ملتان تاشفین کا نہیں

jamshe-iqbal-2-460x400

عشق کی داستانوں کے دریا چناب کے کنارے ایک شہر آباد تھا جو صوفیوں ، سنتوں اور بھگتوں کا شہر کہلاتا تھا۔ وہ شہر جہاں امن کا گیان رقم ہوا ، جہاں مہاویر ، بدھ اور اشوکِ اعظم جیسے لوگوں کے قدموں کے سراغ ملتے تھے۔ اس شہر میں بسنے والے لوگوں کی زبان میٹھی تھی۔ ان کی زبان کی حلاوت اور رویوں کا دھیماپن بتاتا تھا کہ ہاں عدم تشدد کے یہ عظیم پرچارک اہمسا (non-violence) کا بیج اسی مٹی میں بو کر گئے ہوں گے۔ یہاں ویدوںاور پرانوں کے اشلوک اور ادھیائے لکھے گئے اور یہ شہر بدھلہ سنت اور پرہلاد کا شہر بھی تو تھا۔ یہ شہر ایک باغ بنا تھا۔ ایسا باغ جس سے گیان و عرفان کی خوشبو کے قافلے نکلے اور پوری د±نیا سے سنتوں اور بھگتوں کو اپنے ساتھ اس باغ تک لے آئے۔ یہ شہر ملتان تھا۔

یہ سب ا±س تاریخ کا پہلا باب ہے جس کا لکھا جانا ابھی باقی ہے۔ اس لئے اس کی تاریخ اور ان پرتوں سے شاید آج وہ بھی واقف نہیں جو اس شہر کے باسی ہیں۔ انہیں صرف اتنا یاد ہے کہ کچھ لوگ یہاں مندر توڑنے آئے تھے۔ کیوں آئے تھے ؟ اس کا جواب نصابی نہیں متبادل تاریخ نے دینا تھا۔لیکن اس سے قبل کہ ہم یہ تاریخ لکھ پاتے تاشفین نے سیاہ باب رقم کر دیا۔

ہمارے شہروں کا دہشت گردوں کی نسبت سے پہچانا جانا روز قیامت سے کم نہیںکہ ہم اپنے شہروں میں اجنبی ہوگئے ہیں۔ ان کی روح لٹ چکی ہے۔ ملتان ہی کی مثال لیں تو یہ شہر بیرونی حملہ آوروں کے ہاتھوں کئی مرتبہ لٹا ہے لیکن اس کی روح اور اس کی ہواﺅں میں بسی ثقافتی و روحانی تاثیر کوئی نہیں لوٹ پایا تھا۔ مال اسباب لٹا، عزتیں لٹیں لیکن لہجوں کی مٹھاس کوئی نہیں لوٹ پایا تھا۔ فرید نے پیلوں کا سرسبز باغ لگایا، ثریا ملتانیکر نے اس کی منادی کی۔ وہ باغ ابھی باقی تھا۔ملتانی اس باغ کے مالی بھی تھے اور وارث بھی۔ وہ اس کا پھل کھاتے تو ان کی باتوں سے خوشبو آتی۔ یہ خوشبو باقی تھی تو ملتان باقی تھا۔ لیکن لگتا ہے اب یہ سب بھی لٹ گیا ہے۔ حملہ آور دھن چرانے آتے تھے تو ہم مزاحمت کرتے تھے۔ لیکن جب وہ ہمارے شہروں کی روح چرانے آئے تو اس لوٹ مار میں ہم بھی ان کے ساتھ شامل تھے۔ اگر ہم پہلے غاصب، پہلے لٹیرے کو لٹیرا کہنے میں دیر نہ کرتے تو ہمارے شہر کبھی نہ لٹتے۔ بھگتوں کے شہر دہشت گردوں کے شہر کبھی نہ بنتے۔

یہی بیس پچیس برس قبل شہر میں کچھ اجنبی عمارات کھڑی ہوئیں۔ مقامی طرز تعمیر سے جدا عمارتیں جن کے صدر دروازوں پر سندھ اور ملتان پر حملہ کرنے والے عرب حملہ آور کا نام کندہ کرایا گیا۔ ان عمارتوں کو دینی مراکز بتا یا جاتا جن کا مقصد مذہبی تنوع کا خاتمہ اور مذہب کی محض سیاسی و عسکری تشریح کو رواج دینا تھا۔ مذہب کا مقامی رنگ گہرا تھا۔ یہ ممکن تھا کہ لگ بھگ دس ہزار پرانی تہذیب اسے رنگوں سے مالا مال کر دیتی۔

