ذوالفقار علی بھٹو : جو کاشی تن تجے کبیرا ، رامے کون ہنورا – عامر حسینی
آج چار اپریل ہے اور یہ وہی دن ہے جس کی رات کو چوری چھپے راولپنڈی کی سنٹرل جیل میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پہ چڑھادیا گیا تھا اور اپنی طرف سے قصّہ تمام کردیا گیا تھا ، ان کے مرنے کے بعد فوجی جنتا نے ایک فوٹو گرافر کو بھیجا تھا اور پھانسی دئے گئے ذوالفقار علی بھٹو کو برہنہ کیا گیا اور ان کے ختنے چیک گئے لیکن افسوس کہ ذوالفقار علی بھٹو کو جنم دینے والے والدین ذوالفقار علی بھٹو کی ختنے کرواگئے تھے ورنہ ذوالفقار علی بھٹو کا برہنہ جسم اور پوشیدہ حصّے کی تصاویر راتوں رات چھاپ کر پورے ملک میں پھیلادی جاتیں اور ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں ہر ایک کی زبان پہ یہ ہوتا ہے کہ آئین کی وفاداری کا حلف اٹھانے والی غیر منتخب عسکری ہئیت مقتدرہ نے تو ایک ” ہندؤ ” کو انجام تک پہنچایا تھا جوکہ پہلے ہی پاکستان میں دائیں بازو کے پریس کے نزدیک ہندوستان کا ایجنٹ تھا اور پاکستان توڑنے کا زمہ دار تھا –
ویسے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ مرکز میں اقتدار پہ قابض ہونے والی فوجی جنتا اسے پاکستانی ریاست کا مجرم ، غدار وطن قرار دینے پہ تل بیٹھی تھی تو جس سندھ کی دھرتی سے اس کا تعلق تھا اس دھرتی کا ایک مہان قوم پرست سندھو دیش تحریک کا بانی اسے اقتدار کی ہوس میں وفاق پرست سیاست کرنے اور سندھی مفاد کے خلاف کام کرنے کا زمہ دار قرار دے رہا تھا اور اسی سندھ کی شہری اردو بولنے والی آبادی کی مڈل کلاس اسے متعصب سندھی قرار دیتے ہوئے اپنے حقوق غصب کرنے والا قرار دے رہی تھی یعنی
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا – کافر یہ کہے کہ مسلمان ہے تو
والا معاملہ تھا اور اس بھٹو سے شہری صنعتکار ، سرمایہ دار سخت نالاں تھے اور وہ اسے منوں مٹی تلے دفن کرنے کے خواہاں تھے ، اس آدمی کے ساتھ معاملہ یہ ہوا کہ اس نے اقتدار کے آخری سالوں میں اپنے اوپر ٹوٹ پڑنے والے جابر اور استحصالی طبقات سے سمجھوتہ کرنے اور ان کی شہری ، دیہی غریبوں ، محنت کشوں اور کسانوں سے مصالحت کرانے کی راہ پہ چل نکلا جبکہ اسے بخوبی علم تھا کہ یہ مصالحت کبھی نہیں ہونی اور ایسی کوشش کا نتیجہ سرمایہ دار ، جاگيردار ، شہری منافق مڈل کلاس اور ان کی مددگار مذھبی پیشوائیت کی فتح کے سوا کچھ نہیں نکلے گا
دل ہی تھے ہم دکھے ہوئے تم نے دکھا لیا تو کیا
تم بھی تو بے اماں ہوئے ہمیں ستالیا تو کیا
اس آدمی کے خواب صرف اس پاکستانی جغرافیے کے اندر قید نہیں تھے ، ایک چھوٹے سے ملک کا وزیراعظم ہونے کے باوجود یہ مڈل ایسٹ ، نارتھ افریقہ اور مشرق بعید تک کے نیو کالونیلزم سسٹم کے اندر گرفتار ملکوں کو وہ سامراجیت سے نکلنے کی تدبیریں کرنے کا درس دے رہا تھا(چاہے یہ بھاشن بھاشن سے آگے نہیں گیا تھا )اور اس پہ سفید ہاتھی کا غصّہ الگ تھا وہ اسے عبرت کا نشانہ بنانے پہ تلا ہوا تھا اور اس زمانے میں مولویوں کی چاندی ہوگئی ،
