شیخ نمر کا عدالتی قتل، سعودیہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور پاکستانی کمرشل لبرل مافیا و تکفیری دیوبندی صحافیوں کی موشگافیاں۔ خرم زکی
کچھ صحافی و دانشور حضرات (جن میں سے اکثریت نام نہاد کی ہے اور جو اصل میں تکفیری سوچ کے حامل ہیں اور غیر جانداری کے پردے میں تکفیری سوچ پھیلا رہے ہیں) شیخ نمر کی شہادت کو ایک فرقہ وارانہ مسلہ قرار دینے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا بیانیہ مندرجہ ذیل باتوں سے زائد نہیں۔
ا۔ سعودی عرب میں دیگر لوگوں کو بھی پھانسی کی سزا دی گئی، اس پر شور کیوں نہیں۔
ب۔ یہ سعودی عرب کا اندرونی مسلہ ہے۔
ج۔ ایران میں بھی 27 (اور بعض نے تو 2000 تک کی بات کی ہے) سنی علماء کو پھانسی دی گئی اس پر شور کیوں نہیں۔
د۔ یہ ایران سعودی پراکسی وار ہے۔
ہ۔ شیخ نمر ایک دہشتگرد تھا اس لیئے اس کی سزا پر اعتراض نہیں ہونا چاہیئے (البتہ یہ بات صرف تکفیری دیوبندی و وہابی دہشتگرد گروہ اہل سنت والجماعت کے لوگ کر رہے ہیں)۔
گو خالصتا علمی و منطقی اعتبار سے ان میں سے کوئی دلیل بھی شیخ نمر کے قتل کے خلاف احتجاج کو رد نہیں کر سکتی اور ان تمام باتوں کا جواب علمی اعتبار سے صرف ایک جملے سے دیا جا سکتا ہے کہ اگر یہ تمام الزامات حقیقت کے مطابق ہیں تو بھی دو غلطیاں مل کر ایک صحیح نہیں بن جاتی اس لیئے ایران جو کچھ کرتا ہے وہ سعودیہ کی غلط حرکتوں کی دلیل اور جسٹیفیکیشن نہیں قرار دیا جا سکتا اور ہم نے کبھی کسی کو نہیں روکا کہ ایران کے حقیقی یا خود ساختہ مظالم کے خلاف آواز نہ اٹھائیں۔ لیکن اس بیانیہ کے علمی کھوکلا پن کے باوجود چوں کہ اس بات کو دہرانے والے بعض وہ حضرات بھی ہیں جن سے میرا دوستانہ تعلق ہے اس لیئے میں چاہوں گا کہ ان تمام الزامات پر ایک مختصر گفتگو کروں۔
پہلے الزام کے متعلق بات کی جائے تو عرض کروں کہ ہم نے اپنے کل سعودی قونصلیٹ کے باہر ہونے والے احتجاج میں سعودی عرب میں ہونے والی بڑے پیمانے پر دی جانے والی پھانسیوں کو رد کیا ہے نہ کہ صرف شیخ نمر کے قتل کو۔ ہماری پریس ریلیز اور اعلامیہ کا عکس یہاں منسلک کر رہا ہوں۔ کوئی بتا دے کہ اس میں کون سی فرقہ وارانہ بات ہے۔ ہم تمام سعودی عوام کے جمہوری اور بنیادی انسانی حقوق کی بات کر رہے ہیں۔ شیخ نمر سعودی عرب کے ہی ایک شہری تھے۔ ان کو بھی جمہوری اور انسانی حقوق دیئے جانے چاہیئے تھے جو آل سعود کی جانب سے پامال کیئے گئے۔ ایک شخص کا ذکر دیگر پامالیوں کی نفی نہیں اور ہمارا بیانیہ سعودی عرب میں ہونے والی انسانی حقوق کی تمام خلاف ورزیوں کے خلاف ہے اور ہے صرف کسی ایک کے خلاف نہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ سعودی عرب میں قید تمام ضمیر کے قیدیوں کو رہا کیا جائے (جن کی اکثریت سنی ہے) اور آل سعود پر تنقید، جس کو دہشتگردی قرار دیا جا رہا ہے، ایک جمہوری اور انسانی حق ہے اس کو جرم نہ سمجھا جائے۔ وہاں کے لوگوں کو تمام جمہوری حقوق دیئے جائیں بشمول ووٹ دینے کا حق، اپنی منتخب حکومت بنانے کا حق۔ ہماری جدو جہد آمریت و ملوکیت کے خلاف ہے، جس کا نہ کوئی سیکولر لبرل جواز ہے اور نہ ہی شرعی۔ شیخ نمر کا “جرم” اسی ملوکیت و آمریت کے خلاف اٹھانا تھا اور اگر یہ جرم ہے تو ہم سب ہی مجرم ہیں۔
