بیسویں صدی کا جہادی مزاج، تبدیلیاں او ر سنی تحریک – سید متین احمد
posted by Guest Post | March 29, 2016 | In Original Articles, Urdu Articlesبیسویں صدی کے نصف اول میں تحریکِ خلافت جیسی تحریکوں کے پرشور زمانے میں دین کی سیاسی تعبیر کا وجود میں آنا حالات کا ایک فطری ردعمل تھا۔ اس دور میں مستقبل کی دور بینی اور حالات کے تناظر میں سب سے اعلا اجتہاد وہ تھا، جو تبلیغی جماعت کے اکابر نے اختیار کیا اور وہ اجتہاد پرامن طریقے سے انسانیت کو اللہ کی طرف بلانے کا تھا۔
بیسویں صدی کا نصف آخر اس پرشور منظر نامے کا دوسرا سٹیج تھا جس کا مظہر افغان جہاد تھا جس میں دیوبندی جہاد کی بنیادیں پڑیں۔یہ بھی حالات کے تناظر میں ایک بالکل فطری اور مبنی براخلاص اقدام تھا۔ مستقبل کے منظر نامے سے اس وقت کوئی فرد بھی آگاہ نہیں تھا، حتی کہ وہ لوگ بھی جن کا نقطۂ نظر آج مکمل طور پر معاصر جہادی تصور کے خلاف ہے، لیکن بدلتے حالات میں اجتہادی زاویۂ نظر اپنانے میں مسلکِ دیوبند کام یاب نہیں ہو سکا۔
پاکستان میں یہ اجتہادی زاویۂ نظر دو شخصیات نے اپنایا: ڈاکٹر اسرار احمد اور جناب جاوید احمد غامدی؛ دونوں کے تصورِ جہاد میں قطبین کا فرق ہونے کے باوجود اس پر اتفاق تھا کہ تمدنی ارتقا کے نتیجے میں طاقت کا توازن بدلنے کے باعث اب مسلح تصادم ہمارے لیے خود کشی کا مترادف ہوگا۔پاکستان کا دیوبند اس اجتہاد کو نہ اپنا سکا اور اپنے کاز کے ساتھ ابتدا میں مخلص ہونے کے باوجود تشدد کی راہ پر پڑ گیا جس کی سزا وہ بھگت رہا ہے اور نہ جانے مستقبل میں کب تک بھگتتا رہے گا ! (اگرچہ تبلیغی جماعت جیسی جماعتوں کا وجود اور موجودہ نوجوان دیوبندی عنصر مستقبل کی ایک روشن علامت ہے جس میں وقت کے حقیقی مسائل پر لکھنے، سوچنے اور مطالعہ کرنے کا رجحان تیزی سے پرورش پا رہا ہے۔
بریلوی مسلک کا ان ہنگاموں سے کوئی تعلق نہیں رہا اور وہ بنیادی طور پر مخصوص کلامی مسائل اور تصوف سے وابستگی کا حامل مسلک رہا ہے۔ اگرچہ اس کی یہ وابستگی ہمیشہ غیر مشروط اور بہت سخت بنیادوں پر رہی ہے لیکن اس کے باوجود ان کی طرف سے کبھی عملی ٹکراؤ اور گن ہاتھ میں لینے کا کلچر وجود میں نہیں آیا۔
اس کے ساتھ اس مسلک میں پیرکرم شاہ صاحب الازہری رحمہ اللہ جیسی بزرگ شخصیات کا وجود ایک ابرِ کرم ہے جس نے بریلوی مسلک میں ایک مختلف مزاج کو جنم دیا ، جس میں رواداری ، مخصوص کلامی مسائل سے ہٹ کر امت کو درپیش حقیقی مسائل پر توجہ دینے کا مزاج اور دیگر خصائص شامل ہیں؛ اگرچہ پیر صاحب کو ان کی زندگی میں فتووں اور کتابوں کی شکل میں سزا دی گئی لیکن ان کی صوفیانہ طبیعت نے کسی سے انتقام کا راستہ نہیں اپنایا۔ البتہ جس طرح دیوبند کا رواداری کا حقیقی وجود پرتشدد مزاج کے باعث داغ دار ہوا، بریلوی مسلک کے اس کی مذکورہ بالا خوش آئند اور عمدہ تبدیلیوں کے حاصلات پر پانی پھیرنے کے لیے “سنی تحریک” کا خطرہ موجود ہے۔ اگرچہ یہ تحریک ابھی کسی گن کلچر دور میں داخل نہیں ہوئی ہے لیکن مستقبل میں یہ خطرہ شدت سے موجود ہے۔
ویکیپیڈیا پر “سنی تحریک” کے حوالے سے یہ عبارت درج ہے :
In April 2007, according to some sources, Sunni Tehreek members opened gunfire on an Ahl al-Hadith Mosque in Karachi. One worshiper was killed in the attack. After the attack, Western analysts described the movement as a radicalization of traditional beliefs in the Indian subcontinent.
(سال 2007ء میں ، بعض ذرائع کے مطابق، سنی تحریک کے کارکنان نے کراچی میں ایک اہلِ حدیث مسجد پر فائر کھول دیا ۔ اس حملے میں ایک نمازی ماراگیا۔ اس حملے کے بعد مغربی تجزیہ کاروں نے بیان کیا کہ یہ تحریک بھی اصل میں برصغیر میں روایتی افکارپر مبنی انتہا پسندی کی تحریک ہی ہے۔
دیوبند کے لیے مشکل حالات میں اجتہادی زاویۂ نظر اپنانے کی غلطی ہوئی ہے، لیکن بریلوی مسلک کے لیے اجتہادی زاویۂ نظر اپنانے کی مشکل سرے سے موجود ہی نہیں تھی، کیوں کہ اسے Paradigm shift کے اس مشکل مرحلے سے سابقہ پیش نہیں آیا جس سے دیوبند کو سابقہ پیش آیا تھا بلکہ ان کے لیے روزِ روشن کی طرح معروضی تناظر ہی اس بات کے لیے کافی تھا کہ سنی تحریک کسی ٹکراؤ کے مزاج پر نہ چل پڑے۔
اگرچہ ابھی ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا، لیکن مذکورہ بالا اقتباس اور موجودہ اسلام آباد مارچ اس بات کے لیے کافی ہے کہ اس صبح کا سپیدہ بہرحال پھوٹ چکا ہے۔تحریک کے بانی جناب سلیم قادری مرحوم کی تقریریں انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ ان میں وہ ہمیں تحریک کے کارکنوں کو اس طرح کے خطاب بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ سنیو! تم اگر پیشاب بھی کرو تو دیوبندی اور وہابی اس میں بہ جائیں۔ جماعتیں اپنے بانیوں کے مزاج ہی پر ہوتی ہیں، اس لیے اللہ سے خیر کی دعا ہی کی جاسکتی ہے۔ مذکورہ بالا اقتباس میں The Columbia World Dictionary of Islamism کا حوالہ دیا گیا ہے ، لیکن یہ کتاب مل نہیں سکی تاکہ اہلِ مغرب کے” سنی تحریک” کو دیکھنے کے اندازِ نظر سے مکمل آگاہی ہو سکتی۔ اس وقت مفتی منیب الرحمان صاحب جیسے اہلِ بصیرت اصحابِ علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر کوئی کردار ادا کریں اور مستقبل کا منظر نامہ ان خطوط پر استوار نہ ہو، جو آج پاکستان کے دیوبند کے لیے سوہانِ روح بن چکا ہے