مولانا مودودی کی تصنیف خلافت و ملوکیت پر تبصرہ – مولانا شاہد الراشدی
A comment on Maulana Abul Ala Maudooi’s book Khilafat-o-Mulookiat
جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید ابو الاعلی مودودی تحقیق اور ادب کے میدان میں لاثانی ہونے علاوہ جرات رندانہ کے مالک بھی ہیں جس کا اظہار ان کی کتاب خلافت و ملوکیت میں ہوتا ہے – آج کے دور میں جبکہ سنی، شیعہ اور دوسرے فرقوں کے علما کی کثیر تعداد اپنے اپنے مسالک اور فقہوں کی اسیر یا یرغمال ہے، تحقیق کے کام کو عام طور پر خوف یا تعصب کی نظر کر دیا جاتا ہے – ذاتی ترجیحات اور مسالک کی بنیاد پر شخصیت پرستی کی جاتی ہے اور تحقیق سے گریز کیا جاتا ہے – بجائے تحقیق کی حوصلہ افزائی کے لوگوں کو تحقیق اور تحقیقی کام سے ڈرایا جاتا ہے اور تاریخ کو پڑھنے اور اس سے سبق سیکھنے کی بجائے اسے چھپانے اور مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے – اس کا تنیجہ یہ ہے کہ ہم تاریخ کو پڑھنے، سمجھنے اور اس سے سیکھنے سے قاصر رہتے ہیں اور عصر حاضر میں وہی غلطیاں دہراتے ہیں جوبعض شخصیا ت سے سر زد ہوئی تھیں یا ان کی بے جا تاویل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسا کہ بعض حلقے داعش، طالبان اور سپاہ صحابہ کی غلطیوں کی تاویل اور توجیہ کرتے ہیں
’’خلافت وملوکیت‘‘ سے متعلق عامر ہاشم خاکوانی صاحب اور عمار خان ناصر صاحب نے تبصرہ کیا جو ضروری ترمیم اور اضافے کے ساتھ پیش خدمت ہے
اس کتاب کے حوالے سے دو باتوں کو الگ الگ رکھا جائے تو شاید بہتر تجزیہ ہو سکتا ہے
ایک یہ کہ کیا مولانا کو اسلامی تاریخ کے اہم اور چبھتے ہوئے سوالات کو موضوع بحث بنانا چاہیے تھا یا نہیں؟
دوسرا یہ کہ ایسا کرتے ہوئے مولانا نے معروضیت اور احتیاط کا دامن کتنا تھامے رکھا اور کتنا حزبیت کا شکار ہو گئے؟
پہلے نکتے کے حوالے سے مجھے مولانا کے نقطہ نظر سے مکمل اتفاق ہے کہ ہمارے لیے اپنی تاریخ اور اس کے نازک مراحل کو ناقدانہ نظر سے دیکھنا اور اس کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنا ناگزیر ہے اور شخصیات کی عظمت اور احترام کو اس میں ہرگز مانع نہیں بننا چاہیے۔ دراصل جب ہم تاریخ کے کسی مرحلے کا مطالعہ کر رہے ہوتے ہیں تو یہ کئی کرداروں اور اسباب وعوامل کے باہمی تعامل کا ایک پیچیدہ عمل ہوتا ہے جسے مجموعی حیثیت میں ہی سمجھنا چاہیے۔ جب ہم اس زاویہ نظر کے بجائے تاریخ کو محض کچھ افراد اور شخصیات کے انفرادی افعال واعمال کا مجموعہ سمجھتے ہیں تو ہمیں خوف لاحق ہو جاتا ہے کہ تاریخ کے بہت سے ناپسندیدہ نتائج کی ذمہ داری ان محترم شخصیات پر پڑے گی، چنانچہ ہم معروضیت سے گریز کا رویہ اپنا لیتے ہیں۔ (معلوم نہیں، میں سب پڑھنے والوں کے لیے اپنا نکتہ واضح کر سکا یا نہیں، لیکن تاریخی بحثوں پر نظر رکھنے والوں کے لیے شاید یہ اشارہ کافی ہوگا)۔ یاد رہے کہ اگرچہ شیعہ حضرات اپنے ائمہ کے بارے میں عصمت کا عقیدہ رکھتے ہیں لیکن صحابہ کرام کے بارے میں آج کے دور کے کچھ اہلسنت کا عملی عقیدہ بھی کچھ زیادہ مخلتف نہیں
جہاں تک دوسرے نکتے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں کہا جا سکتا ہے کہ مولانا نے اپنی تحقیق میں اپنے آپ کو کسی خاص مسلک یا فرقے کا یرغمال نہیں رہنے دیا، اگرچہ بعض احباب اعتراض کرتے ہیں کہ کم سے کم اس کتاب میں مولانا کا انداز تحقیق غیر اطمینان بخش ہے لیکن مولانا کی کتاب میں تمام حوالے موجود ہیں اور ان کی کتاب پر تقی عثمانی دیوبندی صاحب کے اعتراضات کے جواب بھی غلام علی صاحب نے نہایت تفصیل اور تحقیق سے دیا ہے، ان کی کتاب بھی پڑھنے کے لائق ہے ۔ خلافت و ملوکیت کی تاثیر ان کے حسن تحریر، تحقیق، اور واقعات وتفصیلات کی معروضی ترتیب پر مبنی ہے جس سے ایک خوش عقیدہ صحابہ پرست تھوڑی دیر کے لیے ھل جائے گا لیکن تاریخ سے آنکھیں چرائی نہیں جا سکتیں – براہ راست مآخذ سے تاریخ کے مطالعہ کا تجربہ رکھنے والے اہل علم طبری اور دیگر ماخذ سے انہی نتائج پر پہنچیں گے