مثال کے طور پر گاو¿ں کی کچی مسجد کے مولوی صاحب نے ہمیں بتایا تھا کہ برصغیر میں تلوار والا مذہب بھی آیا اور پیار والا بھی۔ لیکن یہاں کے لوگوں نے پیار والے کا انتخاب کیا اور تلوار والے کو رد کردیا۔ ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ مذہب سفلی جذبات زیر کرنے میں مدد دیتا ہے۔ یہاں ہمیں یہ سننے کو ملا کہ اصل مذہب وہ ہے جو سفلی جذبات کی اطاعت کرے۔ اس سے پہلے ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ مذہب کا مقصد انسان کو خالص بنانا ہے لیکن ان مراکز میں یہ بتایا گیا کہ مذہب کا مقصد خود مذہب کو خالص بنانا ہے۔

Multan

یعنی جب تک مذہب خالص نہیں ہوجاتا اس وقت تک ہم کیسے خالص ہوں ؟ مذہب کو خالص کرنے کے بہانے دوسری تہذیبوں اور ثقافتوں کو شرمندہ کرو ، اور اپنی آنکھ صاف کرنے کی بجائے دوسروں کو داغدار قرار دو۔ ظاہر ہے یہ بھی ایک بچنے کا ڈھنگ تھا ، ایک چالاکی تھی۔ رادھا کے ناچ کو نو من تیل سے مشروط کرنے جیسی چالاکی۔

ہمیں مولوی صاحب نے یہ بھی بتایا تھا کہ خدا اچھا دل دیکھتا ہے۔ یہاں آکر پتہ چلا کہ خدا کونام ، لباس ، شکل اور ظاہری شکل و صورت میں زیادہ دل چسپی ہے۔ ہمیں یہ جان کر شرمندگی ہوئی کہ ہم اور ہمارے والدین ابھی پوری طرح مسلمان نہیں ہوئے۔ انہیں مزید مسلمان ہونے کی ضرورت ہے۔ مقامی لوگ ناپاک رسموں کے جال میں پھنس گئے ہیں اور اب انہیں صرف بارود کی دھونی سے پاک کیا جاسکتا ہے۔

نئی نسل کو پاک کرنے کے لئے یہ مراکز نہ صرف خوبصورت جوانوں کو براستہ کشمیر و افغانستان جنت روانہ کرنے کا بیڑا اٹھا چکے تھے بلکہ مقامی آبادی کو مسلسل خبردار کررہے تھے کہ ان کے نام ، لباس، رسمیں، قسمیں اور طور اطوار خدا کو نہایت ناپسند ہیں۔ خدا بھٹیوں ، جوئیوں، کمہاروں اور ارائیوں سے سخت برہم ہے کہ وہ اس صنم خانے میں کیوں پیدا ہوئے۔ خدا اس لئے ناراض ہے کہ وہ انہیں مقدس جنگوں کا پاک ایندھن بنانا چاہتا ہے اور لوگ پٹھانے خان سے چینہ چھاننے کا طریقہ سیکھ رہے ہیں۔

ہمیں پتہ چلا کہ ہم مفتوحین کی اولادیں ہیں اور ندامت کا داغ دھونے کا طریقہ فاتحین کے لئے خون بہانا تھا۔ ہمیں اپنے نام ، لباس ، رسمیں اور طور اطوار بدل کر اور اپنی حقیقی تاریخ اور شناخت پر تھوک کردونوں چیزیں فاتحین سے مستعار لینی تھیں ورنہ ہم پر بخشش کے دروازے بند تھے۔

یہ دروازے اس وقت تک نہیں کھل سکتے تھے جب تک تم ہماری نقالی نہیں کروگے۔ خدا تم جیسے لاکھوں کی قربانی مانگ رہا ہے“۔
ہمارے آباو¿ اجداد تو وہ دھرم چھوڑ آئے جس میں دیوی دیوتا سال میں ایک قربانی مانگتے تھے۔ اب ہم ہر وقت اپنے لاکھوں جوان کیسے تیار رکھیں؟ ہمیں بھی اپنے بچے پیارے ہیں؛ اتنا خون کہاں سے لائیں؟ ہم تو بے مقصد پانی بہانے کو گناہ سمجھتے تھے۔اب ہم بے مقصد خون کیوں بہائیں؟ کہیں کوئی اپنے مفادات کے ڈھیر کو مذہب تو نہیں کہہ رہا ؟کہیں تم خدا کے نام پر کھلواڑ تو نہیں کررہے ؟
ہمیں یہ سب پوچھنے کا حق رکھتے تھے۔ لیکن ہم نہیں پوچھ سکے۔

ایسے مراکز کی تعلیمات کی بدولت عورتوں پر بد اعتمادی کو تقدس حاصل ہوا تو بھائیوں نے گھروں میں دیواریں کھڑی کردیں۔ ہمارے کشادہ صحن اور دل تنگ پڑنے لگے۔دل میں بیٹیوں سے بدگمانی کی بو پیدا ہوئی تو یہ بو ہمیں ا±ن کے جسموں سے آنے لگی۔ مخلوط تعلیمی اداے عیاشی کے اڈے قرار پائے۔ لوگ اپنی بو ختم کرنے کی بجائے عورتوں پر بھاری چادریں ڈالنے لگے۔

