کیا دیوبندی و سلفی مسلک میں تکفیری دہشت گردی کا تمامتر الزام سامرآج پر عائد کیا جا سکتا ہے؟ – عبد القادر
ہمارے بہت سے سوشلسٹ رجحان رکھنے والے دوست ہر بات میں سامراج کو کوستے ہیں۔۔۔ حتی کہ وہ سلفی دیوبندی دہشتگردی کو سو فیصد امریکی و دیگر سامراج کے کھاتے میں ڈالتے ہیں ۔ حالانکہ ان گروہوں کی دہشتگردئ آج کے دور کے سامراجیوں کی پیدائش سے پہلے بھی جاری تھی
بحرحال اگر سامراج کو ہی دوشی ٹھرائیں تو کیا کبھی آپ نے سوچا کہ سامراج کے آلہ کار صرف دیوبندی اور سلفی ہی کیوں بنتے ہیں؟ تاریخ گواہ یے افغانستان میں یہی کردار سامراج کے ایجنٹ کا کردار ادا کرتے رہے، روس کے خلاف چیچنیا میں یہی لوگ پیش ہیش تھے، پاکستان میں خون کی ہولی کی بات ہو یا عراق و شام میں سفاکیت کی انتہا، آپ کو یہی کردار نظر آتے ہیں۔ افریقہ میں لیبیا، مالی، صومالیہ اور نائجیریا میں بوکو حرام، القاعدہ اور الشباب کی شکل میں، انڈونیشیا اور فلپائن میں جماعت اسلامیہ اور دیگر سلفی جہادی گروہوں کی شکل میں اور امریکہ و برطانیہ میں دیوبندی و سلفی مدارس اور جہادیوں کی شکل میں یہ لوگ موجود ہیں، مشرق وسطی کی سلفی/وہابی بادشاہتیں بھی سامراج کے پنگھوڑے میں پروان چڑھیں۔۔ یہ سب آن دی ریکارڈ ہے
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ ایک عام شخص کو یہ باور نہیں کرواتا کہ سامراج کو اگر ایک لمحے پرے رکھا جائے اور بغور جائزہ لیا جائے تو کیا صاف ظاہر نہیں ہوتا کہ دیوبندی اور سلفی وہابی نظریات میں ہی بڑی زبردست گڑ بڑ ہے؟