دہشت گردی، بھارت، ایران اور دو سوالات – رضی الدین رضی
ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے پس منظر میں بھارتی جاسوس اور ایرانی ویزے کا تذکرہ بعض حلقے کر رہے ہیں، یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیا بھارتی فوجی افسر واقعی اس روز گرفتار ہوا جس روز اس کی گرفتاری کی خبریں نشر کی گئیں۔ کیا ایرانی صدر کی پاکستان آمد سے صرف ایک روزقبل اس کی گرفتاری کی خبر نشرہونا محض ایک اتفاق ہے یا سوچا سمجھا سکرپٹ؟ پاکستان کی جانب سے ایران کے ساتھ جو احتجاج کیا گیا اور ایران پر پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے کے جوالزامات عائد کیے گئے انہوں نے ایرانی صدرکے اس اہم دورے کو غیراہم بنا دیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان پہلے سے موجود کشیدگی کو مزید ہوا ملی اور مستقبل میں گیس پائپ لائن کے حوالے سے ان ممالک کے درمیان اگر کوئی پیش رفت ہونا بھی تھی تو سردست اس کا امکان ختم ہوگیا ہے۔ ان دونوں ممالک ہی نہیں اس قسم کی الزام تراشی کے نتیجے میں اندرون ملک بھی ہم آہنگی کی فضا مزید ناہموارہوئی ہے۔
ایک اور سوال یہ ہے کہ گزشتہ روز خودکش دھماکے کے مبینہ ملزم کے بارے میں جو معلومات سامنے آئی ہیں ان سے ظاہرہوتا ہے کہ اس کا لاہور کے ایک دیوبندی مدرسے سے تعلق تھا۔ اس سے پہلے بھی بیشتر خودکش بمباروں کے قدموں کے نشان ایک خاص مسلک کے مدارس یا تنظیموں تک ہی جاتے ہیں۔ ان مدرسوں اور تنظیموں کے فنڈز کہاں سے آتے ہیں اورکون سا برادر اسلامی ملک ان کی پشت پناہی کرتا ہے۔ اس بارے میں ہم اورآپ بخوبی آگاہ ہیں۔ جس سرعت کے ساتھ ایران سے احتجاج کیا گیا اور ایران پر دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کا الزام عائد کیا گیا کیا اسی پھرتی کے ساتھ ہم سعودی عرب سے بھی احتجاج کر سکتے ہیں؟ ان سوالات کا جواب ہمیں اور آپ کو کم ازکم اپنی زندگیوں میں تو نہیں ملے گا