ایک ہاتھ میں بندوق ، دوسرے میں وائلن تھامے اپنے ملک کی بقا کی جنگ لڑنے والا غیث مصطفی – عامر حسینی
یہ تصویر حمص سے تعلق رکھنے والے گٹارسٹ غیث مصطفی کی ہے جو ایک طرف تو اپنے وطن شام کی حفاظت کی جنگ لڑرہا ہے جس کے ایک ہاتھ میں بندوق ہے تو کندھے پر اس کا وائلن دھرا ہے اور محاذ جنگ پر بھی وہ شام میں موسیقی کی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہے
یہ کہانی بیروت سے شایع ہونے والے روزنامہ الاخبار نے آج کی اشاعت میں شایع کی ہے
اور آغاز میں اخبار لکھتا ہے کہ
جنگ اور موت کے سائے میں کھیل کود ، کتابیں لکھنا اور موسیقی کمپوز کرنا یا گانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے اگرچہ موسیقی موت اور جنگ کے معاملے میں بہت حساس ہے لیکن شام کے محاذ جنگ پر بیرکوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو جنگ کے ساتھ ساتھ شامی موسیقی کو زندہ رکھنے کا کام بھی سرانجام دے رہے ہیں اور غیاث مصطفی ایسا ہی ایک نام ہے جو وائلن بجاتا ہے اور اس کام میں اسے براء قزیز کی رفاقت مل گئی ہے جو گٹار بجاتا ہے
وائلن اور گٹار کی یہ علامتیں ہمیں شام کے اندر اس جنگ کی نوعیت کو بھی واضح کرنے میں مدد دیتی ہیں جس میں ایک کیمپ تکفیری ، خارجی قوتوں کا ہے جو شام کے اندر مذھبی ، نسلی ، ثقافتی تنوع اور تکثریت کی جگہ وہابیت کو لانا چاہتے ہیں اور ان کے ںزدیک شام کی موسیقی ، شاعری ، ادب ، تھیڑ ، فلم اور یہاں مذھبی رنگا رنگی یہ سب مٹائے جانے کے قابل اور ان کے حاملین کو قتل کردیا جانا ضروری ہے اور اگر اس کی حامل کوئی خاتون رعنا ہے تو اسے ان کی لونڈی بن جانا چاہئیے جو ان کی جنسی آسودگی کا کام اپنی روح کے بار بار قتل ہونے کی قیمت پر کرتی رہے
مجھے نہیں پتہ کہ وائلن کندھے پہ دھرے اور بندوق ہاتھ میں پکڑے غیث مصطفی کی یہ تصویر آپ کے اندر کیسی ہلچل پیدا کرتی ہے مکر یقین کریں میں نہیں چاہتا کہ مرے پاکستان کے گٹارسٹ ، وائلن پلے کرنے والے ، یہاں کے ادیب ، دانشور ، شاعر ، کھلاڑی بندوق اٹھانے پر مجبور ہوں لیکن شام میں یہ ہوا کہ وہاں کے موسیقاروں ، ادیبوں ، شاعروں ، شاعرات ، ادیباؤں کو بندوق اٹھانا پڑی ، شام کی تاریخ کو مٹنے سے بچانے کے لئۓ ان کو یہ کرنا پڑا