مفتی شامزئی کے فتوے کی بنیاد پر ہونے والی طالبان دہشت گردی – امجد عباس
آج تحریکِ طالبان پاکستان کالعدم کا بلاگ دیکھ رہا تھا، یہ الگ بات کہ اُسے پی-ٹی-اے نے ابھی تک بند نہیں کیا۔ اِس بلاگ پر مولوی فضل اللہ خراسانی کے بیانات اور مفتیانِ تحریکِ طالبان کے فتاوے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
یہاں پر ایک معروف دیوبندی ادارے کے، مفتی کا “فتویٰ” بھی لگایا گیا ہے جِس میں صراحت سے لکھا گیا ہے
امریکہ نے اسلامی خلافتِ افغانستان پر حملہ کیا، سبھی مسلمانوں پر امریکہ کے خلاف جہاد فرض ہو گیا ہے۔
جو مسلمان “افغان طالبان” کی حکومت کی مخالفت کرتا ہے وہ دین سے خارج ہے۔
امریکہ کے حمایتی سبھی مسلمان حکمران، حقِ حکمرانی کھو چکے، اب اُن کو ہٹانا لازم ہو چکا۔
(اِس مفتی صاحب نے آلِ سعود و دیگر عرب ریاستوں کے حکمرانوں کا ذکر نہیں کیا جو امریکہ کے اصل حامی ہیں، اب یہ مدرسہ بھی “آلِ سعود” کی خدمت میں پیش پیش ہے)
سب مسلمانوں پر افغان طالبان کی مدد فرض ہے، اب جہادِ بدنی کریں یا مالی یا فکری۔۔۔
نوٹ:
آج کی دہشت گردی کو فکری غذا انہی فتاویٰ نے دے رکھی ہے، دیوبندی علماء کا فریضہ ہے کہ وہ بلا اگر، مگر کے کھُل کے، اِن درندوں سے لا تعلقی کریں۔
موجودہ حالات میں ایسے فتاوے جاری نہیں کیے جا سکتے، علماء کرام کو دیکھنا ہوگا کہ اِن کے ایسے فتاویٰ کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے!
ہمیں ایسے فتاویٰ سے اور دہشت گردوں سے مکمل بے زاری کا اعلان کرنا ہوگا، لیکن میں جانتا ہوں میرے کئی دوست اِن فتاویٰ اور دہشت گردوں کا دفاع اب بھی کریں گے۔