تکفیر و شرک کے تاجروں کی جانب سے شیعہ سنی مسلمانوں کو ایرانی پراکسی قرار دینے کا سلسلہ – عامر حسینی
آج کل مرے زھن میں ایک سوال بڑی شدت سے کھلبلی مچائے ہوئے ہے اور وہ یہ ہے
اہلسنت والجماعت / پاکستان علماء کونسل / جمعیت علمائے اسلام (سمیع الحق ) اور لال مسجد بریگیڈ کے نظریہ ساز جب پاکستان میں ” ایرانی پراکسی ” کی بات کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد کیا ہوتی ہے؟
مثال کے طور پر جب میں سعودی عرب کی پراکسی کی بات کرتا ہوں تو اس میں پروپیگنڈا پراکسی کے طور پر میں دیوبندی اور سلفی حضرات میں سے ان لوگوں کو اپنے سامنے رکھتا ہوں جو
پاکستان کے اندر شیعہ اور صوفی سنیوں کے خلاف تکفیری مہم چلائے ہوئے ہیں اور وہ شیعہ کو کافر جبکہ صوفی سنیوں کو مشرک کہتے ہیں اور یہ سب سے زیادہ سنی عوام کو شیعہ سے تعلق توڑنے اور ان کے خلاف آٹھ کھڑا ہونے کو کہتے ہیں اور یہ شیعہ کو بھوت و عفریت بناکر پیش کرتے ہیں اور ان کا یہ بھی تھیسس ہے کہ شیعہ اسلام اس وقت سنی اکثریت کے ممالک کے لئے امریکہ و اسرائیل سے بھی بڑا خطرہ ہے ( یاد رہے کہ میں کسی بھی مذھب کو مسلم معاشروں کے لئے خطرہ نہیں مانتا )
اس وقت ایران کی جانب سب سے زیادہ جھکاؤ جن گروپوں کا ہے ان میں
مجلس وحدت المسلمین
تحریک جعفریہ
شیعہ علماء کونسل
جعفریہ الائنس
اور چند دیگر چھوٹی موٹی تنظیمیں ہیں جبکہ ایران کے اپنے مراکز خانہ فرھنگ وغیرہ ایک عرصہ ہوا بہت ہی غیر فعال ہیں
میں ایران نواز شیعہ دائیں بازو کا کبھی بھی حامی نہیں رہا جیسے میں سنی دائیں بازو کا کبھی حامی نہیں رہا ہوں لیکن کیا مجھے کوئی بتاسکتا ہے کہ جن تنظیموں کے میں نے اوپر نام لکھے ہیں ان تنظیموں نے کسی بھی جگہ صوفی سنی (جوکہ پاکستان کی اکثریتی مسلم آبادی ہے ) کو مشرک قرار دیا ہو، دیوبندی کو کافر قرار دیا ہو، اہلحدیث کو کافر قرار دیا ہو اور اس کی کمپئن چلائی ہو اور ان میں کوئی پاکستان کے اندر تکفیری ڈسکورس چلا رہا ہو اور اس نے شیعہ آبادی کو سنیوں کا سماجی مقاطعہ کرنے کا کہا ہو
دوسرا سوال یہ ہے کہ ایران کی اس وقت عرف عام میں اگر کوئی پراکسی موجود ہے تو وہ کیا ہے؟ شیعہ انقلاب کے فوری بعد سے ایرانی سب سے زیادہ اپنے وسائل اگر کسی چیز پر خرچ کررہے ہیں تو وہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ دوسرے مسالک و مذاہب سے تعلق رکھنے والے لیڈروں کو اپنے ہاں بلانا اور ان کو یہ پیغام دینا کہ وہ امین وحدت ہیں
اس سلسلے میں پاکستان سے انہوں نے قاضی حسین احمد سے لیکر مولانا خان محمد شیرانی، سمیع الحق، حافظ ادریس، طاہر القادری، مفتی گلزار نعیمی، لیاقت بلوچ اور دیگر لوگوں کو بلایا اور ان کے ہاں ” ہفتہ وحدت المسلمین ” بڑے زور و شور سے منایا جاتا ہے، وہ کرسچن، ہندو، پارسی، یہودی، دیروزی، میرونائٹ سب کے ساتھ ” صلح کل ” کا پیغام شئیر کرتے ہیں اور مجھے پاکستان، مصر، عراق، شام، لبنان، شمالی افریقہ، یورپ و امریکہ میں ان کی یہی حکمت عملی نظر آتی ہے، ان کا جو سپریم لیڈر ہے خامنہ ای وہ بھی اسی پالیسی پہ عمل پیرا ہے
شیعہ کا دوسرا بڑا مرکز اب عراق ہے اور اس کی باغ دوڑ حیدر العبادی کے ہاتھ ہے اور روحانی باگ آیت اللہ سیستانی کے پاس ہے ان کی پالیسی بھی صلح کل ہے اور اسے ہم پراکسی کہیں تو اس کا ڈسکورس بھی تکفیری تو ہرگز نہیں ہے
اب آئیے سعودی عرب کی پاکستان میں مذھبی پراکسی کی جانب اس حوالے سے سب سے پہلا اور بڑا نام جو ہے وہ سپاہ صحابہ پاکستان کا ہے جو آج اہلسنت والجماعت دیوبندی کے نام سے کام کررہی ہے
اسی سپاہ صحابہ سے پاکستان علماء کونسل نکلی ہے اسی سے پاکستان راہ حق پارٹی ہے اور اسی ہی سپاہ کی بہت بڑی تعداد
جمعیت العلماء سمیع الحق اور نظریاتی دھڑوں میں موجود ہے جبکہ اسی سپاہ کی بہت بڑی تعداد سندھ میں جے یو آئی ایف کا حصہ ہے ان کا جتنا بھی پروپیگنڈا اور مواد ہے اس کا سارا زور شیعہ کے کافر ہونے، صوفی سنیوں کے مشرک ہونے پر ہے اور یہ کسی قسم کے شیعہ -سنی اتحاد کے قائل نہیں ہیں اور یہ شیعہ اسلام، صوفی اسلام ان دونوں کو مغرب، یہ یہود و نصاری اور ہندوں کی سازش قرار دیتے ہیں، اسے ہم. بجا طور پر خارج کرنے اور تکفیر کرنے، تکثریت مخالف ڈسکورس کہہ سکتے ہیں
میں ایرانی پولیٹیکل اسلام ازم اور سعودی پولیٹکل اسلام ازم دونوں کو مذھبی پیشوائیت کے زمرے میں گردانتا ہوں، دونوں کو تھیوکریٹک ریاست کے حامی خیالات جانتا ہوں لیکن کیا ان دونوں کے ڈسکورس کو ہم ایک ہی ڈسکورس کہہ سکتے ہیں؟ کیا تکفیری ڈسکورس اور اس سے جنم لینے والی تکفیری فاشسٹ تباہی کو ہم ایرانی وحدت پراکسی کے ساتھ ملا سکتے ہیں؟ کیا آپ تحریک جعفریہ، شیعہ علماء کونسل یا جعفریہ الائنس اور وحدت المسلمین کو سپاہ صحابہ پاکستان اور اس سے جنم لینے والی تنظیموں کے برابر ٹھہرا سکتے ہیں؟
یہ ہے وہ سوال جو ان سب لوگوں سے ہے جو شیعہ – سنی بائنری کی عینک سے سب معاملات دیکھنے اور دکھانے کے شائق ہیں