پاکستان کے سعودی نام نہاد دفاعی اتحاد میں شمولیت کی مخالفت کیوں۔ خرم زکی
کچھ تکفیری خوارج، سعودی گماشتوں اور ان کے ٹٹوؤں، کالعدم تکفیری دہشتگرد گروہوں کے خیالات کے برعکس پاکستان کی سعودی اتحاد میں شمولیت خود یمن، عراق اور شام میں جاری جنگ کے لیئے کوئی بڑا گیم چینجر ثابت نہیں ہونے والی اور اس کی مخالفت اس وجہ سے نہیں کی جا رہی کہ خدا نخواستہ پاکستان کی اس نام نہاد دفاعی اتحاد میں شمولیت سے سعودی عرب یمن، عراق اور شام پر مسلط کردہ جنگ جیت جائے گا۔ ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ سعودی عرب بھی پاکستان کی اس اتحاد میں شمولیت کا خواں کسی فوجی ساز و سامان اور جنگی طیاروں کی وجہ سے نہیں۔ روایتی فوجی ساز و سامان سعودی عرب کے پاس پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔ سعودی عرب ریال و ڈالر کے عیوض ہمارے فوجیوں کو خریدنا چاہتا ہے۔ جی ہاں یمن، عراق و شام پر تمام تر برتری کے باوجود سعودی عرب یہ جنگ کیوں نہیں جیت سکا ؟ یمن میں اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ سعودی عرب کے پاس فوجی ساز و سامان تو ہے لیکن جنگ لڑنے والے فوجی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب ابی تک یمن میں زمینی افواج داخل نہیں کر سکا۔ جی ہاں آل سعود کے پاس میدان جنگ میں جانیں قربان کرنے والے لوگ نہیں۔ سعودی عرب کو ریال کے عیوض یہ بھاڑے کے ٹٹو چاہیئں۔ سعودی عرب کے پاس یہ بھاڑے کے فوجی حاصل کرنے کا دوسرا طریقہ تکفیری وہابی و دیوبندی آئیڈیالوجی ہے (اور اس میں وہ دیوبندی و سلفی شامل نہیں جو تکفیر کے مرض میں مبتلا نہیں)۔ سعودی عرب ایک عرصہ سے دنیا بھر میں پراکسی جنگ کے لیئے اسی تکفیری نظریہ کو استعمال کر رہا ہے۔ طالبان، لشکر جھنگوی، اہل سنت والجماعت (سابقہ کالعدم انجمن سپاہ صحابہ)، جند اللہ (ایرانی و پاکستانی)، داعش، القاعدہ، جبہ نصرہ، بوکو حرام وغیرہ اسی تکفیری نظریہ کی ایکسٹینشن ہیں جن کو آل سعود دنیا بھر میں اپنے تزویراتی و حربی مقاصد کے فروغ اور ان کو آگے بڑھانے کے لیئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ جیسا کہ آپ با آسانی دیکھ سکتے ہیں کہ ان سعودی پراکسیز کا ہدف کوئی ایک ملک و فرقہ نہیں بلکہ ان تکفیری دیوبندی و وہابی دہشتگردوں کا نشانہ ہر مذہب و مسلک اور ہر قوم و ملت رہی ہے ( اس بات کی وضاحت اس لیئے بار بار ضروری ہوتی ہے کہ بعض سعودی گماشتے و کمرشل لبرل اس دہشتگردی کو جھوٹی شیعہ سنی و ایران سعودی عرب مثنویت و تقابل کے طور پر پیش کرتے ہیں)۔ پاکستان سےعالمی تکفیری دیوبندی وہابی دہشتگرد گروہ داعش کے لیئے بھرتی ایک عرصے سے جاری ہے جس کا ابتدا میں پاکستانی حکومت انکار کرتی رہی لیکن جب میڈیا میں یہ خبریں تواتر کے ساتھ آنے لگیں تو اقرار کرنا پڑا۔ داعش کے لیئے اس بھرتی کی نرسری کوئی اور نہیں بلکہ تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی اور وہی کالعدم دہشتگرد گروہ ہیں جو اسی ہزار سے زائد پاکستانیوں کا خون بہا چکے۔ لیکن یہ کالعدم دہشتگرد گروہ اور بھاڑے کے ٹٹو بھی مشرق وسطیٰ میں سعودی مفادات کے تحفظ میں ناکام رہے ہیں اور شام و عراق میں داعش کی مسلسل شکست اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ یمن میں بھی سعودی عرب حوثیوں کو، باوجود تمام تر بمباری اور یمنی عوام کے قتل عام کے، شکست دینے میں ناکام رہا ہے۔ اس صورتحال میں سعودی عرب کو کسی بخشو کی تلاش ہے جو آل سعود کی آمریت و بادشاہت کی بقاء کے لیئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیئے تیار ہو۔ پاکستان چوں کہ افغانستان میں امریکی مفادات کی جنگ لیئے اپنی سرزمین ماضی میں امریکہ و سعودی عرب کے حوالے کر چکا ہے اسی لیئے دوبارہ نظریں پاکستان کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ ماضی میں بھی امریکی مفادات کی حفاظت کو اسلام کی حفاظت کا نام دے کر جماعت اسلامی اور اسی قبیل کے دیگر گروہ افغانستان میں امریکی و سعودی مفادات کو تحفظ فراہم کرتے رہے، آج بھی یہی گروہ اور ان کے تیار کردہ ذہن وہی پرانی زبان بولتے نظر آ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاکستانی فوج کو دوبارہ اسی سعودی جنگ کا ایندھن بنا دیا جائے۔ ہاں اس کے عیوض ہمیں ریال و ڈالر ضرور ملیں گے لیکن چوں کہ ہدف اس دفعہ بالواسطہ نہیں بلکہ بلا واسطہ ایران ہے اس لیئے اس جنگ کا نتیجہ خود پاکستان میں کیا ہو گا وہ ملاحظہ فرمائیں
ا۔ یہی کالعدم دہشتگرد گروہ، جن کے خلاف پاکستان کی مسلح افواج پچھلے ڈیڑھ سال سے آپریشن ضرب عضب کر رہی ہیں اور جس پر جماعت اسلامی اور دیگر انتہا پسند دہشتگرد گروہوں کو شدید تحفظات ہیں اور جو اس کو امریکہ کی جنگ قرار دیتے رہے ہیں، ایک دفعہ پھر مضبوط ہونا شروع ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ انہی کالعدم گروہ کے ارکان اور جماعت اسلامی کے کارندے سب سے زیادہ اس دفاعی اتحاد کے حق میں بولتے نظر آ رہے ہیں کیوں کہ ان گروہوں کی روزی روٹی ہی سعودی عرب کی بدولت چلتی ہے۔
ب۔ پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کی نسل کشی، سنی صوفی بریلویوں، مسیحی برادی، احمدی کمیونٹی پر دہشتگرد حملوں میں اضافہ ہو جائے گا کیوں کہ سعودی عرب کی سرپرستی میں چلنے والے مسجد و مدارس جو ایک عرصے سے تکفیری نصاب و فکر پاکستانی معاشرے میں پھیلا کر ہمارا سوشل فیبرک تباہ کر چکے ایک دفعہ پھر پہلے سے زیادہ ایکٹو ہو جائیں گے۔ گویا پاکستانی معاشرہ مذید تیزی کے ساتھ انتہا پسندی و دہشتگردی کی آماجگاہ بنتا جائے گا۔ اور 80 کی دہائی کا جنرل ضیاء کا دور دوبارہ واپس آ جائے گا۔
