مولانا فضل الرحمان سے باچا خان یونیورسٹی کے طلباء ناراض کیوں ہیں ؟ – عامر حسینی
کیونکہ مولانا فضل الرحمان تو اتنے بزدل ہیں کہ آج تک انہوں نے یہ نہیں تسلیم کیا کہ ان پر حملہ کرنے والے وہی تحریک طالبان پاکستان والے تھے جن کو وہ آج تک نام لیکر برا بھلا نہیں کہہ سکےکیونکہ مولانا فضل الرحمان کی جماعت کے ایک سابق رکن نے ہی باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی زمہ داری قبول کی ہے
کیونکہ مولانا فضل الرحمان کے بقول پاکستان مين طاغوتی قوتیں سیکولر قوتیں ہیں جن میں اے این پی سرفہرست ہے تو ان کا ایک سابق رکن کہتا ہے جب یہ طاغوتی قوتیں ہیں اور کفریہ نظام کی پیروکار ہين تو یہ کافر ہیں اور ان کے خلاف جہاد بالقتال فرض ہے ، مولانا کا پڑھایا ہوا سبق لیکر انہوں نے یونیورسٹی میں قاتل درندے بھیجے اور آج جب وہ تعزیت کے لئے یونیورسٹی میں ان کو طلباء کی جانب سے شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑا
یہ واقعہ ان سب کے لئے نوشتہ دیوار ہے جو طالبان کو کبھی تو اپنے بچے کہتے ہیں اور کبھی ان کے ہمدرد بنکر سامنے آتے ہیں
دارالعلوم دیوبند کی مذھبی قیادت کو یا تو اپنے اکابرین کی سیکولر نیشنلسٹ سوچ کو کفریہ کہہ کر مولانا حسین احمد مدنی ، مولانا حفظ الدین سیوھاروی ، عبیداللہ سندھی ، محمود حسن اسیر مالٹا ، مولانا ارشد مدنی ، مولانا اسعد مدنی سمیت ان تمام لوگوں کو کافر قرار دینا ہوگا جنھوں نے برملا کہا تھا کہ ” قوم اور نیشنلٹی کی بنیاد مذھب نہیں وطن ہوا کرتا ہے ” اور لفظ قوم میں ہر وہ شخص شامل ہوتا ہے جو اس وطن میں پیدا ہوا ہوتا ہے ، ان کے نزدیک ریاست کا سربراہ ہندؤ نہرو ہو یا کوئی مسلمان یا کوئی سکھ ا پارسی اس سے اسلام کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا-
پاکستان بننے سے پہلے سیکولر نیشنل ازم اسلام تھا اور سرحد پار آج بھی ہے مگر مولانا فضل الرحمان ، مولانا سمیع الحق سمیت دیوبندی علماء کو آج یہ کفر اور طاغوت کا نظام لگتا ہے ، کوئی جواب ہے آج کے دار العلوم دیوبند کے ان ساتھیوں کے پاس جو آج بھی جناح کے مقابلے میں مولانا حسین احمد مدنی کے موقف کی حمایت کرتے ہیں ، یاد رہے کہ مولانا فضل الرحمان اپنا سیاسی رشتہ مدنی کی جمعیت العلمائے ہند سے جوڑتے ہیں اور خود کو جمعیت العلمائے ہند کی سیاست کا وارث کہتے ہیں نہ کہ اشرف علی تھانوی و شبیر احمد عثمانی کی سیاست کا مکڑ یہ دو رنگی ہے کہ جب پاکستان کی بات ہو تو یہاں سیکولر نیشنل ازم کفر بن جاتا ہے اور جب تقسیم ہند کی بات آئے تو قبلہ مدنی صاحب کی بصیرت پر داد کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں –
پاکستان ٹوٹا تھا تو مفتی محمود نے کہا تھا کہ خدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ تھے ، اور اسی گناہ کو ثواب بلکہ عین ایمان ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے فضل الرحمان سے یہ سوال بنتا ہے اگر قوم وطن سے تشکیل پاتی ہے تو وہ طالبان کے اینٹی سیکولر نیشنلسٹ سیاسی نظریہ کی مخالفت کرکے ان کو رد کیونکر نہین کرتے اور یہ کیوں نہیں کہتے کہ سیاست بارے وہ نطریات جو جمعیت العلمائے ہند ، آل انڈیا کانگریس اور باچا خان کی خدائی خدمت گار تحریک کے رہنماؤں یعنی گاندھی و مدنی و باچا خان کے تھے درست تھے ۔ یہ کہنے کے ۂئے ضمیر کا زندہ ہونا ضروری ہے
https://www.facebook.com/JahangirKTareen/videos/971509036249022/