’زندگی کا سرمایہ اور محافظ چلا گیا‘
خیبر پختونخوا کے شہر چارسدہ میں واقع باچا خان یونیورسٹی پر بدھ کی صبح تکفیری دیوبندی دہشت گردوں کے حملے میں ہلاک ہونے والے 20 افراد میں سے دو یونیورسٹی کے استاد تھے۔
ہلاک ہونے والوں میں یونیورسٹی کے شعبہ کیمیا کے لیکچرار سید حامد حسین بھی شامل ہیں۔
بتیس سالہ حامد حسین خیبر پختونخوا کے ضلعے صوابی کے رہنے والے تھے اور پشاور یونیورسٹی کے کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ مکمل کرنے کے بعد وہ تین برس سے وہ باچا خان یونیورسٹی میں پڑھا رہے تھے۔
حامد حسین کے بھائی اشفاق حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کے بھائی نے سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر کے بہت محنت سے پی ایچ ڈی کی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ تین بھائیوں میں حامد درمیان میں تھے اور اُن کے خاندان میں سب سے زیادہ تعلیم حامد نے ہی حاصل کی تھی۔ حامد کے ایک بھائی صوابی میں دکان چلاتے ہیں جبکہ دوسرے بھائی اشفاق سعودی عرب میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔
اُن کے بھائی اشفاق کا کہنا ہے کہ ’حامد ہماری زندگی کا سرمایہ تھا۔ وہ اب نہیں رہا۔‘
اہل خانہ کا کہنا ہے کہ حامد حسین چارسدہ میں یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ہی رہتے تھے اورہفتے اور اتوار کو اپنے خاندان کے پاس صوابی آتے تھے۔
اُن کے بھائی کے بقول تحقیق کے لیے وہ ایک سال تک برطانیہ میں مقیم رہے لیکن ڈگری مکمل کرنے کے بعد انھوں نے پاکستان میں رہ کر درس و تدریس کرنے کو ترجیح دی۔ یونیورسٹی کے طلبہ حامد حسین کو استاد سے زیادہ دوست سمجھتے تھے۔
یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ اپنے ٹیچر کو ’محافظ‘ کے نام سے پکارتے تھے، جو ہر وقت اُن کے مسائل کو سننے، حل کرنے اور مدد کے لیے موجود ہوتے تھے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ شدت پسند بدھ کی صبح جب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں داخل ہوئے تو حامد نے اپنے پستول سے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا اور ہاسٹل میں موجود دیگر طالب علموں کی حفاظت کی۔
حامد حسین کے بھائی کہتے ہیں کہ اُن کے بھائی نڈر، بہادر اور بہت محب وطن تھے۔
ایک طالب علم ظہور احمد نے بتایا کہ فائرنگ کی آواز سننے کے بعد حامد حسین نے انھیں خبردار کیا کہ بلڈنگ سے باہر نہ جائیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’سر کے ہاتھ میں پستول تھی لیکن پھر انھیں گولی لگی اور وہ گر گئے۔ میں نے دیکھا کہ دو شدت پسند فائرنگ کر رہے تھے۔‘
نوجوان استاد حامد حسین دو کم سن بچوں کے باپ تھے اور اُن کی ایک بیٹی کی عمر صرف 11 ماہ ہے اور پسماندگان میں دو بچوں کے علاوہ بیوہ اور ماں بھی ہیں۔
دوسروں کے لیے محافظ کا کردار ادا کرنے والے شفیق استاد حامد دہشت گردوں کی گولی کا نشانہ بنے اور اپنے آخری سفر پر چلے گئے لیکن زندگی کے کٹھن سفر میں اُن کے کم سن بچے اور ضعیف ماں اکیلے رہ گئے۔
Source: