ایم کیو ایم کارکنوں کا ماوراے عدالت قتل – خرم زکی

 

33 34 35

کورنگی کراسنگ سے ایم کیو ایم کے دو کارکنان کامران ثانی اور شمائل بیگ کی مسخ شدہ لاشیں برآمد۔ گھر والوں کےمطابق دونوں کو رینجرز اہلکاروں نے گرفتار کیا تھا۔ ڈی جی رینجرز بتانا پسند کریں گے کہ ان دونوں کارکنوں پر کتنے افراد کے قتل کی ایف آئی آر درج تھی اور یہ بھی کہ ماوارائے عدالت اس قتل کا ذمہ دار کون ہے؟ اور یہ بھی کہ اگر رینجرز نے یہ کام انجام نہیں دیا تو شہریوں کے جان و مال کی حفاظت میں رینجرز کی ناکامی کے بعد رینجرز کس بات کا اضافی سیکیورٹی الاونس لیتی ہے ؟ کیا کراچی کے حالات بھی بلوچستان جیسے “پرامن” کرنے کا پروگرام ہے ؟

جی ہاں یہ ہیں ایم کیو ایم کے دو مہاجر کارکنان جن کو ان کے گھر والوں کےمطابق رینجرز کچھ عرصے قبل ان کے گھر سے گرفتار کر کے لے گئی تھی اور آج ان کی یہ مسخ شدہ لاشیں کورنگی کراسنگ کے پاس سے ملیں۔ مہاجر ہونا اتنا ہی بڑا جرم ہے کراچی میں۔ واضح رہے کہ ان میں سے کامران کے متعلق تو یہ بات یقین سے معلوم ہے کہ اس پر کوئی قتل وغیرہ کا کیس نہ تھا۔ ماورائے عدالت کا یہ سلسلہ شروع کر کے کراچی کو بلوچستان بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ جو اتنا عرصے سے را را کا ڈھونگ اور ناٹک رچایا جا رہا ہے اس کا مقصد بھی ماورائے عدالت قتل اور ان مسخ شدہ لاشوں کے سلسلے کو جواز فراہم کرنا ہے۔

ہاں اسی رینجرز کو نہ مصطفی کمال کے برابر بیٹھا انیس قائم خانی دکھائی دیتا ہے اور نہ وسیم آفتاب۔ یہ دہرہ معیار قانون کا نفاذ نہیں قانون کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ دنیا کا کوئی قانون، کوئی مذہب کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے کو اس تشدد اور بربریت کی اجازت نہیں دیتا چاہے سامنے ایک مجرم ہی کیوں نا ہو۔ رینجرز اہلکاروں کو پتہ ہونا چاہیئے کہ یہ کراچی پاکستان کا حصہ ہے مقبوضہ کشمیر نہیں۔

Comments

comments