ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف خوانساری کا اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون کے نام خط
جواد ظریف ایرانی وزیر خارجہ نے یو این کے جنرل سیکرٹری بان کی مون کے نام ایک خط لکھا ہے اور اس خط میں انھوں نے بان کی مون پہ واضح کیا ہے کہ
ایرانی صدر حسن روحانی کی پالیسی اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن سے رہنے، مذاکرات کے ذریعے سے مسائل کا حل تلاش کرنے اور تعلقات بڑھاتے چلے جانے پر مشتمل ہے
ایران مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارایت کو ہوا دینے کے سخت خلاف ہے اور وہ تہذیبوں کے تصادم کی بجائے ان کے درمیان مکالمے کو فروغ دینے کا خواہاں ہے
جواد ظریف خوانساری نے اپنے اس اہم ترین خط میں سعودی عرب اور ایران کے درمیاں کشیدگی اور تنازع پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ
جب سے ایران اور عالمی چھت طاقتوں کے درمیان ایرانی ایٹمی پروگرام پہ ایک عبوری معاہدہ طے پایا ہے اور اس سال اس معاہدے کے مستقل ہونے کے امکانات روشن ہورہے ہیں تو سعودی عرب مسلسل اشتعال انگیزی سے کام لے رہا ہے اور اس ایشو پر ایران و عالمی طاقتوں کی بات چیت کے ہی مخالف تھا اور پھر جب یہ بات چیت شروع ہوئی تو اس نے معاہدہ ہونے میں روکاوٹ کھڑی کرنا شروع کیں اور اب جب سے معاہدہ ہوا ہے وہ اس کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہا ہے، اس نے ایران کے خلاف منفی پروپیگنڈا ساز چھوڑ رکھے ہیں اور وہ ایران کے ہی خلاف نہیں بلکہ شیعہ؟ اعتدال پسند سنی اور دیگر مذھبی برادریوں کے خلاف پراپیگنڈا کرنے میں مصروف ہے
جواد ظریف خوانساری نے اپنے خط میں بان کی مون کی توجہ دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی کی طرف مبذول کراتے ہوئے لکھا ہے کہ پیرس، سان برنارڈینو امریکہ سے لیکر بیروت تک اور وہاں سے الجزائر تک سب جگہ یا تو سعودی نیشنل دہشت گردی میں ملوث پائے گئے یا سعودی اسکولوں سے پڑھے ہوئے اس دہشت گردی میں ملوث ہیں، جواد ظریف نے سعودی عرب، داعش، القائدہ، نصرہ فرنٹ کے درمیان نظریاتی اشتراک کا ذکر بھی کیا
جواد ظریف خوانساری کہتا ہے کہ یہ سعودی عرب ہے جس نے پہلے شام میں داخلی تنازعے میں مداخلت کی اور پھر یمن کی سول وار میں مداخلت کی اور یمن پر حملہ آور ہوا اور اب وہ ایران پر جنگ مسلط کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے
جواد ظریف کا کہنا تھا کہ سعودی عرب ایران کو اشتعال دلانے کی پوری کوشش کررہا ہے اور وہ فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی سے کام لیکر جنگ کرنا چاہتا ہے لیکن ہم اشتعال انگیزی کے جواب میں تحمل اور امن و مکالمے کی بات کررہے ہیں
نوٹ : جواد ظریف کا یہ خط سعودی عرب کے بارے میں ایک چارج شیٹ ہے اور مجھے ایران پہ جنگ مسلط کرنے کی سازش یا منصوبہ سے یاد آیا کہ یہ سعودی عرب تھا جس نے ایران پہ عراقی صدر صدام حسین کو حملہ کرنے پر اکسایا تھا، “اس زمانے میں یہ جنگ بھی بالواسطہ ایرانیوں پہ سعودیوں نے مسلط کی تھی، عراق کو فرقہ وارانہ سول وار اور شام کو فرقہ وارانہ سول وار میں کن طاقتوں نے جھونکا جواب صاف ہے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے
اس معاملے کو ایک اور نظر سے بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب کے شاہ سلمان، سعودی وزیر خارجہ، سعودی وزیر دفاع، سعودی چیف آف آرمی سٹاف کے بیانات کا جائزہ لیں سب کے سب ایک طرف تو جنگجو بیانات دے رہے ہیں تو دوسری طرف وہ فرقہ وارانہ زبان میں بات کررہے ہیں
شیخ نمر باقر النمر کی پھانسی پر میں نے سعودی مفتی اعظم آل شیخ، مصری سلفی عالم احمد النقیب سمیت کئی ایک لوگوں کے ویڈیو پیغامات سنے ان سب کا خلاصہ یہ تھا کہ
شیعہ اسرائیل سے بڑا خطرہ ہیں اور ایران مڈل ایسٹ میں سب سے بڑا خطرہ ہے اور یہ کہ ایران کو صفحہ ہستی سے مٹادینا چاہئیے اور پھر شکر، بدعت، گمراہی کے فتوے الگ سے تھے
اس سارے معاملے کو لیکر میں یہ ضرور کہوں گا کہ ایران -سعودی بائنری کی عینک ٹھیک نہیں ہے اور پاکستان کو اس معاملے میں سعودی عرب پر زور دینا چاہئیے کہ وہ بات چیت سے معاملے کو حل کرے اور اپنی فوج کو مڈل ایسٹ سے بس دور ہی رکھنے میں بھلائی ہے