تین بنیادی غلطیاں – عامر خاکوانی
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے کچھ کام فوری نوعیت ہیں، ہنگامی طور پر ایک شارٹ ٹرم سٹریٹجی بنا کر آغاز کرنا ہوگا۔ اپنے پچھلے کالم (ہفتہ ، تیس جنوری)میں اس پر تفصیلی بات ہوئی، دلچسپی رکھنے والے قارئین نیٹ پر یا میری فیس بک وال پراسے پڑھ سکتے ہیں۔آج لانگ ٹرم سٹریٹجی پر بات ہوگی۔ طویل المدت حکمت عملی سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ اس پر عمل کرنے میں طویل عرصہ لگا دیا جائے، یہ کام بھی فوری شروع ہونے والا ہے،لیکن اسے مستقل پالیسی کے طور پر لمبے عرصے کے لئے چلانا ہوگا۔ سکیورٹی وغیرہ کے انتظامات تو انشاءاللہ اگلے ایک دو برسوں میں دہشت گردی کا معاملہ ختم ہونے یا بہت کم ہونے کے بعد ریلیکس کئے جا سکتے ہیں، مگر جو بنیادی فیصلے ریاست کو بطور طویل المدت پالیسی کے لینے ہوں گے، وہ چلتے رہنے چاہئیں تاکہ ماضی کی غلطیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنے حال کو بہتر اور مستقبل کو محفوظ بنایا جاسکے۔یہ سب اس وقت تک نہیں ہوسکتا ، جب تک ہم اپنی اہم ترین بنیادی غلطیوں کی نشاندہی نہ کر لیں، ان سے ہونے والے نقصانات، تباہ کاری کا درست ادراک نہ ہوجائے…. تب ہی ریاستی ادارے اپنی تیس سال سے جاری پالیسی تبدیل کر سکیں گے۔
ہمارے ہاں بعض ایشوز کے حوالے سے ایک جنرلائزڈ قسم کی عمومی رائے دے دی جاتی ہے، انگریزی میں جس کے لئے بلینکٹ سٹیٹمنٹ (Blanket statements) کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ جس طرح قالین اپنے نیچے سب چیزچھپا لیتا ہے، اسی طرح یہ بلینکٹ سٹیٹمنٹ بھی ایک خاص من پسند تاثر قائم کر دیتی ہے، لیکن کئی اہم زمینی حقائق اس کے تلے دب کر نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ اس کی بڑی مثال 80ءکے عشرے میں روس کے خلاف افغان تحریک مزاحمت کو سپورٹ کرنا اور” سٹریٹجک ڈیپتھ“ کی تھیوری کا مذاق اڑانا ہے۔بعض اوقات کوئی خاص پالیسی اپنے تناظر میں درست ہوتی ہے، لیکن اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے (Execution Process)میں غلطیاں ہوجاتی ہیں، اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ وہ پالیسی تھی ہی غلط۔ اس لئے کہ کہیں اور اسی پالیسی پر بہتر انداز میں عمل ہوا اور نتیجہ مختلف نکلا۔
افغان پالیسی ہی کو لے لیتے ہیں۔افغانستان میں اصل مسئلہ سوویت یونین کے گھسنے سے پیدا ہوا۔سوویت یونین جسے اس زمانے میں سفید ریچھ سے تشیبہ دی جاتی تھی، اس کا افغانستان میں حملہ معمولی اقدام نہیں تھا۔ ایک سپرپاور جب اپنے ہمسایہ اور ایک طرح سے حلیف ملک میں باقاعدہ طور سے گھس کر وہاں کٹھ پتلی حکومت بٹھا دیتی ہے تو یہ جارحیت اس کے آنے والے عزائم کو ظاہر کرتی ہے۔ افغانستان کے ہمسایہ ممالک نے روسی جارحیت کی مزاحمت کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان ان میں سرفہرست تھا۔ پاکستان کے لئے یہ محض ایک ہمسایہ ملک میں کسی سپر پاور کی مداخلت نہیں تھی۔