جن کی چپل لہرائے ان کے مسلک کی بھد اڑاؤ – عامر حسینی
posted by Guest Post | March 31, 2016 | In Original Articles, Urdu Articlesمیں نے یہاں ایک پوسٹر دیا ہے پشاور کے ایک کالج کے پروفیسر عابد رضا کا ، اسے شعیہ ہونے کے جرم میں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تھا ۔ نوروز کے دن ریڈ الرٹ کے ساتھ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک شیعہ ہلاک ہوا جو کہ موٹر سائیکل پہ جارہا تھا اور اس کی ويڈیو ایک ٹی وی چینل 24 نے دی اور کسی نے نہیں ، ایک شیعہ پولیس آفیسر کراچی میں میں قتل ہوا ، یہ سب مارچ کے تین ہفتوں میں مارے گئے ان سب کا تذکرہ ہمارے کچھ ایسے پیجز پر دیکھنے کو نہیں ملا جن کی جانب سے چار روز میں کئی درجن پوسٹر اور ویڈیو کلپ بریلوی حتف چپل دہشت گردی اور ” مان بہن کی گالیوں پر مبنی انتہا پسندی ” کے ٹھپے لگاکر اس ملک میں رہنے والے سبھی بریلویوں کے ماتھوں پہ چسپاں کئے جاتے رہے –
اسلام آباد کے دھرنے میں جن بریلویوں کی شدت پسندی ، جنونیت اور ان کی بد تہذیبی سامنے آئی میں نے بھی اس پر کافی کچھ کہا لیکن ان سب کو اگر ہم ٹرانسلیٹ کریں زمین پہ تو ابھی تک کوئی خود کش بم دھماکہ ، کوئی ٹارگٹ کلنگ ہم ان کے کھاتے میں ڈالنے سے قاضر ہیں ہاں ایک سلمان تاثیر کا قتل ممتاز کے کھاتے میں ہے اس کو لیکر ہم سب بریلویوں کو دہشت گرد قرار دیں تو ہماری مرضی ہے –
لیکن ان تین ہفتوں میں یہ جو کراچی ، پشاور ، ڈیرہ اسماعیل خان میں شیعہ پولیس افسر ، پروفیسر اور ایک تاجر مارا گیا اس بارے میں کتنے پوسٹر آئے ، کتنی ويدیوز آئیں اور پھر وہ جو ڈی چوک میں بیٹھنے والے مظاہرین پہ فوج ، رینجرز ، پولیس چڑھانا چاہتے ہیں اور اس حوالے سے دے تصویر ، دے ویڈیو کی بھرمار کررہے ہیں انہوں نے کسی ایک تکفیری دیوبندی ملّا کی پکچر دی ، ويدیو ڈالی اور ” دیوبندی دہشت گردی گولی ” کی اصطلاح نکالی ، تین لاشیں گریں ۔
دیوبندی فرقہ کی دہشت گردی کی اصطلاح کسی سیکولر ، لبرل کے منہ سے نہیں سنی ۔ وفاقی وزیر داخلہ نے نہ کہا کہ دیوبندی فرقے کے طالبان یا دیوبندی فرقہ کی سپاہ صحابہ نہیں نا اس لئے میں نے لکھا ۔ جتنا سچ ہم بولے تم بھی بولو نا ۔ بھیا چپل سے ہیلی کاپٹر نہ گرنا تھا نہ گرا۔ گالیوں اور تھپڑوں سے کسی کا لاشہ نہ گرنا تھا نہ گرا ۔ یہاں تو تین لاشے گر گئے ۔ اس پر اتنی خاموشی کیوں ہے ۔
ان کے قاتلوں کی نظریاتی شناخت بتاؤنا ۔ جس دن سے اورنگ زیب فاروقی رہا ہوا ، تاج حنفی باہر آیا ، رمضان مینگل رہا ہوا ۔ بس وقفہ امن ختم ہوا ۔ عابد رضا ، حسین ،، باقر ، جعفر ۔ علی اکبّر ۔ ان جیسے سارے نام والے ڈاکٹر ، پروفیسر ، استاد ، دکاندار ، کسان ۔مارے جانے لگے ۔جن کے دامن پہ 22 ہزار شیعہ ، 45 ہزار صوفی سنّی اور درجنوں مسیحیوں ، احمدیوں ، ہندؤں کا خون ہے ۔ ان کے مسلک کا نام لو تو فرقہ پرست ٹھہر جاؤ ۔ اور جن کی چپل لہرائے ان کے مسلک کی بھد اڑاؤ تو روشن خیال ، سیکولر ، لبرل کہلاؤ