اداریہ تعمیر پاکستان بلاگ : کیا دیوبندی ریڈیکل عناصر کے ساتھ مقتدر طاقتیں پھر کسی سوشل کنٹریکٹ کرنے میں کامیاب ہوگئی ہیں ؟

1918867_10207485404867799_3783086567271911448_n

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے دیوبندی مکتبہ فکر کی سب سے بڑی سیاسی نمائندہ جماعت جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو یقین دھانی کرائی ہے کہ ” تحفظ خواتین ایکٹ 2016ء پنجاب ” میں ترمیم کے لئے ایک بل متعارف کرایا جائے گا

کاغذات میں کالعدم تنظیم اہلسنت والجماعت / سپاہ صحابہ پاکستان کے سربراہ اورنگ زیب فاروقی کو اڈیالہ جیل سے رہا کردیا گیا ہے جبکہ اس سے پہلے یکے بعد دیگرے اس تنظیم کے کئی ایک کلیدی رہنماؤں کی نظربندی ختم کرکے ان کو رہا کردیا گیا اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے

رہا ہونے والے اے ایس ڈبلیو جے / ایس ایس پی کے سرکردہ رہنماء تھے اور ان کے خلاف چاروں صوبوں ، قبائلی آزاد علاقوں بشمول گلت بلتستان میں اشتعال انگیز ، تشدد پہ اکسانے اور تکفیری فسطائی نظریات کا کھلے عام پرچار پر پرچے درج ہیں ، یہ فورتھ شیڈول میں بھی شامل ہیں لیکن اس کے باوجود ان کو خاموشی سے رہا کرنے کا سلسلہ جاری و ساری ہے – کالعدم دھشت گرد تنظیم کہلائے جانے کے باوجود تکفیری دیوبندی تنظیم اے ایس ڈبلیو جے نہ صرف پاکستانی سماج میں مسلسل سرگرم عمل ہے ویسے ہی اس کی قیادت بھی آزادی سے اپنے منافرت پہ مبنی نظریات کا اظہار کررہی ہے –

یہ تنظیم پاکستان میں شیعہ کو کافر قرار دلوانے ، اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کی شمولیت مسلح افواج ، پولیس ، انٹیلی جنس ایجنسیوں ، دیگر اعلی سرکاری عہدوں پر تعنیاتی کرنے پر پابندی لگوانے کا مطالبہ کرتی ہے ، یہ شیعہ کمیونٹی کو امام بارگاہیں بنانے ، ان کو مجالس عزا اور عاشور سمیت مذھبی رسومات و تقریبات کے انعقاد سے روکے جانے کا مطالبہ کرتی ہے اور شیعہ کمیونٹی کے خلاف سنّی کمیونٹی کے اندر منافرت پھیلانے ، دیوبندی نوجوانوں کو شیعہ کے خلاف تشدد پہ اکسانے جیسے اقدامات کرتی رہتی ہے اور اس تنظیم کی متشدد ، انتہا پسند تکفیری آئیڈیالوجی کے سبب پاکستان کے اندر نہ صرف شیعہ کمیونٹی کی نسل کشی کو ہوا ملی بلکہ صوفی سنّی کمیونٹی ، کرسچن کمیونٹی اور احمدی کمیونٹی کے خلاف بھی دیوبندی نوجوانوں نے دھشت گردانہ وارداتیں کیں – اس تنظیم کا دھشت گرد ونگ

لشکر جھنگوی اس تنظیم کے نظریہ سازوں سے ہی تربیت پاکر خوفناک قسم کی دھشت گردی کے مرتکب ہوئے – اورنگ زیب فاروقی سمیت سپاہ صحابہ پاکستان / اہلسنت والجماعت کے جتنے بھی سرکردہ لیڈران ہیں وہ کھلے عام شیعہ کمیونٹی کے خلاف کافر ہونے کے فتوے دیتے رہتے ہیں اور ان کے خلاف منافرت میں آگے آگے ہوتے ہیں جبکہ اس تنظیم کی قیادت میں مولوی اورنگ زیب کی درجنوں تقاریر سوشل میڈیا یو ٹیوب پہ موجود ہیں جس میں وہ فرقہ وارانہ مذھبی منافرت کا بھرپور اظہار کررہا ہے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ راولپنڈی میں انسداد دھشت گردی کی عدالت کا ایک جج ٹیکسلا میں اورنگ زیب فاروقی کے خلاف مذھبی منافرت پھیلانے کی پاداش میں بننے والے کیس میں ” ناکافی ثبوت ” کی بنا پر ضمانت منظور کرلیتا ہے اور ضمانت بھی دو لاکھ روپے کے مچلکوں پہ مںطور کرلی جاتی ہے ، اس سے پہلے اورنگ زیب فاروقی کے خلاف مظفرگڑھ ، بہاول پور ، خانیوال ، راولپنڈی سمیت پنجاب میں جتنے بھی مقدمات قائم تھے سب میں اس کی ضمانت قبول کرلی گئی اور عدالتوں نے ضمانت کی قبولیت کے وقت وجہ ” ناکافی ثبوت ” ہی قرار دئے –

