اُسلوبِ فتاویٰ، ایک جائزہ – امجد عبّاس
مفتی صاحبان کے رد والے فتاویٰ کا جائزہ لیا جائے تو بخوبی اندازا ہوتا ہے کہ صاحبانِ فتویٰ خود مدعی اور خود ہی منصف قرار پاتے ہیں، یہیں سے معاملہ خراب ہو جاتا ہے۔
فتاویٰ کے علاوہ دنیا کے کسی شعبے میں مدعی ہرگز منصف نہیں بن پاتا۔ مدعی کی اپنی نفسیات ہوتی ہے، وہ مخالف کو ہر حال میں شکست دینے کے درپے ہوتا ہے، جبکہ انصاف کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، مفتی حضرات پہلے بطورِ مدعی، ہر الزام و اتہام مخالف پر دھرتے ہیں، پھر منصف بن کے سزا سنا دیتے ہیں۔
میں نے کئی فتاویٰ کو ملاحظہ کیا، یہ اِسی روش سے صادر ہوتے ہیں، یوں یہ بے وقعت قرار پاتے پاتے ہیں۔
ایک معروف دینی دار الافتاء کے اِس فتویٰ کو دیکھیے، فریقِ مخالف کے خلاف، بطورِ مدعی، بے جا تہمتوں کو گنوایا گیا ہے، پھر مفتی صاحبان نے بطورِ منصف یک طرفہ فیصلہ بھی دے ڈالا۔۔۔
ملاحظات:
فتویٰ میں مذکور ہے کہ بوہری اور آغا خانی کافر ہیں کیونکہ
– یہ تحریفِ قرآن کے قائل ہیں۔
– شراب و زنا کو حلال جانتے ہیں۔
اب خدا لگتی کہوں بوہروں کا ہرگز ایسا کوئی عقیدہ نہیں، آغا خانی بھی شراب و زنا کی حلیت کے ہرگز قائل نہیں ہیں۔
آخر میں شیعہ حضرات کو آڑے ہاتھ لیکر فرماتے ہیں کہ اِن اِن عقائد کا حامل شیعہ کافر ہے، میں چیلنج سے کہتا ہوں کہ ایسے عقائد والا کوئی “شیعہ” دنیا میں موجود ہی نہیں۔
کاش علماءِ کرام، فتاویٰ صادر کرنے سے پہلے، مخالف گروہوں کے نظریات، انہی سے دریافت کر لیتے تو فتاویٰ اپنی اہمیت نہ کھوتے۔