے ہمیں بتاتا ہے کہ عالمی امامت کا تصور عملی طور پر ناکام ہو گیا ہے۔ یہ تصور اس وقت قابل عمل تھا جب مسلمانوں کی سلطنت متحد تھی۔ جونہی یہ سلطنت بکھری تو خودمختار سیاسی حکومتیں وجود میں آ گئیں۔ یہ تصور اب اپنی عملی افادیت کھو بیٹھا ہے اور جدید اسلام کی تنظیم میں ایک زندہ عنصر کی حیثیت نہیں رکھتا۔ چہ جائیکہ یہ کسی مفید مقصد کے لیے کارگر ہو یہ آزاد مسلم مملکتوں کے دوبارہ اتحاد کی راہ میں ایک رکاوٹ بھی ہے۔

مجھے یوں نظر آتا ہے کہ خدا ہمیں آہستہ آہستہ اس حقیقت کے ادراک کی طرف لا رہا ہے کہ اسلام نہ تو قومیت ہے اور نہ ملوکیت بلکہ ایک مجلس اقوام ہے جو مصنوعی حد بندیوں اور نسلی امتیازات کو محض پہچان کے لیے تسلیم کرتی ہے نہ اس لیے کہ ان ممالک کے اپنے اپنے سماجی آفاق کو تنگ کر دیا جائے۔

موجودہ دور کے لبرل مسلمانوں کا یہ دعوی کہ اس (دور) کے اپنے تجربات کی روشنی میں اور زندگی کے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر اسلامی کے بنیادی اصولوں کی ازسر نو تعبیرات ہونی چاہئیں، میری نظر میں مکمل طور پر جائز اور انصاف پر مبنی ہے۔ قرآن کی یہ تعلیم کہ زندگی ایک ارتقا پذیر تخلیقی عمل ہے خود اس امر کی متقضی ہے کہ ہر نسل کو اپنے اجداد کی رہنمائی میں انہیں رکاوٹ سمجھے یہ اجازت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے مسائل خود حل کر سکے۔

سچ تو یہ ہے کہ آج کی مسلمان اقوام میں سے صرف ترکی نے ہی عقیدہ پرستی کی خفتگی کو توڑا ہے اور خود آگاہی حاصل کی ہے۔ صرف ترک قوم نے فکری آزادی کے حق کا مطالبہ کیا ہے۔ صرف اسی نے تخیل سے حقیقت پسندی کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ ایک ایسا اقدام جو شدید فکری اور اخلاقی جدوجہد کا متقضی ہے۔

میرا خیال ہے کہ وہ انگریز مفکر تھامس ہابس تھا جس نے یہ گہرا مشاہدہ کیا ہے کہ ایک جیسے افکار اور احساسات کا تواتر، احساسات اور افکار کے یکسر عدم وجود کی طرف دلالت کرتا ہے۔ آج کے اکثر مسلم ممالک کی بھی تقریباً یہی حالت ہے۔ وہ میکانکی انداز میں پرانی اقدار سے چمٹے ہوئے ہیں جبکہ ترک نئی اقدار تخلیق کر رہے ہیں۔

وہ عظیم تجربات سے گزرے ہیں جو ان کے اندرون ذات کو ان پر منکشف کر رہا ہے۔ ان کے ہاں زندگی نے جو حرکت شروع کر دی ہے وہ تغیر پذیر اور وسعت پذیر ہے اور نئی خواہشوں کو جنم دے رہی ہے۔ جو سوال آج انہیں درپیش ہے اور مستقبل قریب میں دوسرے مسلم ممالک کو بھی پیش آنے والا ہے وہ یہ ہے کہ کیا اسلامی قوانین میں ارتقا کی کوئی صورت ممکن ہے؟ یہ سوال شدید فکری کاوش چاہتا ہے اور یقینا اس کا جواب اثبات میں ہو گا بشرطیکہ ہم اسوال کا ادراک اس انداز سے کریں جس انداز میں اس کی روح حضرت عمرؓ کے ہاں ملتی ہے، جو اسلامی میں پہلے تنقیدی اور طبع زاد ذہن کے حامل نقاد تھے اور جنہوں نے پیغمبر اسلامؐ کی زندگی کے آخری لمحات میں یہ قابل قدر الفاظ کہنے کی جسارت کی کہ خدا کی کتاب ہمارے لیے کافی ہے۔

جدید مسلم اسمبلی کی قانونی کارکردگی کے بارے میں ایک اور سوال بھی پوچھا جا سکتا ہے۔ کم از کم موجودہ صورت حال میں اسمبلی کے زیادہ تر ممبران مسلم فقہ (قانون) کی باریکیوں کے بارے میں مناسب علم نہیں رکھتے۔ ایسی اسمبلی قانون کی تعبیرات میں کوئی بہت بڑی غلطی کر سکتی ہے۔ قانون کی تشریح و تعبیر میں ہونے والی غلطیوں کے امکانات کو ہم کس طرح ختم یا کم سے کم کر سکتے ہیں؟

ایران کے 1906 کے آئین میں علما کی ایک الگ کمیٹی کے لیے گنجائش رکھی گئی تھی جنہیں امور دنیا کے بارے میں بھی مناسب علم ہو اور جنہیں آئین سازی کی قانونی سرگرمیوں کی نگرانی کا حق حاصل تھا۔ میری رائے میں یہ خطرناک انتظامات غالباً ایران کے نظریہ قانون کے حوالے سے ناگزیر تھے۔ اس نظریے کے مطابق بادشاہ مملکت کا محض رکھوالا ہے جس کا وارث درحقیت امام غائب ہے۔ علما امام غائب کے نمائندوں کی حیثیت سے اپنے آپ کو معاشرے کے تمام پہلوؤں کی نگرانی کے ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اگرچہ میں یہ جاننے میں ناکام ہوں کہ امامت کے سلسلے کی عدم موجودگی میں علما امام کی نیابت کے دعوے دار کیوں کر ہو سکتے ہیں۔

تاہم ایرانیوں کا نظریہ قانون کچھ بھی ہو، یہ انتظام بڑا خطرناک ہے۔ تاہم اگر سنی ممالک بھی یہ طریق اپنانے کی کوشش کریں تو یہ انتظام عارضی ہونا چاہیے۔ علما مجلس قانون ساز کے طاقتور حصے کی حیثیت سے قانون سے متعلقہ سوالات پر آزادانہ بحث میں مددگار اور رہنما ہو سکتے ہیں۔ غلطیوں سے پاک تعبیرات کے امکانات کی واحد صورت یہ ہے کہ مسلمان ممالک موجودہ تعلیم قانون کے نظام کو بہتر بنائیں، اور میں وسعت پیدا کریں اور اس کو جدید فلسفہ قانون کے گہرے مطالعے کے ساتھ وابستہ رکھا جائے۔

Source:

http://humsub.com.pk/11390/adnan-khan-kakar-77/

Comments

comments