یمن : الاصلاح اور القاعدہ دونوں سعودی عرب کے عزائم پورا کرنے میں لگی ہیں – عامر حسینی

12806221_10208932139849108_1785598675947632286_n

عبداللہ بن حسین الاحمر اور عبداللہ ابن سعود

عبداللہ بن حسین الاحمر اور سعودی پرنس محمد بن سعود السدیری

بیروت سے شایع ہونے والے روزنامہ الاخبار نے اپنی تازہ اشاعت میں یمن کے اندر جاری خانہ جنگی اور سعودی قیادت میں ہونے والی جارحیت بارے تازہ ترین صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے یمن کے علاقوں تعز ، میدی (شمالی یمن ) ، مآرب ، الجوف ( شمال مشرق اور جنوب ) میں سرگرم حزب الاصلاح اور تنظیم القاعدہ کی باہمی رشتہ داری اور سعودی عرب سے ان کے رشتوں کا خصوصی جائزہ لیا ہے – ابراہیم السرجی کا مضمون ” القاعدہ و الاصلاح اخوۃ الدم برعایۃ سعودیۃ ” دونوں تنظیموں کے باہمی تعلقات اور سعودی عرب کی یمن پر جارحیت کو تقویت پہنچانے والے اقدامات بارے عرب دنیا کو بتاتا ہے مرے خيال میں روزنامہ الاخبار بیروت کے تجزیہ نگاروں نے بالکل درست تجزیہ کیا ہے کہ سعودی عرب کے پٹھو نام نہاد صدر جمہوریہ یمن منصور عبد ربہ ہادی کا الاصلاح پارٹی کے یکے از بانیان میجر جنرل علی محسن الاحمر کو اپنی افواج کا ڈپٹی چیف مقرر کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ الاصلاح پارٹی سعودی عرب کی پٹھو حکومت میں اپنا شئیر چاہتی ہے اور سعودی عرب سے اس کی لائن سیدھی ہوچکی ہے –

جنوب میں اگر القاعدہ اور الاصلاح کی دھشت گرد کاروائیوں کا جائزہ مرتب کیا جائے تو یہ امر سامنے آجائے گا کہ یہ دونوں تنظیمیں جہاں جہاں سرگرم ہیں وہاں وہاں انہوں نے سعودی عرب کے مفادات کو آگے بڑھانے کا کردار ادا کیا ہے بلکہ حضر موت جوکہ القاعدہ کا سب سے مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا ہے وہاں پر الاصلاح اور القاعدہ نے ملکر ” مجلس کفائ ات ” بنائی ہے – بی بی سی اور دیگر انٹرنیشنل میڈیا نے بارہا ایسی تصاویر شایع کیں جن میں الاصلاح اور القاعدہ کے عسکریت پسندوں کو ملکر لڑتے دکھایا گیا تھا – ابراہیم سراجی کا کہنا ہے کہ الاصلاح پارٹی کے اکثر کیڈر تنظیم القاعدہ کے اہم ترین کمانڈر رہے اور الاصلاح کو ہمیشہ القاعدہ کی تنظیم میں اہم عہدے اور پوزیشن ملتے رہے ہیں

ابراہیم سراجی اور علی جاحظ دونوں الاصلاح کی تشکیل اور یمنی سیاست میں ان کے کردار کا تاریخی تناظر میں جائزہ لیتے ہوئے بتلاتے ہیں کہ الاصلاح پارٹی کی بنیاد عبداللہ بن حسین الاحمر نے رکھی تھی جس کا تعلق یمن کے طاقتور قبائلی کنفیڈریشن حشید سے تھا اور یہ حشید یمنی قبائلی کنفیڈریشن کبال یمنی قبائل کنفیڈریشن کے بعد سب سے بڑی قبائلی کنفیڈریشن ہے اور عبداللہ بن حسین حشید قبائلی کنفیڈریشن کی سب سے طاقتور قبائلی شاخ الاحمر کا سربراہ تھا – عبداللہ بن حسین الاحمر کے کردار کو سمجھنے کے لئے اس قبائلی کنفڈریشن کو سمجھنا بہت ضروری ہے

یہ کنفیڈریشن شمالی یمن اور شمال مغرب کے اندر موجود ہے جہاں کبال قبائلی کنفیڈریشن بھی موجود ہے – یمن کی قرون وسطی کی تاریخ میں یہ قبائل ہمدانی قبائل کہلاتے تھے اور ان قبائل کے اندر اسلام حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی کوششوں سے پھیلا تھا جب ان قبائل کی طرف جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو بھیجا تھا – ہمدانی قبائل نے وفات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ” ارتداد ” اختیار نہیں کیا تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جن قبائل( نجرانی اور تہامی قبائل ) کے خلاف حضرت خالد بن ولید نے لڑائی کی اور ان کو دائرہ اسلام میں داخل کیا وہ وفات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فوری بعد مرتد ہوئے اور انہوں نے ایک تحریک چلائی جسے ” تحریک الردہ ” بھی کہا جاتا ہے اور یہ ہمدانی قبائل تھے جن کو ہم مسلم تاریخ کے سیاسی گروہ بندی کے زمانے مں ” علوی کیمپ ” میں شامل ہونے والے یمنی قبائل کہہ سکتے ہیں اور انہی ہمدانی قبائل کے اندر حضرت زید بن علی کی اولاد کی تحریک مزاحمت نے اپنی جڑیں بنائی تھیں – حشید قبائلی کنفیڈریشن اسی ہمدانی قبائل میں سے ہے –