خواتین کے بارے میں یہ تاثر قائم کرنے میں جمعیت کے نوجوانوں کا اہم کردار رہا جو سرکاری تعلیمی اداروں اور مراکزکے درمیان پل کا کردار ادا کررہے تھے۔یہ انہی کی بدولت تھاکہ براستہ کشمیر و افغانستان جنت جانے کے خواہش مند زیادہ تر مسافر یونیورسٹی اور کالجوں کے پلیٹ فارمز سے ملتے۔

خطیب حضرات دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی جگر سوز داستانیں سناکر ہتھیار اٹھانے کی چنوتی دیتے۔ نان بائی جس اخبار کے ٹکڑے میں روٹی لپیٹ کر دیتا اس پر ایسی ہی داستانیں رقم ہوتیں۔ دوکانوں کے کاونٹرز پر رکھے چندے کے بکس ہتھیار اٹھانے پر اکساتے اور اندر کلاشنکوف اٹھائے چار سالہ بچے کی تصویر طعنہ دیتی ،”افغان جل رہا ہے اور تم ماں کے لئے ڈسپرین خرید رہے ہو؟“۔ دیواروں پر لکھا دنیا پر چھاجانے والا نعرہ اور اس میں علم کا جنگی استعارہ دنیا کو آگ لگانے کا درس دیتا۔ گھر میں آتے تو ٹی وی پر ’انگار وادی‘ جیسے شاہکار ہمارا استقبال کرتے اور ہمیں سب کچھ جلتا دکھائی دیتا۔ مرکزی مقررین اس آگ پر تیل چھڑکنے اور ندامت کی خیرات بانٹنے ملک کے کونے کونے کا دورہ کرتے۔ علامہ صاحب ان مراکز کے قومی شاعر تھے لیکن اگر جلسہ دوسرے شہروں میں ہوتا تو ملتانی مقررین کا تعارف ا±ن کے اس مشہور مصرعے سے کرایا جاتا :
پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے

15188

یعنی کعبہ کے پاسبانوں کی تازہ ترین کھیپ ملتانی صنم خانے میں تیار ہوئی ہے۔ تقاریر میں صرف ملتانی نہیں بلکہ سندھی ، اور پنجابی ز±بان کے عارفانہ سمجھے جانے والے ’مشرکانہ‘ کلام کی طرف توجہ دلائی جاتی اور صدیوں کی ثقافت کے امین خدا کے مجرم قرار پاتے۔یہ خطاب سن کر ہمارے شہروں کے باسی مشرکین کی مجبور اولادیں ہونے کے احساس پر شرم کے مارے باآوازِ بلند موت کی دعائیں کرنے لگتے۔ میڈیا نقلی پیروں کو بے نقاب کرتا اور مرکز سے وابستہ مقررین لوگوں کو بتاتے:

”دیکھ لو ! ایسے ہوتے ہوں گے تمہارے بلھا ، سچل، رحمان بابے اور فرید “۔

ہم یہ بھی نہ کہہ سکے کہ انہوں نے ہماری زبانوں کو الہام کی طاقت دے کر ہمیں بولنے کا حوصلہ دیا۔تم لوگوں کے پاس عشق کی ناپاک داستانوں کے سوا کچھ نہیں !“ہم یہ بھی نہ کہہ سکے کہ ہر رازعشق و محبت کی شہ کلید ہی سے کھلتا ہے۔ سو من چابیوں کا وہ طوق کسی کام کا نہیں جس میں تمہاری گردنیں پھنسی ہے۔

سن 2000 تک ایسے مراکز ملتان کے گرد و نواح میں تمام قصبوں اور دیہاتوں میں عمارات تعمیر کراچکے تھے جن کا بنیادی مقصد مقامی ثقافت کو شرک زدہ قرار دے کر لوگوں کو شرمندہ اور فسادِ فی سبیل اللہ کے لئے تیار کرنا تھا۔ چونکہ ایسی عبادت گاہیں مقامی شراکت ( چندے ) اور ضرورت و منشا کی بجائے غیر ملکی فنڈنگ سے بالجبر تعمیر ہوتیں اس لئے جیب کی حرارت والے انہیں شب بھر میں تعمیر کروادیتے۔

