مذہبی تشدد پسندوں کا دیوبندی اور سلفی منہج سے استنباط – از عمار خان ناصر

Post Banners

تشدد پسند ذہن اپنے لیے دینی استدلال کسی بھی منہج فکر سے اخذ کر سکتا ہے۔ تشدد کا رویہ ایک خاص ذہنی سانچے سے پیدا ہوتا ہے اور اس کی تشکیل میں فہم اور استدلال کا کردار محض ثانوی ہوتا ہے، بلکہ دراصل اس طرز فکر میں استدلال، فکر کے تابع اور اس کا خادم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاصر تشدد پسند عناصر کا تعلق مختلف قسم کے مناہج فکر سے دکھائی دیتا ہے۔ یہ عنصر سلفی طرز فکر میں بھی ہے، اخوانی اور جماعتی طرز فکر میں بھی اور دیوبندی طرز فکر میں بھی اور سب کو اپنے اپنے فکری مآخذ میں ایسے استدلالات مل جاتے ہیں جو تشدد پسند ذہنی رو کے موید ہوتے ہیں۔ چنانچہ کسی مخصوص منہج فکر سے ان عناصر کی عمومی وابستگی کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کرنا غیر منطقی ہوگا کہ دراصل وہ منہج فکر اس رویے کو پیدا کرنے کا ذمہ دار ہے۔ اس طرح کے تبصرے مخالف مناہج فکر کو بدنام کرنے کا ایک طریقہ تو ہو سکتے ہیں، لیکن انھیں سنجیدہ علمی تجزیے کا درجہ دینا مشکل ہے۔

ہاں، ایک بات درست ہے کہ وہ تمام روایتی دینی مکاتب فکر جو تاریخ وتہذیب میں پیدا ہونے والی جوہری تبدیلیوں کو اپنے نظام فکر میں علی وجہ البصیرت کوئی جگہ نہیں دیتے اور قدیم فقہی وتاریخی اصطلاحوں میں اپنا ورلڈ ویو پیش کرتے ہیں، وہ سب مشترک طور پر ان ذہنی ابہامات اور الجھنوں کو تقویت پہنچانے کے ذمہ دار ہیں جن سے، آگے چل کر تشدد پسندی کا رویہ جنم لیتا ہے

Comments

comments