ایک سفارت خانے کا سفیر جس مولوی سے ملتا تو اس کی رگیں اس آدمی کے خلاف پھول پھول جاتی تھیں ، ملتان میں اس سفیر سے مفتی محمود نے ملاقات کی تو مفتی محمود کا سفر قومی اتحاد کی صدارت پہ جاکر تھما اور اس نے اس آدمی کا سر مانگنا شروع کردیا اور جماعت اسلامی کے مرشد اور سیدی ابوالاعلی مودودی کی عیادت بھی کام نہ آئی ، پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کے صالحین کا قبضہ کرانا بھی مفید نہ ہوا ، میں نے اسی لئے تو عبیداللہ علیم کا شعر درج کیا جس کا یہ مصرعہ کمال عکاسی کرتا ہے جو میں کہنا چاہتا ہوں
تم بھی تو بے اماں ہوئے ہمیں ستالیا تو کیا
جب یہ آدمی ایک مقدمہ قتل میں زبردستی گھسیٹ لیا گیا اور اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل کر ایک ٹرائل عدالت میں اور ایک ٹرائل پریس میں شروع کیا گیا تو ایسا لگتا تھا جیسے اگر اس آدمی کی سانس کی ڈوری اگر جلد نہ توڑی گئی تو آسمان سے پتھروں کی بارش شروع ہوجائے گی یا آسماں خود ہی ٹوٹ گر پڑے گا ، ایک مولانا نے کہا کہ
قبر ایک اور متوقع مردے دو ہیں
مقدمہ قتل کا تھا اور اس میں ہائیکورٹ کے فاضل جج صاحبان ملزم کے اچھے یا برے مسلمان ہونے کا فیصلہ کررہے تھے اور خود ملزم بھی کتنا سادہ دل تھا وہ عدالت میں عسکری ، عدالتی اور سیاسی اسٹبلشمنٹ سے مخاطب ہوکر ان کو بتانے کی کوشش کررہا تھا کہ جس ریاست کو ایک وفاق میں بڑی مشکل سے بدلا ہے اسے دوبارہ مارشل لاء کی قینچی سے نہ کاٹو ، اب کے شیرازہ بکھر گیا تو پھر سمیٹنا مشکل ہوجائے گا ، وہ اپنے ملک کے محنت کشوں ، کسانوں ، ٹپکتی چھت والوں ، طالب علموں ، اقلیتوں ، قومیتوں کی آنکھوں میں بسے خوابوں کا تذکرہ کرنے لگتا تھا اور مسند عدالت پہ بیٹھی عقل سے بڑی بھینسیں اس پر ہنستی تھیں کہ کتنا بیوقوف ہے اپنی جان بچانے کا حیلہ کرنے کی بجائے ایک منذر کی طرح تنذیر کرنے پہ لگا ہوا ہے ، مسوڑھے سوجے ہوئے ہیں ، وزن کم ہوگیا ہے ، کپڑے تن پہ ڈھیلے پڑگئے ہیں –
اسے تین دن ملے اپنا بیان ریکارڑ کرانے کے لئے اور پھر بھی ہم نے اسے وہی بھٹو پایا جو جیل سے باہر اقتدار کے دنوں میں تھا یا اقتدار سے پہلے موچی دروازے سے لیکر گاؤں ، گاؤں ، گوٹھ گوٹھ نظر آتا تھا ، وہ پوری فارم میں تھا اور ایسے لگتا تھا جیسے بنی اسرائیل کے کسی نبی کی روح اس کے اندر آگئی ہے اس کا عدالت میں بیان کیا تھا ، پیشن گوئیاں تھیں ، اس نے کہا تھا کہ 73ء کے آئین کے ساتھ کھیلواڑ بند کردو ، یہ آئین بہت مشکل سے بنا ہے ٹوٹا تو پھر نہیں جڑے گا ، اس نے کہا تھا کہ مری بیرک کی چھت پہ پتھر پھینک شور مچاکر مجھے راتوں کو سونے سے باز رکھنے سے مسائل حل نہ ہونے ہیں (نہ وہ ہوئے ) ، ضیاء الحق کو کہا کہ سیاست سے فٹبال کھیلنا بند کردو ، ذوالفقار علی بھٹو کو یقین تھا کہ اس کے ملک کے لوگ آمریت سے جان چھڑوالیں گے لیکن ان کو پتہ نہیں تھا کہ ایک آمریت سے جان چھوٹے گی تو دوسرا جہنم سامنے ہوگا اور لالچ کے اس جہنم سے کوئی بچ نہ سکے گا