عامر ہاشم خاکوانی صاحب نے تبصرہ کیا
سید مودودی کی کتاب خلافت وملوکیت میں نے کالج کے ابتدائی ایام میں پڑھی، شاید فرسٹ ائیر یا سکینڈ ائیر میں، مجھے یاد ہے کہ اس کتاب نے ہلا کر رکھ دیا تھا ، ایک اعتبار سے ہم اس کے ٹرانس میں آ گئے تھے اور یہ کیفیت کئی برسوں تک رہی۔ خلافت وملوکیت دراصل ایک خاص قسم کے تنقیدی ذہن کی تعمیر کرتی اور بعض ایسے بیرئر گرا دیتی ہے، جو بچپن سے ہمارے ذہنوںمیں قائم ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر بچپن ہی سے ہمیں اپنے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ، اہل بیت اور صحابہ سے محبت کرنا سکھایا جاتا ہے۔ کچھ بڑے ہوئے اورپڑھنے کے شوق کی وجہ سے کچھ ایسی کتابیں بھی ہاتھ لگیں، جن میں جنگ جمل، جنگ صفین وغیرہ کے حالات تھے بلکہ اس سے کچھ پہلے شہادت عثمان کا المناک واقعہ ۔ یہ واقعات پڑھ کر حیرت ہوئی ، کالج کے ابتدائی ایام ہی میں مجھے تاریخ طبری پڑھنے کا اتفاق ہوا، امام طبری کی دینی خدمات سے انکار ممکن نہیں، اگر ان کی تاریخی تحقیق کو مسترد کیا جائے تو اسلامی تاریخ کے دامن میں کچھ باقی نہیں رہتا، یقینی طور پر اس میں ایسے واقعات موجود ہیں جو خوش عقیدہ مولوی حضرات بیان کرنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ اس سے مسلکی اور فرقہ وارانہ دکانداری پہ حرف آتا ہے – تحقیق اور تاریخ کو چھپایا جاتا ہے کیونکہ دل کو نہیںلگتی، مگر وہ تاریخ طبری اور دوسرے تاریخ اور حدیث کی کتابوں میں ایسا مواد موجود ہے جس کو جھٹلانا مشکل ہے
سید مودودی کی کتاب خلافت وملوکیت سب سےزیادہ موثر اور اہم تھی، اس کا طرز استدلال بہت طاقتور تھا، مولانا کی نثر تو خیر کمال کی ہے ہی، خلافت وملوکیت نے دراصل ذہن میں وہ سوالات پیدا کر دئیے جنہیں عام طور پر ہم نظر انداز کر دیتے ہیں یا چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
تاریخ سے ڈرنے والے فرقہ باز اور مسلک کے اسیر مولوی کہتے ہیں کہ اس کتاب نے غیر ضروری طور پر بعض ایسے پردے ہٹا دئیے، جنہیں قائم رہنا چاہیے تھا۔ اس کتاب کو اچھی طرح سے پڑھنے والا کوئی بھی شخص صحابہ کو اس طرح کی رعایت بھی نہیں دے گا، جس طرح کی ہم آج کل کے سیاستدانوں کو شک کا فائدہ دے دیتے ہیں۔ خلفا راشدین خاص کر تیسرے خلیفہ راشد کا احترام اس طرح سے ذہن میںنہیں رہتا،جیسا کہ ہونا چاہیے۔ امیر معاویہ و دیگر کے بارے میں تو خیر تاریخ کی صحیح اور ماخذ کتابوں میں اتنا کچھ مذکور ہے جو ان کے بارے میں بہت تکلیف دہ حقائق کا انکشاف کرتا ہے – کچھ لوگ ایسے ہوسکتے ہیں، جو تاریخ کو ایک خاص تقابلی انداز سے تجزیہ کریں اور حقیقت کا اخفاء کرنے کو ہی حق سمجھیں ۔ ہم تاریخ کے ہر موڑ کا باریک جائزہ لیتے ہیں لیکن ان معاملات میں اخفائے حق کے لیے تاویلات گھڑتے ہیں اور نتیجے میں ہم اپنے اکابر کی غلطیوں کی تاویل بھی کرتے ہیں اور تقلید بھی – ایسا ٹھیک نہیں
جو لوگ سمجھتے ہیں کہ کہ مولانا مودودی نے یہ کتاب لکھ کر بڑی غلطی کی تھی،وہ درحقیقت تحقیق کے نہیں، اخفا کے قائل ہیں اور اپنے فرقہ و مسلک کے یرغمال – ایسے رویہ سے نہ تو اسلام کی خدمت ہوتی ہے اور نہ تحقیق کی