ج۔ جماعت اسلامی سمیت وہ تمام کالعدم دہشتگرد گروہ جو ایک عرصے سے پاکستان میں طالبان کی جنگ کو پرائی جنگ قرار دیتے رہے ہیں اور اب اس سعودی جنگ کو اپنانے پر بضد ہیں وہ جانتے ہیں کہ پاکستانی فوجی دستوں کی بیرون ملک کسی بھی لڑائی میں شمولیت کا لازمی نیتجہ ہماری افواج کے جانی و مالی نقصان کی صورت میں نکلے گا اور یہ صورتحال ان ملک دشمن گروہوں کے لیئے بہت مسحور کن ہو گی جو پہلے ہی پاکستانی فوج کو مرتد و ناپاک قرار دیتے ہیں۔
د۔ سب سے زیادہ گھمبیر صورتحال ہمارے مشرقی بارڈر پر ہو گی۔ جی ہاں افغانستان کے بارڈر پر تو ہمیں فوج لگانے کی ضرورت پڑ چکی لیکن ایران کے ساتھ بارڈر پر آج تک ہمیں فوج لگانے کی ضرورت نہیں پڑی اور پاکستان کی آزادی کے بعد سے یہ واحد بارڈر ہے جو سب سے زیادہ پر امن رہا (میڈیا میں اس بات کا تذکرہ نہیں ہوتا) گو بعض امریکی، اسرائیلی و سعودی گماشتوں نے اسے جند اللہ کے ذریعہ غیر محفوظ بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ایران کے خلاف سعودی اتحاد کا حصہ بننے کا لازمی نتیجہ اس بارڈر کا غیر محفوظ ہو جانا ہے۔ بلوچستان میں جاری علیحدگی پسندی کی تحریک اور پاک چین اکنامک کاریڈور کی تعمیر کے پس منظر میں ایسی کوئی بھی صورت پاکستان کے اپنے تزویراتی مقاصد کے لیئے نا قابل برداشت ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ہماری مغربی سرحدیں انڈیا کے ساتھ جاری مسلسل چپقلش اور انڈین مقبوضہ کشمیر میں زور پکڑتی تحریک آزادی کی وجہ سے پہلے ہی کافی دباؤ لے رہی ہیں، اور افغانستان کے اس پار سے نہ صرف بلوچستان میں جاری علیحدگی پسند تحریک کو ہوا دی جا رہی ہے بلکہ پاکستانی طالبان کو بھی کمین گاہیں فراہم کر دی گئی ہیں۔ چین کے ساتھ شمال میں ہماری سرحد گلگت و بلتستان کے علاقے ہیں جو شیعہ اکثریتی ہیں اور اکنامک کوریڈور انہی شیعہ اکثریتی علاقوں سے گزر کر چین جائے گا۔
ہ۔ جی ہاں ایسے کسی نام نہاد دفاعی اتحاد میں شمولیت کی صورت میں پاکستانی افواج تو سعودی مفادات کا ایندھن بنیں گی لیکن کیا سعودی اور دیگر عرب ممالک کی افواج بھی انڈیا کے خلاف اور کشمیر کی آزادی کے لیئے میدان جنگ میں آئیں گی ؟ نہیں جناب بخشو کی یہ قربانی یکطرفہ ہو گی۔
ایسی صورتحال میں ایران کے خلاف کسی سعودی فرقہ وارانہ اتحاد کا حصہ بننا نہ صرف پاکستان معاشرے کو فرقہ واریت کی طرف دھکیلنا ہو گا بلکہ پاکستان کے تزویراتی اہداف پر براہ راست ضرب لگانا ہو گا اور اس نام نہاد دفاعی اتحاد میں شمولیت کی مخالفت انہی وجوہات کی بناء پر ہے۔ حالیہ واقعات سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ سعودی عرب کا 34 رکنی اتحاد دہشتگردی اور داعش کے خلاف نہیں، جو سعودی عرب کی بغل بچہ تنظیم ہے، بلکہ اس کا اصل ہدف ایران ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس مجوزہ نام نہاد دفاعی اتحاد میں داعش سے حقیقی جنگ لڑنے والے 4 ممالک (ایران، عراق، شام و روس) شامل ہی نہیں کیئے گئے۔