مولانا عبیداللہ انور : کچھ یادیں، کچھ باتیں – عامر حسینی
جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم، شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ انور کا آج انتقال ہوگیا اور اتفاق یہ ہے کہ میں نے کل لاہور آتے ہوئے ارادہ کیا تھا کہ میں ان سے ملوں گا کیونکہ ایک عرصہ ہوا جب ڈاکٹر رشید جالندھری دارالثقافت اسلامیہ لاہور کے ڈائریکٹر ہوا کرتے تھے تو ان سے ادارہ ثقافت الاسلامیہ کے دفتر کلب روڈ میں ہی ملاقاتیں ہوئی تھیں
مولانا عبیداللہ انور دیوبند کے ان گنے چنے لوگوں کی لاٹ میں سے آخری گوہر تھے جن کو بخوبی یہ علم تھا کہ دارالعلوم دیوبند کا خمیر شیخ ابن تیمیہ، محمد بن عبدالوھاب اور جدید اسلامزم یعنی مودودی ازم، قطب ازم کے انتہائی مخالف ہے اور مری جب ان سے پہلی ملاقات ڈاکٹر رشید احمد جالندھری کے ہاں ہوئی تھی تو وہ آل سعود سمیت مڈل ایسٹ کی وھابی حکمران بادشاہوں اور وھابی ملائیت کے سخت ناقد تھے، وہ جمال عبدالناصر اور مصر و شام و عراق کے عرب سوشلسٹ بعث ازم کے مداح تھے، اخوان المسلمون اور سید قطب کی تکفیریت کے مخالف تھے، سید مودودی کے معیشت پہ افکار کو وہ سرمایہ دارانہ خیالات سے زائد کچھ حثیت نہ دیتے تھے اور مولانا غلام غوث ہزاروی کی طرح وہ اسے صیہونی برانڈ اسلام کہتے تھے اور وہ ذرایع پیداوار کی نجی ملکیت کے سخت خلاف تھے، بلکہ انہوں نے کہا کہ “فدک” کے ایشو پر جناب ابوبکر کا موقف اسلام میں ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کی نفی کرنے والا موقف ہے اور وہ نہی عن المخابرہ کی حدیث کو بھی جاگیرداری کے خلاف دلیل کے طور پر لایا کرتے تھے
شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ انور سے میں اس مرتبہ ملکر یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ دارالعلوم دیوبند کی جو سامراج دشمن روائت تھی کیا “سعودی عرب ” سے دوستی اور سعودی عرب ڈے منانے جیسے اقدامات اس روائت کی مطابقت میں ہیں؟ میں ان سے پوچھنا چاہتا تھا کہ جب جمال عبدالناصر نے یمن میں سوشلسٹ بعث حکومت کی مدد کی اور سعودی عرب نے اس کے خلاف جنگ چھیڑی تھی تو اس زمانے میں دیوبند کی نمائیندہ روائت کے پیروکار جمال عبدالناصر کے ساتھ کیوں کھڑے ہوئے تھے اور اس زمانے میں سعودی عرب کے خلاف جمعیت ا لعلمائے ہند کے بانی شیخ الاسلام محمود حسن دیوبندی کے وہ کلمات کیوں شایع کیے جاتے رہے جس میں انہوں نے شاہ فیصل کو لیٹرا اور سامراج کا پٹھو تک کہا تھا؟ آج کون سی چیز ہے جو آل سعود کو خادمین حرمین بناتی ہے؟
عبیداللہ انور مرحوم اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور اس طرح سے میں ان سے یادگار مکالمہ کرنے سے محروم ہوگیا ویسے پچھلے دنوں مجھے پتہ چلا کہ جامعہ اشرفیہ لاہور اب تکفیری دیوبندیوں کے چنگل میں ہے اور وہاں اس سوچ کے لوگوں کا غلبہ ہوگیا ہے اور میں یہ سوچ سوچ کر پاگل ہوا جاتا تھا کہ عبیداللہ انور کے ہوتے ہوئے یہ کیسے ممکن ہے جامعہ بنوری کراچی کے ساتھ مولانا یوسف بنوری اور ان کے داماد و بیٹے کے بعد جو ہوا وہ تو مولانا عبیداللہ انور کی حیات میں جامعہ اشرفیہ کے ساتھ ہوگیا ہے
میں کبھی تو ڈاکٹر رشید جالندھری کے بارے میں سوچتا ہوں کہ وہ بھی اس صورت حال پہ چپ کیوں ہیں اور مفتی محمود اکیڈیمی کے ڈائریکٹر فاروق قریشی صاحب اور ریاض درانی بارے خیال آتا ہے کہ وہ خاموش کیوں ہیں -شام میں بعث کی تاریخ بارے جتنا جھوٹ نام نہاد اہلسنت والجماعت بولا، جماعتی ٹولے نے لکھا اس پہ خاموشی کا کیا مطلب ہے؟ آخر محمود حسن، عبیداللہ سندھی، سمیت دیوبند کے اسلامی سوشلسٹوں کے پیروکاروں کو کیا ہوگیا ہے وہ آل سعود اور سعودی عرب کی نوکری کرنے والے مفتی نعیم، طاہر اشرفی، مولوی عبدالعزیز جیسوں کے بارے میں کیوں نہیں بولتے؟ بہت سی باتیں ہیں یاد کرنے کو، یہی لاہور شہر تھا ” سرمایہ داری کی حامی جماعت اسلامی سمیت دائیں بازو کی ملائیت ” کے خلاف مولانا احمد علی لاہوری اور ان کے رفقاء کم ٹھونک کر میدان میں آئے تھے اور وہ شیعہ پس منظر سے آنے والے کامریڈ سبط حسن و صفدر میر سے کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے ہوئے تھے اور مڈل ایسٹ کے وھابی ملوکان عرب کے خلاف بولا کرتے تھے لیکن اب تو زبان پہ لگتا ہے تالے لگے ہوئے ہیں – سوچتا ہوں کہ کوئی ہے جو دارالعلوم دیوبند کے اندر مین سٹریم سیکولر وطن پرست سوشلسٹ روایت کے کھوجانے کا نوحہ پڑھنے پہ راضی ہو، عبیداللہ انور کے جانے کے بعد تاریکی اور بڑھ گئی ہے