گلگت بلتستان کو کیا فائدہ؟ – وسعت اللہ خان
پچیس دسمبر کی چھٹی ضایع نہیں ہوئی کیونکہ ’’ پاک چائنا اکنامک کاریڈور اور گلگت بلتستان کا مستقبل ’’ کے موضوع پر ایک سیمینار میسر آگیا۔کئی نئے اور مفید نکتے معلوم ہوئے۔ مثلاً یہی کہ گوادر تا کاشغر لگ بھگ تین ہزار کلومیٹر شاہراتی روٹ میں سے بیس فیصد روٹ یعنی سوا چھ سو کلومیٹر سڑک گلگت بلتستان سے گذرے گی۔مگر کیا یہ یہاں رکے گی بھی یابس گذر جائے گی؟
جو پارلیمانی کمیٹی پاک چائنا اکنامک کاریڈور منصوبے پر منصفانہ اور شفاف عمل درآمد کی نگرانی کرے گی اس میں گلگت بلتستان کی کوئی نمایندگی نہیں کیونکہ اس علاقے کی پاکستانی پارلیمنٹ میں کوئی نمایندگی نہیں۔اور جو علاقائی اسمبلی گلگت بلتستان کی نمایندہ کہی جا سکتی ہے اس کے پاس اتنے بھی اختیارات نہیں جتنے کسی عام سی بلدیاتی کونسل کے ہوتے ہیں۔
اس منتخب علاقائی اسمبلی کے اوپر ایک نامزد گلگت بلتستان کونسل بیٹھی ہے جس کا سربراہ پاکستانی وزیرِ اعظم ہے۔ پاکستان کے وزیرِ امورِ کشمیر ، وفاق کے نامزد گلگت بلتستان ریجن کے گورنر بھی اس کمیٹی کے بربنائے عہدہ رکن ہیں۔جو اختیارات منتخب اسمبلی کے پاس ہونے چاہئیں وہ سب اہم اختیارات وفاق کی نامزد اس کونسل کے پاس ہیں۔چنانچہ جو بھی فیصلہ ہوتا ہے وہ وفاق کے نمایندہ پانچ ووٹوں کی اکثریت سے ہوتا ہے جب کہ کونسل میں گلگت بلتستان کے منتخب نمایندے یعنی وزیرِ اعلی کا صرف ایک ووٹ ہے۔اور اگر وزیرِ اعلیٰ بھی اسلام آباد کی حکمران جماعت کے ٹکٹ پر منتخب ہوا ہو تو یوں سمجھئے کہ ساری کی ساری کونسل اپنی فطرت میں وفاقی ہے۔ان حالات میں گلگت بلتستان اسمبلی کی ننگی کیا نہائے کیا نچوڑے ؟
اس پس منظر میں یاد کرنے کی بات یہ ہے کہ جب انیس سو تریسٹھ میں موجودہ پاک چائنا اکنامک کاریڈور کی پیشرو شاہراہِ ریشم کی تعمیر کے خواب کو عملی تعبیر کی شکل دی جانے لگی تو سب ہی خوش تھے۔چین اس لیے کہ اسے مغرب کی جانب ایک دروازہ مل رہا تھا۔پاکستان اس لیے کہ اسے سڑک کے راستے چینی دوستی کے فوائد نظر آ رہے تھے اور ہنزہ ، گلگت اور بلتستان والے یوں خوش تھے کہ شاہراہِ قراقرم انھیں بلند و بالا پہاڑوں سے گھری جغرافیائی جیل سے نجات دلا سکتی تھی۔وہ دو دو ہفتے کے پا پیادہ و دشوار گذار سفر کو ہمیشہ کے لیے خیرآباد کہہ کر صرف چوبیس گھنٹے میں اسلام آباد اور دو دن میں کراچی پہنچ سکتے تھے۔
شاہراہ قراقرم کی تکمیل سے پہلے موسم کی سختیوں سے محفوظ سال بھر کھلا رہنے والا راستہ نہ ہونے کے سبب انیس سو اٹھہترتک یہ حال تھا کہ گلگت بلتستان کے مسافر نمک بھی پی آئی اے کے عملے سے چھپا کر ڈلوں کی شکل میں بدن پر باندھ کے لے جاتے تھے۔کئی جگہ غربت کا یہ عالم کہ تربوز کو آدھا کاٹ کے دونوں بڑے موٹے چھلکوں سے گودا نکال کے ان چھلکوں کو خشک کر لیا جاتا اور پھر برتن کے طور پر استعمال کیا جاتا۔دیر اور ہنزہ کی ریاستوں میں راجگی نظام نے اس قدرتی جیل میں بے حقوق لوگوں کو جانے کب سے جکڑ رکھا تھا۔
چنانچہ جب انیس سو اناسی میں شاہراہِ ریشم باقاعدہ ٹریفک کے لیے کھولی گئی تو واقعی انقلاب آگیا۔علم کی پیاسی نئی پود کراچی تک پہنچ گئی۔کراچی یونیورسٹی گلگتی بلتستانی نوجوانوں کا گڑھ بن گئی۔پنجاب اور خیبر پختونخوا سے اشیائے خور و نوش کی آسان ترسیل نے محرومی اور بھک مری کے منحوس چکر کو توڑا۔لوگ باہر نکلے تو ان پر سیاسی و سماجی شعور کے نت نئے دروازے بھی کھلتے چلے گئے۔
