طالبان کا مقدمہ، ایک جائزہ – امجد عباس
چارسدہ یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد، تحریکِ طالبان کے ایک دھڑے کے سربراہ خلیفہ عمر منصور کی ویڈیو سُنی، اُن کا بنیادی مقدمہ یہی تھا کہ پاکستان کا آئین، غیر اسلامی ہے۔ یہاں طاغوتی نظام ہے۔ جمہوریت شرک ہے۔ طاغوتی و مشرکانہ نظام سے وابستہ سبھی لوگ «مرتد» ہو چکے ہیں۔
میرا خیال یہ ہے کہ اِس ویڈیو کو دیکھا جائے تو «طالبان» سے بڑے مجرم وہ مفتی صاحبان اور اربابِ مدارس ہیں، جو دن رات پاکستانی آئین کو «غیر اسلامی» اور نظامِ حکومت کو «طاغوتی» گردانتے نہیں تھکتے، میڈیا دن رات ایسے پروگرام دکھاتا ہے، یہ علماء اسلام آباد میں بھی موجود ہیں۔
اب اگر یہ باتیں درست ہیں تو “طالبان” بے قصور ہیں، اگر “طالبان” مجرم ہیں تو یہ مفتی صاحبان بہ درجہِ اولیٰ مجرم ہیں۔
دہشت گردوں کے خلاف کاروائی سے پہلے ایسے مفتی صاحبان، اربابِ مدارس اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کاروائی ضروری ہے، تب ہی دہشت گردی سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔
نوٹ: افغانستان سے پہلے، اسلام آباد میں “طالبان” کے مراکز کے خلاف کاروائی کی جائے