پاکستانی طالبان بمقابلہ افغانی طالبان
آرمی پبلک سکول پشاور بمقابلہ باچا خان یونیورسٹی چارسدہ
باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے ذمے داری ملا اختر منصور والے طالبان گروپ نے قبول کی ہے، جبکہ ملا فضل اللہ گروپ کے خراسانی نے کہا ہے کہ اس حملے سے انکا کوئی تعلق نہیں۔ سلیم صافی نے جیو نیوز پر عائشہ بخش کے پروگرام میں کہا- کوئی سلیم صافی کو بتائیں کہ آرمی پبلک سکول پر حملہ پاکستانی طالبان ملا فضل اللہ نے کیا تھا اور باچا خان یونیورسٹی پر حملہ افغانستان کے طالبان ملا اختر منصور گروپ نے قبول کی ہے تو پاکستانی اور افغانی طالبان میں فرق کیا ہے؟
ہم تو روز اوّل سے بتا رہے ہیں کہ افغانی طالبان یا پاکستانی طالبان میں کوئی فرق نہیں لیکن آپ جیسے نام نہاد سینئیر صحافی ہو یا اوریا مقبول یا وزیراعظم کے مشیر اعظم عرفان صدیقی جیسے دانشور (داعشور) پوری قوم کو گمراہ کرتے رہے اور افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کے بیانیہ کے مؤجد ہیں
اب اوریا مقبول ہوں یا انصار عباسی، جاوید چوہدری ، خود سلیم صافی ہو یا حامد میر جو افغانستان طالبان کے شیدائی ہیں اور ملا عمر کو امیرالمؤمنین کہتے رہے ان سب کیخلاف ضرب غضب شروع کرنے کا وقت آ پہنچا ہے۔ حکومت کو چاہئیے کہ مندرجہ بالا افراد کے پچھلے پانچ سال کے کالم اور ٹی وی پروگراموں کا تجزیہ کریں اور افغانی طالبان کے حق میں دلائل دینے والوں سے حساب لیا جائے۔
باچا خان یونیورسٹی کے پروفیسر اور طالبعلموں کا خون ان سب کے ہاتھ پر صاف دیکھا جا سکتا ہے جو افغانی طالبان اور ملا عمر کے شیدائی تھے۔ شام اور عراق کا داعش، دنیا بھر میں پھیلی القاعدہ، نائجیریا کے بوکو حرام، صومالیہ کے الشباب سمیت پاکستانی طالبان سپاہ صحابہ، اہل سنت والجماعت ، لشکر جھنگوی اور افغانی طالبان تکفیری وہابی، تکفیری سلفی، اور تکفیری دیوبندی ہیں، اور ان میں کوئی فرق نہیں، سب خونخوار وحشی درندے ہیں، انکی تعریف کے لیئے مجھے الفاظ نہیں مل رہے۔