زوالفقار علی بھٹو کو رات کے آخری پہر میں سولی پہ لٹکایا گیا اور یہ پھانسی رات کے اندھیرے میں چپکے سے ویسے ہی ہوئی جیسے سعودی عرب نے رات کو اندھیرے میں شیخ نمر باقر النمر کو سولی پہ چڑھایا تھا اور خاموشی سے ان کی لاش کو گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں دفن کرنے بھیج دیا تھا جہان گنتی کے چند لوگ ان کے جنازے میں شریک ہوسکے تھے – لاڑکانہ میں گڑھی خدا بحؤ کو جانے والے سارے راستے بند کردئے گئے تھے اور یہ فرض کرلیا گیا تھا کہ گڑھی خدا بخش کا دور افتادہ قبرستان میں بھٹو دفن ہوگا تو کون وہاں جائے گا لیکن آنے والے دنوں میں سیاست کا قبلہ یہی گڑھی خدا بخش ٹھہر گیا
میں نے یہ سطریں لکھیں تھیں کہ مجھے یاد آگیا کہ کسی نے لکھا تھا کہ نجانے وہ کونسے لوگ ہیں جو مکّہ و مدینہ کی بجائے اسلام کو ڈھونڈنے نجف اور کربلاء جاتے ہیں اور کہا تھا کہ کربلاء و نجف جانے والوں کا فکری دھارا اور اور سعودی عرب کو مرکز ماننے والوں کا اور ہے تو مجھے لکھنے والے کی بے بصیرتی ماتم کرنے کو دل کیا کہ جب اصل کو نجف اور کربلاء میں دھکیلا جاتا ہے تو مرکز بھی وہیں چلا جاتا ہے اور مکّہ و مدینہ بھی وہیں بس جایا کرتا ہے تو بلا تشبیہ و بلا تمثیل پاکستان میں بھٹو کی شہادت نے سیاست کو اسلام آباد کے مدینے سے بدلا اور گڑھی خدا بخش کی کربلاء میں کھڑا کردیا تھا اور اب زیارت قبر بھٹو ہی معراج سیاست ٹھہرگئی تھی اور لوگ تاریخ کے بھٹو کو بھول گئے تھے اور اب صرف ان کا اپنا بھٹو باقی رہ گیا تھا –
یہاں جنازوں میں لوگوں کی شرکت سے مرنے والے کے سعید و شقی ہونے کا پیمانہ بنانے والوں کی کمی نہیں ہے لیکن اگر اس ہی کو سعید وشقی کا معیار بنالیا جائے تو میں تاریخ کی پٹاری کو کھول کر سوال رکھوں گا ایک آگ لگے اور مجھے فسادی ، تخریب کار نجانے کیا کیا کہا جائے گا ، بیچارے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو تو نہ کفن ملا ، نہ جنازہ ، ان کو زندہ گدھے کی کھال میں سی دیا گیا اور پھر جلادیا گیا اور آج تک ان کی قبر کا نشان تک نہیں مل سکا ، نجانے ذھن کہاں کہاں بھٹک رہا ہے ، اتنا کہتا ہوں کہ 37 سال گزر گئے اور 4 اپریل کی رات ہے گزرنے کا نام نہیں لیتی ، میں نے اپنے اس مرثیہ نما کالم کا عنوان ہی کبیر کے شعر کے آخری مصرعے کو بنایا تھا اپنی اسی بات کی وضاحت کرنے کے لئے ، کبیر نے کہا تھا
کیا کاشی ، کیا اوسر مگہر ، رام ہردے بس مورا – جو کاسی تن تجے کبیر رامے کون ہنورا
کاشی ہو کہ اجڑا ہوا مگہر دونوں مرے لئے اور اگر کبیر کی روح کاشی میں تن کو تج کرکے ہی نجات پانی ہے تو اس میں رام کا احسان کیا ہے
ذوالفقار علی بھٹو کو رات کے اندھیرے میں پھانسی دینے والوں کا اپنا مستقبل تاریخ ہوگیا اور ذوالفقار علی بھٹو امر ہوگئے