خطیبوں کے معاوضے کا بندوبست بھی باہر سے ہی ہوتا تاکہ مقامی شناختوں پر تھوکتے وقت انہیں پیچھے مڑ کردیکھنے کی زحمت نہ ہو۔ ان عمارتوں کا طرزِ تعمیر ہماری سرسبز ثقافت کا آئینہ دار ہونے کی بجائے خشک سال اور صحرائی ہوتا تاکہ لوگ ان سے تاریخی و ثقافتی رشتہ قائم نہ کرسکیں۔نہ ان میں روایتی ملتانی کاشی کاری ہوتی نہ نیلگوں ملتانی اینٹیں لگتیں۔ نہ باہو ہوتے نہ فرید اوریہ اہتمام اس خطرے کے پیش نظر کیا جاتا کہ کہیں تکفیر کی جگہ تاثیر نہ لے لے۔

ہم یہ بھی نہ پوچھ سکے کہ یہ کیا ہورہا ہے ؟ تم کون ہوتے ہو ہمیں چہرہ دینے والے؟

ہم یہ پوچھ بھی کیسے سکتے تھے ؟ ہم تو اپنا چہرہ پرائے آئینوں میں دیکھنے کے عادی تھے۔ہم پرائے ماسک چڑھا کر پاک ہونے کا ناٹک کررہے تھے۔ ہر حملہ آور نے ہمیں نیا آئینہ دکھایا۔ ہمیں اتنے آئینے دکھائے گئے کہ ہم اپنی شکل تک بھول گئے۔ تشدد کی تاریک راہوں میں اپنی شکل تلاش کرتے کرتے ہم اس بازار ندامت میں آنکلے جہاں جو بھی سونا لینے گیا راکھ لے کر نکلا۔جیون لینے گیا موت لے کر نکلا۔ نہ جانے تاشفین جیسے کتنے عرقِ ندامت میں ڈوبے تازہ پھول اپنے چہرے ڈھونڈنے نکلے اور صدیوں کی امانتیں بیچ کر ندامت کے طوق خرید لائے۔

ہمارے بچوں کو دہشت گرد بنانے کے لئے انہیں مقامی شناختوں پر شرمندہ کیا گیا ہے ( دورِ حاضر میں ناقابلِ برداشت ندامت انتہا پسندی کا موجب کس طرح بنتی ہے۔ اس کا جواب Kobrin Nancy اور انتہا پسندی کے دیگر ماہرین دے رہے ہیں دہشت گردی کے محرکات نفسیات کی مدد سے سمجھ رہے ہیں)۔

ندامت ایک طاقتور جذبہ ہے جس کی مدد سے طاقتور کمزور کو نکیل ڈالتا ہے۔ندامت سماجی داغ ہے اور ندامت کا شکار اس احساس ہر پل مرتا رہتا ہے کہ یہ داغ سب دیکھ رہے ہیں۔ا±سے ایسے لگتا ہے جیسے وہ بھرے بازار میں ننگا کھڑا ہے۔ اس لئے اس کا فوری طور پرمٹایا جانا لازم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نادم معاشروں کے افراد اپنی شناخت اور تاریخ تبدیل کرنے کے لئے ہر وقت بے چین رہتے ہیں۔

مثال کے طور پر جب مشتعل مسیحیوں کا گروہ اسکندریہ میں سیراپیم ( Serapeum) کی لائبریری جلانے آیا تو ہاپیشیا (350-415) کا محبوب غلام ڈیوس اپنی محبوبہ کا ساتھ دینے کی بجائے ہجوم کے ساتھ مل کر اس کی لائبریری جلا کر غلامی کی ندامت کا داغ دھونے لگتا ہے اور پھر ندامت کے مول گناہ خرید لیتا ہے۔ کیونکہ گناہ مستور جبکہ ندامت ننگا احساس ہے۔ گناہ کی منزل موت سہی لیکن ندامت ہر روز پل پل مارتی ہے۔ ندامت کا شکار لوگ اپنے چہروں کے خود وارث نہیں رہتے اور پھر ا±ن کی شناخت کا تعین دوسرے کرتے ہیں۔نادم لوگوں کا اپنا کوئی چہرہ نہیں ہوتا کیونکہ ان کے چہرے کا وارث کوئی اور ہوتا ہے۔ اس لئے اپنی حقیقی شناخت سے چھپنے والے لوگوں سے کبھی قوم بننے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

ایسے میں تاشفین جیسے لوگ ان کا چہرہ بنتے ہیں کیونکہ شرمندہ لوگ اپنے چہروں کے خود وارث نہیں ہوتے۔ وہ صرف پرائے ماسک چڑھا کر پاک ہونے کا ناٹک کرسکتے ہیں۔ وہ اپنے شہروں ، زبانوں اور ثقافتوں کے پر اعتماد وارث اور سفیر نہیں بن پاتے۔تاشفین بھی ہمارے تعارف کا وہ خلا پر کررہی ہے جو ہم نے غاصبوں کو ہیرو بنا کر اور اپنی تاریخ دوسروں سے لکھواکر پیدا کیا ہے۔

Source:

http://dunyapakistan.com/51988/jamshed-iqbal-4/#.VoKnblLLfcR

Comments

comments