روسی افواج کا افغانستان میں بیٹھ جانا پاکستانی سالمیت کے لئے مستقل خطرہ تھا، ہم پاک افغان سرحد کو غیر محفوظ بنانے کارسک نہیں لے سکتے تھے، بھارت ہمارے لئے مستقل درد سر تھا،پاکستان کی تمام تر دفاعی منصوبہ بندی مشرقی سرحد پر ممکنہ بھارتی جارحیت کے خطرے کے پیش نظر تھی، اگر ایسی کسی جارحیت کی موجودگی میں افغان بارڈر سے بھی حملہ ہوجائے تو پھر پاکستان کسی بھی صورت میں لڑائی نہیں لڑ سکتا ۔
افغانستان جیسے ہمسایہ ملک کو اپنے لئے پرامن اور دوستانہ بنانے کا نام ہی سٹریٹجک ڈیپتھ ہے۔ جو افغان نوجوان لڑنے کے لئے تیار ہوئے تھے، ان کی اکثریت مذہبی جذبات رکھنے والی تھی ، ویسے بھی اس زمانے میں دو ہی نظریے یا گروپ تھے، مذہبی یعنی رائٹ ونگ اور اس کا مخالف لیفٹ ونگ(سوشلسٹ ، کمیونسٹ)۔ کمیونسٹ روس کی مخالف مذہبی افغان ہی کر سکتے تھے۔ ان کی حمایت کرنے کا فیصلہ ہوا ، یوں انجینئر گلبدین حکمت یار،استاد ربانی ، مولوی یونس خالص، استاد سیاف ، پروفیسر مجددی وغیرہ کے گروپ وجود میں آئے۔،یوں بیسویں صدی کی سب سے بڑی گوریلا جنگ لڑی گئی، جس کے نتیجے میں سوویت یونین کو شکست کھا کر افغانستان سے نکلنا پڑا۔ آج ہمارے ہاں بہت سے دانشور اور تجزیہ کار یہ سوچ رکھتے ہیں کہ افغان تحریک مزاحمت کو سپورٹ کرنا ایک بڑی غلطی تھی، جس کا خمیازہ آج ملک وقوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ بدقسمتی سے آج ہمارے ہاں جو ابتری کا عالم ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ بلینکٹ سٹیٹمنٹ درست معلوم ہوتی ہے، لیکن ایسا ہے نہیں۔
ہمارے نزدیک افغان تحریک مزاحمت کو سپورٹ کرنا بالکل درست تھا۔سچ تو یہ ہے کہ(بھارت کے سب سے بڑے سرپرست) سوویت یونین کو افغانستان میں جمنے نہ دینا صرف امریکہ کے مفاد میں نہیں بلکہ پاکستان کے لئے بھی یہ زندگی موت کا سوال تھا۔ پاکستان کی افغان پالیسی اور سٹریٹجک ڈیپتھ پر تنقید کرنے والے یہ نہیں دیکھتے کہ افغانستان کے ایک اور ہمسایہ ملک ایران نے کیا کیا تھا؟کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایران بھی وہی سب کچھ کیا جو پاکستان نے کیا تھا؟ پاکستان جتنے نہ سہی، لیکن لاکھوں افغان ایران میں بھی پناہ گزین ہوئے ۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ ایران کا سب سے بڑا دشمن امریکہ اور عراق ایران جنگ کے تناظر میں عراق کے سرپرست سعودی عرب، کویت، امارات وغیرہ اس جنگ میں روس کے خلاف کھڑے تھے۔ ایرانیوں کو تو اپنے ناپسندیدہ مخالف ممالک والی پالیسی کی حمایت کے بجائے سوویت یونین کی طرف چلے جانا چاہیے تھا، مگر ایرانیوں نے ایسا نہیں کیا۔ انہیں معلوم تھا کہ اگر سوویت یونین افغانستان میں جم کر بیٹھ گیا تو پھر وہ ایران میں بھی دخل اندازی کرتا رہے گا، دوسرا ایرانی بھی افغانستان میں اپنی سٹریٹجک ڈیپتھ چاہتے تھے ۔
