امریکہ میں تاشفین ملک کے ہاتھوں قتل عام اور الہدیٰ کا کردار – از علامہ عمار خان ناصر

55 56

محترم ومکرم جناب ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب نے اس ضمن میں راقم کی رائے دریافت فرمائی ہے کہ تاشفین ملک والے واقعے سے کیا یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ الہدی نامی تنظیم فہم دین کے جس انداز کو پیش کرتی ہے، اسے بآسانی شدت پسندی کے لیے ہائی جیک کیا جا سکتا ہے، چاہے تنظیم کے مرکزی راہ نما اس سوچ کی تبلیغ نہ کرتے ہوں؟

جواب میں عرض ہے کہ مجھے اس تجزیے سے پورا اتفاق ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ شدت پسندی دراصل حد سے متجاوز رد عمل کی نفسیات سے پیدا ہوتی ہے اور یہ طرز فکر اپنا جواز مذہبی مآخذ سے نہیں، خود اپنے داخل سے ہی اخذ کرتا ہے اور ایک خاص ذہنی سانچہ بن جانے کے بعد نصوص کی طرف رجوع کرتا ہے تاکہ وہاں سے اپنے زاویہ نظر کے حق میں دلائل تلاش کر سکے۔ اس لیے ہر ایسا دینی انداز فکر جو کسی علمی اور اصولی منہج سے نہ پھوٹا ہو، بلکہ محض دین داری کے جذبے نیز معاصر معاشرت وسیاست کے منفی پہلووں پر رد عمل سے پیدا ہوا ہو، وہ بڑی آسانی سے شدت پسند ذہن کے ہاتھوں ہائی جیک ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاصر تکفیری ذہن سے متاثر ہونے والے افراد کی غالب تعداد انھی لوگوں کی ہے جو نہ تو خود دین کا گہرا علم رکھتے ہیں اور نہ فہم دین کے روایتی اصولی مناہج فکر میں سے کسی منہج فکر کی شعوری طور پر پیروی کرتے ہیں۔

الہدی سے متعلق پوسٹ کا بالکل غلط مفہوم دوستوں نے سمجھا۔ زیر بحث سوال یہ نہیں تھا کہ تاشفین کے اقدام کی ذمہ داری الہدی پر ڈالی جا سکتی ہے یا نہیں۔ ظاہر ہے کہ کسی اصول کی رو سے نہیں ڈالی جا سکتی۔ سوال یہ تھا (اور ایک عمومی سوال تھا جسے ایک تنظیم کی مثال سے اٹھایا گیا) کہ نوجوان نسل میں دعوت دین کا کام کرنے والے ایسے حلقے جس طرح کا فہم دین اور دینی جذبہ ان میں پیدا کرتے ہیں، کیا شدت پسند ذہن اسے آسانی سے ہائی جیک نہیں کر سکتا؟ میرا جواب اثبات میں ہے۔ یہاں کوئی خاص ادارہ یا تنظیم نہیں، بلکہ تفہیم دین کا وہ انداز مد نظر ہے جو مختلف حلقوں میں نظر آتا ہے اور کسی باقاعدہ علمی منہج پر مبنی نہ ہونے کی وجہ سے اس خطرے سے دوچار رہتا ہے کہ اس کے متاثرین شدت پسندوں کے لیے خام مال کا کام دینے لگیں۔

Comments

comments