الاحمر قبیلہ بھی ایک عرصہ تک زیدیہ مسلک سے وابستہ رہا اور اس قبیلے کے اندر صوفی سنّی بھی بڑی تعداد میں تھے لیکن یہ عبداللہ بن حسین الاحمر تھا جس نے الاحمر قبیلے اور حشید قبائلی کنفیڈریشن میں سعودی عرب سے اٹھنے والی وہابی تحریک کی جڑیں بنانے میں اپنا کردار ادا کیا – عبداللہ بن حسین الاحمر 1933ء میں پیدا ہوا اور اس وقت تک حجاز ، یمنی صوبہ جات ، نجد سمیت کئی علاقوں پر مشتمل ایک وہابی ریاست ” سعودی عرب ” کے نام سے وجود میں آچکی تھی اور سعودی عرب کے حکمران ایک طرف تو اپنے مقبوضہ علاقوں میں ” وہابیت ” کو پھیلانے میں مصروف تھے تو دوسری جانب ان کا خاص فوکس ” یمن ” پر تھا اور وہ یمنی قبائل پر کام کررہے تھے –

سعودی پرنس عبداللہ ابن سعود السدیری سے عبداللہ بن حسین الاحمر کے خصوصی تعلقات تھے اور ان تعلقات میں 70ء کی دھائی کے آخر میں اور زیادہ گہرائی آگئی اور پھر 80ء کی دھائی میں عبداللہ بن حسین الاحمر نے الاحمر قبیلے سمیت حشید قبائلی کنفیڈریشن سے کئی یمنی نوجوانوں کو افغانستان نام نہاد جہاد لڑنے روانہ کردیا – اور یہ سعودی عرب تھا جس نے یمن کے صدر عبداللہ علی صالح اور عبداللہ حسین الاحمر کے درمیان اتحاد کرایا تھا اور جب 1990ء میں شمالی یمن اور جنوبی یمن ایک ہوگئے تو بھی عبداللہ بن حسین الاحمر کو اہم ترین کردار ملا اور اسی زمانے میں الاصلاح پارٹی کی بنیاد رکھی گئی جس میں عبداللہ بن حسین الاحمر کا کردار بنیادی تھا – الاصلاح پارٹی کی بنیاد محمد بن عبدالوہاب نجدی ، سید قطب ( اخوان المسلمون ) جیسے لوگوں کے نظریات پر استوار کی گئی تھی –

الاحمر یمنی قبائلی شاخ کو حشید قبائلی کنفیڈریشن میں شامل اکثریت کی جانب سے اس کی سعودی نوازی ، وہابیت زدگی اور القاعدہ جیسی تنظیموں کی جانب جھکاؤ کی وجہ سے کافی تنقید اور مخالفت کا سامنا ہے – 90ء کی دھائی کی بعد عبداللہ بن حسین الاحمر نے الاصلاح پارٹی کے ساتھ عبداللہ علی صالح کی حکومت سے اشتراک اس لئے بھی کرایا تھا کہ یمن میں سوشلسٹ سیاسی حلقوں کو کاؤنٹر کیا جاسکے اور اس بات کا اعتراف خود شیخ عبداللہ بن حسین الاحمر نے اپنی خودنوشت میں کیا ہے –حشید قبائلی کنفیڈریشن نے اگرچہ شمالی یمن میں تھیوکریٹک ریاستی طرز حکمرانی کے خلاف 62ء میں بڑی زبردست تحریک کا آغاز کیا تھا اور اس میں الاحمر قبیلے کا بڑا کردار تھا لیکن اس وقت اس تحریک کی باگ دوڑ شیخ عبداللہ کے والد الحسین بن ناصر الاحمر کے ہاتھ میں تھی اور وہ بلاشبہ ایک انقلابی تھے اور صوفیانہ خیالات کے مالک تھے –

لیکن عبداللہ بن حسین الاحمر نے اپنے قبیلے کی باگ دوڑ سنبھالنے کے بعد سے سعودی عرب کے ہاتھوں میں کھیلنا شروع کردیا تھا اور الاصلاح پارٹی میں وہ سعودی کیمپ کی سب سے بڑی آواز تھے اور اس سلسلے کو ان کے جانشین صادق الاحمر نے بھی جاری رکھا – عبداللہ بن حسین الاحمر کی وفات 2009ء میں ریاض سعودی عرب کے ہسپتال میں ہوئی جہاں پر وہ سعودی عرب کے خرچے پر زیرعلاج تھے اور جب ان کی وفات ہوئی تو سعودی عرب کے زیر کنٹرول میڈیا نے ان کو زبردست خراج عقیدت بھی پیش کیا ، اس حوالے سے سعودی نواز جریدے ” شرق الاوسط ” میں ایک آرٹیکل بھی شایع ہوا

http://english.aawsat.com/…/article55246156/the-ahmar-sheikh

سعودی عرب اور اس کے اتحادی اپنے پٹھو اور گماشتوں کی حکومت کا قیام کرنے کے لئے سرگرداں ہیں اور ایک حقیقی ، خود مختار ، آزاد اور مساوات کا حامل یمن کے قیام کو ممکن بنانے کی کوششیں کرنے والی آوازوں کو خاموش کرانے کا سلسلہ جاری و ساری ہے – ویسے حشید قبائلی کنفیڈریشن کی اکثریت نے الاحمر قبائلی شاخ سے علیحدگی اختیار کرلی ہے خاص طور پر سعودی عرب کی قیادت میں یمن پر حال ہی ایک مارکیٹ پر بمباری میں 250 جانوں کے ضیاع پر الاحمر شاخ تنہائی کا شکار ہوئی ہے

Source :

http://www.al-akhbar.com/node/253253

Comments

comments