یہ کریڈٹ البتہ ایران کو دینا چاہیے کہ اپنی افغان پالیسی پر عمل درآمد انہوں نے ہم سے بہت بہتر انداز میں کیا۔ انہوںنے افغان مہاجرین کونہایت سختی سے کیمپوں تک محدود رکھا اور ایرانی معاشرے میں انہیں سرائیت نہیں ہونے دیا، دوسرا انہوں نے افغانستان کے ہزارہ گروپو ں کو ہر طرح سے سپورٹ کیا،مگر اپنے ایرانی شہریوں کو افغانستان کی جنگ میں نہیں جھونکا۔ نوجوانوں کو تربیت دے کر وہاں بھیجا ، نہ ہی اپنے مدارس سے لڑکے وہاں جانے دئیے۔ ایرانیوں نے کلاسیکل انداز میں پراکسی وار لڑی ۔پراکسی وار(Proxy War)کی تعریف ہی یہی ہے کہ وہ ملک براہ راست شامل نہ ہوبلکہ اس کی پراکسی یعنی کوئی اور گروپ، تنظیم وہ لڑائی لڑے۔ ایران نے ایک اور عمدہ کام یہ کیا کہ اس جیت کو گلوری فائی نہیں کیا۔امریکہ نے یہی کیا۔
انہوں نے اپنے امریکی نوجوانوں کو شامل نہیں ہونے دیا، سوویت یونین کے خلاف اپنی جنگ ہم لوگوں سے لڑوائی، پھر جیسے ہی کام پورا ہوا، خاموشی سے پیک اپ کیااور چلتا بنا۔ اس کا کریڈٹ لینے کی ہرگز کوشش نہیںکی، کوئی پراسرار مجاہد، چیختے چلاتے یا خاموش جنگجو سامنے نہیں آئے۔
پاکستان کی اصل غلطی یہ تھی کہ یہ سب کچھ پراکسی وار کے انداز میں کیا ہی نہیں گیا۔ہمیں اپنے لوگ اس میں براہ راست ہرگز شامل نہیں کرنے چاہیے تھے۔ پاکستانی نوجوانوں کو تربیت دے کر افغانستان لانچ کرنا، ان سے پوری گوریلا جنگ لڑوانا درست نہیں تھا۔ آخری تجزیے میں یہ خوفناک غلطی ثابت ہوئی۔ اس میں مزید بھیانک پہلو اس وقت شامل ہوا، جب ایک خاص بیانیہ دے کر ہمارے دینی مدارس سے لڑکے شامل کئے گئے، عرب ریاستوں سے پرجوش جہادی جذبات رکھنے والوں کو آنے دیا گیا۔ مصر میںصدر سادات کے قاتلوں سے لے کر عرب ریاست کے سخت گیر سلفیوں ،مشرق وسطیٰ کے تکفیری سوچ رکھنے والوں تک ہر ایک کو نہ صرف آنے بلکہ اپنی مرضی سے آپریٹ کرنے دیا گیا۔ یہ پراکسی وار نہیں تھی بلکہ جلتے الاﺅ کو ایسی بے احتیاطی سے پھلانگنا تھا، جس سے کرتے کے دامن کو آگ لگ جائے، خواہ اس کا علم کچھ دیر بعد ہو۔
اس پراکسی وار کو پھر غیر ضروری طور پر گلوریفائی کیا گیا۔ اس پر کتابیں لکھی گئیں، جرنیلوں کو ہیرو بنایا گیا، سوویت یونین کو شکست دینے کا ہار خود ہی اپنے گلے میں پہنایا گیا۔ اس کی قطعی ضرورت نہیں تھی۔ جس کی ضرورت تھی، وہ کیا گیا، اس کے بعد اس سب کو خاموشی سے دفن کر دینا چاہیے تھا،جیسا کہ دنیا بھر میںکیا جاتا ہے۔ پھر ایک خاص طویل وقفے. بیس پچیس سال بعد یہ چیزیں سامنے آتیں تاکہ پراکسی وار میں حصہ لینے والے تب تک پرامن معاشرے کا حصہ بن جائیں ، وہ خبط عظمت کا شکار نہ ہوجائیں اور نئے ایڈونچرز کی تلاش میں نہ نکل پڑیں۔
اس پراکسی وار کو سٹریٹجک وکٹری کہا جا سکتا تھا، مگربدقسمتی سے افغان کمانڈروں کی نااتفاقی اور خانہ جنگی نے اسے ایک ٹیکٹیکل وکٹری ہی رہنے دیا، چند برسوں بعد دوبارہ طالبان کو لانے کا کشٹ بھی ہمیں ہی اٹھانا پڑا۔ یہ مگر تیسری غلطی ہوسکتی ہے، دوسری غلطی سوویت یونین کے نکلنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں وار تھیٹر میں شامل ہونا ہے۔اگلی نشست میں اس پر تفصیل سے بات کرتے ہیں۔
Source:
http://inkishaf.tv/2016/02/01/2904/