یہاں کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان کے سرکردہ رہنماؤں کی ضمانت کی مںطوری جیسے اقدامات کا موازانہ ان سیاسی قیدیوں سے بھی کیا جاسکتا ہے جن کو نیب ، ایف آئی اے ، رینجرز نے پکڑا ہے – جیسے ڈاکٹر عاصم حسین مشیر حکومت سندھ کی گرفتاری ہے کہ ان کے خلاف ٹھوس ثبوت ابتک سامنے نہیں آسکے لیکن پہلے رینجرز نے ان کو اپنی تحویل میں رکھا ، پھر ایف آئی اے کود پڑی اور اس کے بعد نیب میدان میں آگیا – سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندہ تنظیم متحدہ قومی موومنٹ کے درجنوں کارکنوں کو رینجرز نے اپنی تحویل میں لے رکھا ہے ، کراچی جیل میں بند کارکنوں کے خلاف ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے – اور ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ رینجرز ان کے رہنماؤں اور کارکنوں پہ وفاداریاں بدلنے کے لئے ڈرانے ، دھمکانے اور مارپیٹ جیسے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے –

اس سے قبل اسی رینجرز کی تحویل میں سنّی اتحاد کونسل کے مرکزی رہنماء اور بانی انجمن نواجوانان اسلام – اے این آئی طارق محبوب کو جیسے گرفتار کیا گیا اور ان کا رینجرز کی تحویل میں ہی دواء نہ ملنے کے سبب انتقال ہوا ،اس سے بھی یہ ظاہر ہوا تھا کہ حکومت نیشنل ایکشن پلان مذھبی دھشت گردوں کے خلاف نہیں بلکہ اپنے سیاسی مخالفین اور تکفیری فاشزم کے مخالفوں کے خلاف استعمال کررہی ہے –

آج تک پولیس ، رینجرز نے سندھ میں اپنے ہی اعداد و شمار کے مطابق ان مدارس کے خلاف کاروائی نہ کی جن کے بارے میں انٹیلی جنس رپورٹ موجود ہے کہ وہ مدارس ” عسکریت پسندی ” میں ملوث ہیں – جبکہ آج تک اہلسنت والجماعت دیوبندی کے مرکزی دفتر ، صوبائی دفاتر پر کبھی کوئی چھاپہ نہیں مارا گیا جبکہ پاکستان سنّی تحریک کے مرکزی آفس کراچی ، تحریک منھاج القرآن کے مرکزی آفس واقع ماڈل ٹاؤن لاہور ، سنّی اتحاد کونسل کے صوبائی دفتر واقع کراچي پر رینجرز ، پولیس نے چھاپے مارے ، کارکنوں ، رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا ، ان کو ڈرایا دھمکایا گیا – پاکستان سنّی تحریک کے سربراہ انجینئر ثروت قادری کے پنجاب داخلے پہ پابندی عائد کی گئی – یہ سارے شواہد اس بات کا ثبوت ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان کا اصلی ہدف ” جمہوری سیکولر لبرل سیاسی جماعتیں ” ” صوفی سنّی اور شیعہ مسالک کی تنظیمیں ” ہیں – کیونکہ یہ دونوں قوتیں پاکستان کے اندر تکفیری فاشسٹ ملائیت ، ان کے سیاسی ، عسکری اور عدالتی اسٹبلشمنٹ میں بیٹھے سرپرستوں اور آل سعود سمیت عرب کی وہابی آمر حکومتوں کے گٹھ جوڑ کے خلاف سرگرم عمل ہیں

ہم سنجیدگی سے یہ سوچنے پہ مجبور ہیں کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی حکومت اور عسکری اسٹبلشمنٹ اپنے دعوؤں کے برعکس سعودی عرب کے بنائے گئے ایک فرقہ پرست فوجی اتحاد میں ریالوں کی محبت میں شامل ہوگئی ہے اور سعودی عرب کو پاکستانی فوج کے دستے اور تکنیکی و دفاعی ماہرین کرائے پر دئے جانے کا فیصلہ ہوچکا ہے ، اس لئے ان قوتوں کو آزاد کیا جارہا ہے جو اپنی وفاداریوں کو بہت پہلے آل سعود کے ہاتھوں بیچ چکے ہیں – مسلم لیگ نواز کا جے یو آئی (ایف ، ایس وغیرہ ) ، اہلسنت والجماعت دیوبندی ، وفاق المدارس وغیرہ سے روابط ڈھکے چھپے نہیں ہیں – اب تکفیری دیوبندی انتہا پسندوں کو یکے بعد دیگرے رہائی ملنا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کو مڈل ایسٹ کی فرقہ وارانہ جنگ میں جھونکنے سے روکنے والی سیاسی و مذھبی قوتوں کے خلاف محاذ تشکیل دینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے

ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ کے افعال و اقدامات سے بھی یہ صاف ظاہر ہورہا ہے کہ وہ ابھی تک اچھے اور برے ” عسکریت پسندوں ” کی تمیز باقی رکھے ہوئے ہے اور اپنے طور پر ہی جسے چاہتے ہیں ” اچھا مجاہد ” اور ” برا مجاہد ” قرار دے دیا جاتا ہے – حالیہ اقدامت سے پتہ یہ چلتا ہے کہ سپاہ صحابہ پاکستان / اہلسنت والجماعت جیسی تکفیری ، انتہا پسند ، دھشت گرد تنظیم کی قیادت کو ” اچھا اور ریاست کا تزویراتی اثاثہ ” ہونے کی سند عسکری ، عدالتی اور سیاسی اسٹبلشمنٹ کی جانب سے مل چکی ہے اور اسی لئے یہ تنظیم کاغذوں میں کالعدم قرار دئے جانے کے باوجود کھلے عام کام کررہی ہے اور اس کی قیادت کو رہائی دینے کا سلسلہ جاری و ساری ہے

Comments

comments