پر ظلم یہ ہوا کہ شعور تو بڑھ گیا لیکن جاری سرکاری نظام شعور کی ہم قدمی نہ کر پایا۔جس طرح گلگت بلتستان انیس سو اڑتالیس میں ریاست کشمیر کا دم چھلہ تھا وہی صورت بعد میں بھی رہی۔اڑسٹھ برس پہلے ڈوگرہ راج سے اپنے زورِ بازو پر آزاد ہو کر پاکستان میں اپنی مرضی سے شمولیت کرنے والے اس خطے کی خواہشِ اختیار آج بھی پنڈولم بنی اسی کے سر پر لٹک رہی ہے۔
جب نذیر صابر دنیا کی بلند ترین چوٹی سر کرتا ہے تو فخرِ پاکستان کہلاتا ہے لیکن جب اسی نذیر صابر کے ہم وطن گلگتی و بلتستانی کہتے ہیں کہ ہمیں بھی وہی حقوق دو جو پاکستان کے دیگر صوبوں کو حاصل ہیں، بھلے غیر رسمی طور پر ہی دے دو، تو ان سے کہا جاتا ہے کہ یہ ممکن نہیں کیونکہ آپ پاکستان کا باقاعدہ حصہ نہیں بلکہ تنازعہِ کشمیر کا حصہ ہیں۔ جب دادا مریں گے تب بیل بٹیں گے۔فی الحال تو آپ محدود بلدیاتی نظام جیسی خودمختاری کا لالی پاپ چوستے رہیں۔
اگر تو گلگت بلتستان میں خواندگی کا تناسب اتنا زیادہ نہ ہوتا تو اس طرح کے انتظامی لالی پاپس سے جنتا کو بہلانا کوئی بڑا مسئلہ نہ تھا۔مگر مشکل یہ آن پڑی ہے کہ روٹی کا شعور تو مل گیا پرروٹی کہاں ہے ؟
پاک چائنا اکنامک کاریڈور کے تعلق سے گلگت بلتستان ریجن کو کیا فائدہ یا نقصان پہنچے گا اس بابت کسی ٹھوس فیزیبلٹی کی نقاب کشائی کے بجائے محض باتوں کی ٹافیاں بانٹنے کے سبب مقامی افراد میں بے یقینی کم ہونے کے بجائے اور بڑھ رہی ہے۔مثلاً یہی ٹافی کہ پاک چائنا کاریڈور سے علاقے کی ماحولیات کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، یہاں بے روزگاری کا خاتمہ ہو جائے گا۔شاہراہ کے آس پاس گوادر تا سست پارہ اکنامک زونز میں سے دو گلگت بلتستان میں بنیں گے۔ان میں خوب سرمایہ کاری ہوگی، صنعت کاری ہوگی، علاقے میں چالیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو بروئے کار لایا جائے گا۔سیاحت کو فروغ دیا جائے گا ، یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا مگر کیسے ؟
مقامی افراد کہتے ہیں کہ جب اکنامک کاریڈور کا نام بھی کسی نے نہیں سنا تھا تب سے یہ وعدے سنتے سنتے کان پک چکے ہیں۔آسمان سے تارے توڑنے کا دعوی دل خوش کن ضرور لیکن یہ سب ہوگا کیسے ؟ تارے توڑ کے لانے والا اپنے پاس کتنے رکھے گا اور بانٹے گا کتنے ؟
آخر بدگمانی کیوں نہ ہو ؟ جب مشرف دور میں شاہراہ قراقرم کی توسیع کا کام شروع ہوا تو وعدہ کیا گیا کہ شاہراہ سے متصل ہر پہاڑی ضلع میں ڈرائی فروٹس محفوظ کرنے کے گودام بنائے جائیں گے۔شاہراہ ریشم تو چوڑی ہوگئی مگر وعدہ اپنی جگہ ٹس سے مس نہ ہوا۔تو کیا یہ بے شناخت خطہ اس بار بھی غوغا مچا کے خاموش ہوجائے گا اور حسرت سے نئی شاہراہ پر دیوہیکل ٹرالروں کی پہلے سے لمبی قطاروں کو دھواں چھوڑتے دیکھتا رہے گا ؟ ہاں یہ گیم چینجر منصوبہ ہے۔مگر گلگت بلتستان والے کہتے ہیں کہ اس کا مطلب ہمارے نزدیک یہ ہے کہ پرانی گیم نئی چینج کے ساتھ۔۔۔
ہو سکتا ہے اہلِ گلگت بلتستان کے یہ تمام خدشات غلط ہوں۔مگر گرم گرم دودھ کے جلوں کو کون بتائے کہ اس بار واقعی ان کے لیے ٹھنڈی چھاچھ راستے میں ہے اور کچھ نہیں تو ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹرز ہی قائم کر دیجیے یا یہی بتا دیجیے کہ اس عظیم الشان منصوبے میں روزگاری کھپت کے لیے کس کس مہارت کی ضرورت ہے۔تاکہ یہاں کے نوجوان کم ازکم اپنی مدد آپ کے تحت ہی آنے والے وقت کے لیے اہلیت بڑھا سکیں۔مگر وہ جو کہتے ہیں کہ،
اتنی فرصت کسے کہ بحث کرے
اور ثابت کرے کہ میرا وجود
زندگی کے لیے ضروری ہے۔
Source:
http://www.express.pk/story/421637/