دوسرے الزام کے متعلق میں یہ کہوں گا کہ بنیادی انسانی حقوق اور انسانی آزادیوں کی جنگ کسی ایک ملک یا سرحد سے مخصوص نہیں اور دنیا کے کسی ایک بھی جگہ اگر عوام پر ظلم و زیادتی ہو رہی ہے تو حقیقت میں یہ تمام انسانیت پر ظلم و زیادتی ہے۔ قران کی زبان میں “ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے” اور جیسا کہ جان ایف کینیڈی نے کہا تھا کہ “آزادی و حریت ناقابل تقسیم ہیں؛ اگر ایک شخص بھی غلام ہے تو کوئی بھی آزاد نہیں”۔ اور یہی وجہ ہے کہ کشمیر سے فلسطین تک، جاپان سے ارجنٹائن تک، جب کبھی جہاں کہیں کسی پر ظلم ہوا ہے تو ایسا نہیں ہوا کہ صرف جس خطے میں ظلم ہو رہا ہو صرف وہاں کے لوگوں نے آواز اٹھائی ہو بلکہ تمام عالم کے ہر آزاد انسان نے، ہر وہ انسان جو حر ہے، اس نے ظلم کے خلاف آواز بلند کی۔ چی گوویرا، نیلسن منڈیلا، امام خمینی یہ سبھی اسی قبیل کے حر افراد تھے۔ یہ ابھی حال ہی میں فرانس میں جو حملے ہوئے تو کیا ہم نے اس کو فرانس کا اندرونی مسلہ قرار دے کر خاموشی اختیار کی ؟ چلیں وہ تو لبرل کاز تھا لیکن یہ جو بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی سے منسلک لوگوں کو پھانسیاں دی گئیں تو کیا میں نے اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی ؟ سچائی و عدل کے لیئے آواز اٹھانا سرحدوں سے ماواراء ہے اور اس سے بالاتر ہی رہے گا۔
تیسرے الزام کے متعلق عرض کروں تو میں ان دوستوں سے گزارش کروں گا جو العربیہ نیوز کی خبروں اور جند اللہ اور مجاہدین خلق جیسے دہشتگرد گروہوں کی ویب سائٹس کے پروپیگینڈے کو خبر بنا کر پیش کر رہے کہ 27 چھوڑیں آپ مجھے ذرا دس ایرانی سنی علماء کے نام تو زبانی بتا کر دیکھائیں جن کو ایران نے پھانسی دی ہو۔ کیا کالعدم تکفیری دیوبندی دہشتگرد گروہ جند اللہ، لشکر جھنگوی، اہل سنت والجماعت، جماعت الاحرار، القاعدہ اور ان جیسے ہی دیگر خارجی گروہوں کے لوگوں کو پاکستان میں دہشتگردی کے جرم میں پھانسی نہیں ہوئی ؟ تو کیا اس کا ذمہ دار بھی ایران ہے ؟ بات تو جب بنتی جب آپ کسی ایک سنی عالم کا نام بتاتے جس کو محض ایرانی حکومت پر تنقید کے جرم میں پھانیسی ہوئی ہو۔ میرے بھائیوں ایران میں ایرانی حکومت پر تنقید کوئی جرم ہے ہی نہیں اور جس نے ایک دفعہ بھی ایران کا وزٹ کیا ہے وہ یہ بات جان لے گا۔ ایران کوئی بادشاہت نہیں اور نہ ہی شاہ ایران وہاں موجود کہ لوگوں کو حکومت پر تنقید کے جرم میں پھانسی دی جائے، یہ سب صفوی و پہلوی دور میں ہوتا تھا۔ اگر ایک بھی سنی عالم کا نام بتایا جائے اور ثابت کر دیا جائے کہ اس کو محض ایرانی حکومت پر تنقید کے جرم میں پھانسی ہوئی ہے تو میں خود آپ دوستوں کے ساتھ جا کر ایرانی سفارت خانے کے باہر احتجاج کے لیئے تیار ہوں۔ یہ العربیہ نیوز، جس نے شیخ نمر کے عدالتی قتل کے بعد اس بات کا پروپیگینڈا شروع کیا ہے اور آپ سب نے اسی سعودی نیوز ویب سائٹ کا اگلا ہوا لقمہ چبانا شروع کیا، اس کا حوالہ دینا بند کریں۔
چوتھے الزام کے حوالے سے اتنا عرض کروں گا یہ فالس بائنری (مصنوعی ثنویت و تقابل) جے کے تحت کمرشل لبرل مافیہ پاکستان میں 70000 سے زائد پاکستانیوں کے قتل عام، شیعہ مسلمانوں کی نسل کشی، بریلوی مسلمانوں کے قتل عام، احمدی کمیونٹی کی پرسیکیوشن، مسیحی اور ہندو برادری کی پر ظلم و ستم کو جس طرح شیعہ سنی منافرت اور ایران سعودی عرب جنگ کا نام دیتی ہے وہ حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ و فراڈ ہے۔ شیخ نمر سعودی عرب کے شہری تھے اور سعودی حکومت اپنے ملک کے شیعہ شہریوں کو بنیادی انسای حقوق کے دینے کے لیئے تیار نہیں اور یہ کوئی ڈھکا چھپا راز نہیں۔ شیعہ تو شیعہ، وہ سنی بھی جو اس آمریت و بادشاہت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں وہ بھی پابند سلاسل کر دیئے جاتے ہیں، ان کو بھی پھانسیاں دے دی جاتی ہیں۔ اور یہ ساری باتیں ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ یہ شیخ نمر ہی تھے جو بشار الاسد کے خلاف بھی آواز بلند کر رہے تھے۔ تو کیا یہ بھی ایرانی پالیسی کے مطابق ہے ؟ کیا بحرین میں شیعہ اکثریت نہیں ؟ کیا یہ سچ نہیں کہ وہاں کی موجودہ حکومت بزور جبر ان پر حکومت کر ہی ہے ؟ کیا شیعہ حقوق کا مسلہ ایک انسانی مسلہ نہیں ؟ سچی بات تو یہ ہے کہ تکفیری دیوبندی و وہابی آئیڈیالوجی جس کو امریکی و برطانوی سرپرستی میں پوری دنیا میں منظم کیا گیا، اور ہیلری کلنٹن نے سرے عام اس بات کو قبول کیا، وہی شیعہ نسل کشی کی بھی ذمہ دار ہے، یہی تکفیری دیوبندی آئیڈیالوجی بریلوی مسلمانوں کی پرسیکیوشن کی ذمہ دار ہے، نائیجیریا سے کر پاکستان تک سعودی عرب کی سرپرستی میں پلنے والے یہ آستین کے سانپ جو کبھی امام بارگاہ پر حملہ آور ہوتے ہیں، کبھی داتا دربار پر، کبھی پریڈ لین راولپنڈی کی مسجد پر حملہ کرتے ہیں، کبھی آرمی پبلک اسکول پر، کبھی نائیجیریا میں مسیحی برادری کی لڑکیوں کو آغوا کرتے ہیں تو کبھی پشاور میں مسیحی برادری کے چرچ کو نشانہ بناتے ہیں، ان سب کا تعلق بغیر کسی استثناء کے سعودی عرب اور اس کی تکفیری دیوبندی و وہابی آئیڈیا لوجی سے ہے۔ یہ حال میں نادرا کے دفتر پر اسی تکفیری دیوبندی دہشتگرد گروہ نے حملہ کیا، کیا وہ ملازم سب شیعہ تھے ؟ تو پھر سعودی عرب کی جانب سے مسلط کردہ اس یکطرفہ جنگ کو شیعہ سنی جنگ کیوں قرار دیا جا سکتا ہے جس کا نشانہ عام شہری بھی بن رہے ہیں، سنی بھی بن رہے ہیں، شیعہ بھی بن رہے ہیں ؟ شام و عراق میں سعودی عرب کی سرپرستی میں چلنے والے انہی تکفیری دیوبندی و وہابی دہشتگرد گروہوں داعش، جبہ نصرہ وغیرہ نے کس طرح وہاں کے سنیوں کا قتل عام کیا ہے کوئی راز نہیں۔ ان میں سے کون سا تکفیری گروہ ہے جس کی سرپرستی ایران کر رہا ہے ذرا بتایا جائے۔ کیا یہ شام ہی کی حکومت نہیں تھی جو فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس و اسلامی جہاد کی سرپرستی کرتی رہی؟ کیا یہ دونوں مزاحمتی گروہ سنی نہیں ؟ تو پھر یہ شیعہ سنی جنگ کیسے ؟ ایل یو بی پی (تعمیر پاکستان بلاگ) کی جدو جہد اس فالس بائنری (جھوٹی مثنویت و تقابل) کے خلاف ہے۔
پانچواں الزام قابل ذکر نہیں اس لیئے کہ دنیا کہ کسی بھی قانون میں حکومت پر تنقید کو دہشتگردی قرار نہیں دیا جا سکتا اور یہ ہر ملک کے شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق میں سے ہے کہ اپنے ملک کی حکومت کے غلط اقدامات پر تنقید کریں۔ شیخ نمر پر اس کے علاوہ کوئی الزام نہیں تھا کہ اپنے ملک کے باشندوں کو اس آمریت کے خلاف پر امن جد و جہد کے لیئے تیار کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ کوئی الزام تو سعودی آمریت بھی ان پر نہیں لگا سکی تو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کی ضرورت نہیں مگر کیا کریں سعودی عرب کے تلوے چاٹنے والے ان نام نہاد دانشوروں کا جن کو تنخواہ ہی اس وفاداری و تلوے چاٹنے کی ملتی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ بعض نام نہاد کمرشل لبرلز، حوالدار احمد القریشی الباکستانی، طاہر اشرفی عرف چربی کے ڈرم اور تکفیری دیوبندی دہشتگرد گروہ اہل سنت والجماعت(المعروف کالعدم انجمن سپاہ صحابہ) کے مؤقف میں اس حوالے سے کوئی فرق نہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے، ان سب کی ڈوریاں ایک ہی جگہ سے ہلتی ہیں۔