گلگت بلتستان: کشمیریوں کو پاکستان میں انضمام سے خدشات
پاکستان کے زیرانتظام گلگت بلتستان کے وسیع علاقے کو پاکستان کے آئینی نظام میں ضم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ اس امکان پر بھارت کے زیرانتظام کشمیرکے عوامی حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔
اکثر حلقے کہتے ہیں کہ پاکستان کا یہ فیصلہ کشمیر پر بھارت کے دعوے کو اعتباریت عطا کرے گا جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ اس سے بھارت کے لیے کشمیر کو وفاقی نظام میں ضم کرنے کی مشکلیں دُور ہوجائیں گی۔
گلگت بلتستان کے بارے میں کشمیری عوام کی واقفیت نہ ہونے کے برابر ہے لیکن عوامی شعور میں یہ بات راسخ ہے کہ 25 لاکھ کی آبادی اور سات اضلاع پر مشتمل یہ خطہ کشمیر کا حصہ ہے اور اس کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔
اب جبکہ پاکستانی میڈیا میں یہ خبریں آرہی ہیں کہ چینی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرنے کے لئے پاکستان گلگت بلتستان کو مکمل طور وفاقی نظام میں ضم کرنے کی کوشش کررہا ہے، عوامی حلقوں میں اس حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم متعدد تنظیموں کے اتحاد، کولیشن آف سول سوسائیٹیز کے ترجمان خرم پرویز کہتے ہیں کہ کشمیر کے لوگ یہ نہیں چاہتے کہ گلگت بلتستان کے لوگ کشمیر کی متنازعہ حیثیت میں پھنسے رہیں، لیکن پاکستان کو اقوامی متحدہ کی نگرانی کے بغیر یکطرفہ فیصلہ نہیں لینا چاہیے۔
خرم کا کہنا ہے: ’ظاہر ہے گلگت بلتستان بہت پچھڑا ہوا علاقہ ہے، وہاں لوگوں کو مشکلات ہیں۔ اگر وہ خطہ پاکستان کا باقاعدہ صوبہ بنتا ہے تو ترقی کے دروازے کھلیں گے لیکن پاکستان کو اس خطے کے انضمام کے دُور رس نتائج کو سمجھنا چاہیے۔ اگر انضمام کرنا ہی ہے تو وہ یکطرفہ نہ ہو، بلکہ باقاعدہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعہ ہو۔‘
تاہم مبصرین کہتے ہیں ایسا کرنے سے ایک مضر مثال قائم ہوگی جسے بھارت کشمیر میں استعمال کرے گا۔ کشمیر میں بودھوں کی اکثریت کا لیہہ خطہ اور ہندووں کی اکثریت کا جموں خطہ ہے، پھر کل کو وہاں بھی محدود رائے شماری کرکے بھارت کشمیر کے مکمل انضمام کی راہ ہموار کرے گا۔
شاعر، نقاد ، صحافی اور تجریہ نگار بشیر منظر کا خیال ہے کہ گلگت بلتستان کا انضمام پاکستان میں ہوا تو بھارت کے لئے آسان ہوجائےگا کہ وہ کشمیر کو دی گئی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کردے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’بھارت کا کشمیر پر ایک دعوی ہے، لیکن اس دعوے کو عالمی مقبولیت نہیں ہے۔ اگر پاکستان نے یہ قدم اٹھایا تو بھارت کشمیر کو ضم کرنے کے تمام اقدامات کرے گا۔ یہی نہیں، کل کو مظفرآباد میں مزاحمت بھی ہوسکتی ہے۔‘
اکثر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ گلگت بلتستان کو مسلہ کشمیر کے ایجنڈے سے خارج کرکے پاکستان ایک نئی مصیبت مول لے رہا ہے جس کا خمیازہ بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے لوگوں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔
کالم نویس اور تجزیہ نگار پیرزادہ عاشق کہتے ہیں کہ پاکستان کو گلگت بلتستان کے سوال کو لے کر اگر کسی جانب سے مزاحمت کی توقع ہے تو وہ صرف کشمیر ہے۔
’کشمیریوں کو پہلے ہی پاکستان سے شکایات ہیں کہ وہ اکثر اوقات کشمیر پر اپنی روایتی خارجہ پالیسی کو نرم کررہا ہے، اب اگر یہ سب ہوتا ہے تو کشمیر میں موجود ہندو مخالف جذبات کا رُخ خود پاکستان کی طرف مُڑ جائےگا۔‘
واضح رہے کہ بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی علیحدگی پسند تاریخی طور پر دو نظریاتی دھاروں میں تقسیم ہے۔ ایک طبقے کا سیاسی عقیدہ ہے کہ کشمیر پاکستان کا قدرتی حصہ ہے لہذا اسے پاکستان کے ساتھ ضم ہونے کا موقعہ دیا جائے۔
دوسرا نظریہ مکمل آزادی اور دونوں ملکوں کے زیرانتظام کشمیری خطوں میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کی جائے۔
بعض مبصرین کہتے ہیں کہ اگر چین پاکستان اقتصادی راہداری کی راہ ہموار کرنے کے لئے پاکستان نے گلگت بلتستان کو مستقل صوبے کی حیثیت دے دی تو کشمیر پر بھارت کا دعوی بغیر کسی جنگ یا مذاکرات کے معتبر بن جائے گا۔
Source:
http://www.bbc.com/urdu/regional/2016/01/160108_kashmiri_leader_over_gilgit_zh