مولوی عبدالعزیز کے خلاف فیصلہ آگیا – وفاقی حکومت ایف آئی آر درج کراسکتی ہے
تعمیر پاکستان بلاگ کے ایڈیٹر خرم ذکی نے اسلام آباد کی عدالت میں لال مولوی عبدالعزیز کے خلاف آبپارہ اسلام آباد پولیس کی جانب سے شیعہ کمیونٹی کے خلاف منافرت پھیلانے اور پاکستان آرمی کو فرقہ وارانہ بنیادوں پہ تقسیم کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج نہ کرنے اور لیت ولعل سے کام لینے پر درخواست دائر کی تھی ، جس کو عدالت عالیہ نے اس بنیاد پہ مسترد کردیا کہ کریمنل پروسیجر ایکٹ اور پاکستان پینل کوڈ کی جن شقوں کے تحت مقدمہ درج کیا جاسکتا ہے اس میں شکائت کنندہ کا وفاقی یا صوبائی حکومت سے تعلق ہونا چاہئیے ، تاہم عدالت نے قرار دیا کہ وفاقی حکومت اکڑ چاہے تو وہ مولوی عبدالعزیز کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج کراسکتی ہے کیونکہ عدالت کے نزدیک مدعی کے لگائے گئے الزامات میں حقیقت ہے
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وفاقی حکومت مولوی عبدالعزیز کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج کرائے گی یا نہیں ؟ کیونکہ اب تک تو وفاقی حکومت نے مولوی عبدالعزیز کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام اٹھایا نہیں ہے بلکہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان تو ابتک ان کے کوئی ٹھوس ثبوت کاروائی کے لئے تلاش نہ کرپائے ، تعمیر پاکستان بلاگ نے اپنا کردار ادا کیا – ہم سول سوسائٹی اور سیکولر سیاسی جماعتوں ، مذھبی فرقہ واریت کے خلاف واضح موقف رکھنے والی مذھبی جماعتوں سے امید رکھتے ہیں کہ وہ اسلام آباد کی عدالت کے اس فیصلے کو سامنے رکھتے ہوئے وفاقی حکومت سے مولوی عبدالعزیز کے خلاف ایف آئی ار کے اندراج کے لئے کہیں گی
چودھری نثار صاحب، جج صاحب نے اپنے فیصلے میں ملا عبد العزیز عرف برقعہ پوش کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر ڈال دی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ملا عبد العزیز اور اس کے مدرسے کی طالبات کے شیعہ مسلمانوں، فوج، آئی ایس آئی اور دیگر حساس اداروں کے خلاف اشتعال انگیز، نفرت انگیز اور پاکستان کے خلاف غداری اور جنگ مسلط کرنے والے بیانات پر حکومت و ریاست پاکستان پر بھیانک خاموشی طاری ہے؟ ملا عبد العزیز کی سرپرستی کون کر رہا ہے ؟ نیشنل ایکشن پلان، تحفظ پاکستان ایکٹ ملا عبد العزیز پر لاگو ہونے سے کیوں قاصر ہے ؟ کیا یہ ملا قانون سے بالاتر ہے یا آپ کی حکومت اور سول و ملٹری اسٹیبلشمینٹ کا راج دلارا ہے کہ اس کے خلاف ایف آئی آر تک درج نہیں ہو سکتی ؟