مودی اور را کے ایجنٹ سعودی – رضی الدین رضی
مودی کے ساتھ’ سعودی‘ سے بہتر قافیہ بھی موجود ہے جس میں روانی بھی سعودی کے مقابلے میں زیادہ ہے لیکن وہ قافیہ ہم اس لیے استعمال نہیں کر رہے کہ اس کے نتیجے میں ہمارے وہ دوست ناراض ہوسکتے ہیں جن کا تعلق جماعت اسلامی ہے۔ خیر آپ کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ہم کس موضوع پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ آج کا موضوع اگرچہ چار اپریل ہونا چاہیے تھا لیکن گزشتہ روز سعودی حکمرانوں کے ساتھ بھارتی وزیراعظم مودی کی ملاقاتیں، دو طرفہ تعاون کے معاہدوں پر دستخط، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون اور سعودی فرمانرواشاہ سلمان بن عبدالعزیزکی جانب سے بھارتی وزیراعظم کے لئے سول اعزاز کی خبروں نے آپ سب کی طرح ہمیں بھی اپنی جانب متوجہ کرلیا۔
سعودی عرب اوربھارت کے درمیان دوستانہ تعلقات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن محب وطن پاکستانی اور سچا مسلمان ہونے کے ناطے ہم سب ان تعلقات سے نظریں چراتے رہے۔ ہم سعودی عرب کے ساتھ اسلام اور عقیدت کے ہزاروں سال پرانے رشتے میں بندھے ہیں۔ دوسری جانب بھارت اور خاص طورپر اس کے انتہا پسند وزیراعظم کو ہم اپنا ازلی دشمن سمجھتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ بھی ہمارا رشتہ بھی ہزاروں سال پرانی نفرت کی بنیاد پر قائم ہے اور بھارت سے نفرت کو ہم اپنے پاکستانی اور مسلمان ہونے کی دلیل قراردیتے ہیں۔ آپ کوبخوبی معلوم ہوگا کہ وطن عزیز میں بھارت کے ساتھ تعلقات اور روابط کی بات کرنے والا ہمیشہ سے را کا ایجنٹ اور پاکستان کا دشمن قرار دیا جاتا ہے۔
ہمیں بچپن سے جو بھی سبق پڑھایا گیا اور جو کہانیاں سن کر ہم جوان ہوئے اور اب ہمارے بچے انہی کہانیوں اورنفرت کے سائے میں پروان چڑھ رہے ہیں ان کالب لباب یہی ہے کہ بھارت پاکستان کی سلامتی کا دشمن ہے۔ ملک ٹوٹنے کی جو بھی وجوہات ہوں سقوط ڈھاکہ میں جس کا بھی کردار رہا ہو، ہمارا ایمان ہے اور ہمیں یقین ہے کہ یہ سب بھارت اور اس کے ایجنٹوں کا کیا دھرا تھا۔ ہم بھارت کو پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اور اب بھارت کے ساتھ ایران کو بھی برابر کا شریک قرار دینے لگے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف سعودی عرب اور بھارت کے درمیان تعاون کا جو معاہدہ ہوا ہے اس کے تحت دونوں ممالک اس حوالے سے خفیہ معلومات کا بھی تبادلہ کریں گے۔
جیسے ہم بھارت کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں بالکل اسی طرح بھارت بھی ہمیں اپنا دشمن نمبر ایک ہی قرار دیتا ہے اور مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت میں ہونے والی دہشت گردی کی بہت سی کارروائیوں کا ذمہ دار پاکستان کو قراردیتا ہے۔ پٹھان کوٹ میں ہونے والا حالیہ واقعہ اس سلسلے کی تازہ ترین مثال ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت پٹھان کوٹ سمیت دہشت گردی کے مختلف واقعات کے بارے میں ثبوت اور معلومات کا سعودی عرب کے ساتھ تبادلہ کرے گا؟ پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے سعودی عرب کی قیادت میں جو فرقہ وارانہ فوج تیار کی جا رہی ہے کیا اس معاہدے کے بعد بھی پاکستان اس میں اسی جوش وجذبے کے ساتھ شامل ہو گا؟
آخری سوال سب سے اہم ہے کہ جیسے ہم پاکستان میں بھارت کے ساتھ دوستی اورتعاون کی بات کرنے والوں کو را کا ایجنٹ اور پاکستان کا دشمن سمجھتے ہیں کیا ہم اب سعودی حکمرانوں کوبھی را کا ایجنٹ کہہ سکیں گے اورجس طرح ہم نے را کے ایجنٹ کی گرفتاری پر ایران کے ساتھ احتجاج کیا ہے کیا بھارت کے ساتھ معاہدے پر اب ہماری جانب سے سعودی عرب سے بھی کوئی احتجاج کیا جا سکے گا؟ ہمارا مسئلہ صرف یہی ہے کہ ہم اپنی خارجہ اورداخلہ پالیسیاں خطے کے حالات اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر تشکیل نہیں دیتے۔ عقیدے کی بنیاد پر بنائی جانے والی پالیسیوں کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ آپ عالمی تنہائی کا شکارہوجاتے ہیں اور جن کے ساتھ آپ عقیدے کی بنیاد پر منسلک ہوتے ہیں وہ بھی آپ کو تنہا چھوڑ کر آپ کے دشمن کا ہاتھ تھام لیتے ہیں۔
Source: