کیا احمدی جماعت میں کوئی تکفیری اور جہادی نہیں؟ کاشف چودھری کی خدمت میں – عرفان قادری
ان صاحب کا نام کاشف چودھری ہے، یہ صاحب احمدیوں کے انسانی حقوق کے علمبردار ہیں اور احمدی برادری ہونے والے تشدد کے مخالف ہیں
ہم بھی ہر طرح کے تشدد کی مذمت کرتے ہیں لیکن ان صاحب کا ایجنڈا کچھ اور ہے – یہ صاحب احمدیوں کی خدمت کے بھیس میں پاکستان کے تمام فرقوں اور علماء کو تکفیری قراردیتے ہیں – بعض دانشمند احمدیوں نے ہمیں بتایا ہے کہ یہ صاحب اپنی ذاتی سستی شہرت کے چکر میں اپنی ہی برادری کو نقصان پہنچا رہے ہیں – واللہ اعلم
کاشف چودھری کے بقول تمام سنی بریلوی، شیعہ، سلفی، وہابی، دیوبندی مولوی تکفیری ہیں اور تمام احمدی مولوی بہت محبت والے، پر امن، اور غیر تکفیری ہیں
آئیے ان کا کے دعوے کا جائزہ لیں
ہم یہ ثابت کریں گے کہ اپنے آغاز سے ہی احمدیہ جماعت نے تکفیری نفرت کو فروغ دیا اور تمام مسلمان جو مرزا غلام احمد کو مسیح موعود تسلیم نہیں کرتے، ان کو خارج از اسلام اور کافر قرار دیا – حوالے کے لیے ملاحظہ فرمائیں مرزا غلام احمد صاحب لکھتے ہیں (مجموعہ تحاریر، والیوم ٣، صفحہ ٢٧٥) کہ جو ان کی پیروی نہیں کرے گا اور ان کی بیعت میں داخل نہیں ھوگا وہ خدا اور اس کے رسول کا نافرمان اور جنہمی ہے
مرزا غلام احمد کے بڑے صاحبزادے اور احمدیوں کے خلیفہ ثانی مرزا بشیر الدین محمود تو تکفیری ملا ہونے میں تکفیری دیوبندی اور وہابی خوارج سے بھی بڑھ گئے اور اپنی کتاب آئین صداقت طبع ١٩٢١ میں لکھا کہ جو شخص بھی مرزا غلام احمد کو مسیح موعود نہیں مانتا وہ خارج از اسلام اور کافر ہے – دوسرے الفاظ میں تمام سنی، بریلوی، شیعہ، سلفی، اہلحدیث، وہابی، دیوبندی کافر قرار دے دیے
اس حقیقت کا اعتراف معروف روشن خیال سکالرز جیسا کہ جاوید احمد غامدی اور طارق فتح نے بھی کیا کہ احمدی ملا تکفیری ہیں اور مسلمان فرقوں کی تکفیر کرتے ہیں اور ان کو خارج از اسلام قرارد دیتے ہیں – جب آپ یہ ثبوت کاشف تکفیری صاحب کی خدمت میں پیش کریں تو پھر ان کی بونگیاں اور تاویلات دیکھنے کے لائق ہیں، جماعت اسلامی اور طالبان کے ہمدردوں اور معذرت خواہان کی یاد تازہ ہو جاتی ہے
دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈیلی ٹائمز میں انہی تکفیری احمدی صاحب کاشف چودھری کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں ان صاحب نے نبوت کے دعوے دار مسیحی شخص، مسیلمہ، کو جھوٹا اور واجب القتل قرار دیا اور حضرت ابو بکر رض اور خالد ابن ولید کے ہاتھوں اس کے قتل کی تعریف کی – عجب بات ہے اپنے نبی مرزا غلام احمد کی سچائی اور احترام پر اصرار لیکن مسیلمہ قابل مذمت اور واجب القتل – کیا یہ کھلا تضاد نہیں – اسی مضمون میں کاشف تکفیری صاحب نے مسیلمہ کو طالبان کے مماثل قرار دیا، ہم پوچھتے ہیں مسیلمہ نے تکفیری دیوبندی خوارج کی طرح کتنے خود کش حملے کیے، کتنے ہزار مسلمانوں کا خون کیا؟
یاد رہے کہ اپنی کتاب خطبات محمود صفحہ ٣٣٧ پر مرزا محمود نے واضح لکھا کہ جیسے ہی ان کے پاس طاقت اور ریاست آئی تو یہ ایک روز کے اندر احمدی شریعت نافذ کریں گے جس میں نماز با جماعت نہ پڑھنے والے کی سزا سات سال قید ہو گی
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ تکفیریت کے علاوہ پاکستان میں مذھب کی بنیاد پر غیر ریاستی جہادی تشدد کی بنیاد بھی احمدیہ جماعت نے رکھی – قیام پاکستان کے تقریبا ایک سال کے بعد ١٩٤٨ سے لے کر ١٩٥٠ تک احمدی جماعت نے فرقان فورس کے نام سے ایک لشکر طیبہ اور جیش محمد کی قسم کے جہادی گروہ کی بنیاد رکھی جو پاک فوج کے پراکسی کے طور پر کشمیر میں وزیرستان اور کوہستان سے آنے والے تکفیری دیوبندی لشکر کے ساتھ مل کر کشمیر میں جہادی قتل و غارت میں ملوث رہا اور ہزاروں ہندوؤں، سکھوں، صوفی سنی مسلمانوں اور مسیحیوں کے قتل میں ملوث تھا – اس احمدی جہادی لشکر کی تمام تنخواہ احمدیہ جماعت ادا کرتی تھی اور سلامی احمدی خلیفہ وصول کرتا تھا
آئندہ اگر کوئی متعصب احمدی، مظلوم سنی بریلوی، صوفی یا شیعہ مسلمانوں پر تنقید کرے تو اس سے مطالبہ کریں کہ تکفیری احمدی ملا مرزا بشیر الدین محمود احمد کی مذمت کرے ، جماعت الدعوہ اور جیش محمد کی مذمت سے پہلے احمدیہ جہادی دہشت گرد تنظیم فرقان فورس کی مذمت کرے
ہمارا پوری دنیا کی احمدی برادری سے مطالبہ ہے کہ اپنی جماعت میں موجود تکفیری لٹریچر اور تکفیری ملاؤں کی اعلانیہ مذمت کریں ورنہ یکطرفہ مظلوم بن کر ٹسوے نہ بہائیں، اس ملک میں پینتالیس ہزار سے زائد سنی صوفی، بریلوی اور بائیس ہزار سے زائد شیعہ مسلمان شہید ہو چکے ہیں، ہم پر یکطرفہ اخلاقی قدریں نافذ کرنے سے گریز کریں
ہم ان احمدی دوستوں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ہمیں کاشف چودھری، امید ملک اور طاہر عمران میاں کی بددیانتی اور سستی شہرت کی حرص سے آگاہ کیا
آئیے سب پاکستانی مل کر ہر دین، مذھب اور فرقے کے تکفیریوں اور غیر ریاستی جہادیوں کی مذمت کریں – پاکستان زندہ باد