پاکستان شدت پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دینے والے دیوبندی مدرسے بند کرے، امریکی سینیٹر ایڈ روئس کا مطالبہ – بی بی سی اردو

150619094205_capitol_hill_640x360_getty

امریکی کانگریس کی خارجہ امور کی ایک کمیٹی نے پاکستانی حکومت سے ایسے مدارس کو بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے جو شدت پسندي کو فروغ دے رہے ہیں اور پاکستان پر امریکی پالیسی میں تبدیلی کا بھی مشورہ دیا ہے۔

ایوان نمائندگان میں خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ ایڈ رائس نے کہا ہے کہ خلیجی ممالک سے آنے والے پیسوں سے چلنے والے پاکستان کے دیوبندی مدارس نفرت کا وہ پیغام پھیلا رہے ہیں جس سے وہاں کے طلبہ میں دہشت گردی کا رجحان بڑھتا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’اس میں کوئی حیرت والی بات نہیں ہے کہ سان برنارڈینو کی حملہ آوروں میں سے ایک تاشفين ملک ایسے ہی پاکستانی مدرسے میں زیر تعلیم تھیں جہاں ایک خاص طرح کی شدت پسندي کی تعلیم دی جاتی ہے۔‘

ایڈ رائس نے یہ بیان کانگریس میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات پر ہونے والی ایک خاص بحث کے دوران دیا ہے۔

ادھر پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے جمعہ کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران بیان دیتے ہوئے کہا کہ ابھی تک دہشت گردی میں ملوث کسی بھی مدرسے کے بارے میں ثبوت فراہم نہیں کیےگئے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر کوئی کسی دینی مدرسے سے پڑھ کر دہشت گردی کرتا ہے تو پھر جدید تعلیم دینے والے اداروں سے پڑھنے والے بھی شدت پسندی میں ملوث رہے ہیں، تو پھر کیا حکومت ان تعلیمی اداروں کے خلاف بھی کارروائی کرے؟

اُنھوں نے کہا کہ جو دینی مدرسہ شدت پسندی کی تربیت دینے میں ملوث پایا گیا تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی

امریکی اہلکار کا بیان ایک ایسے وقت پر آیا ہے جب پاکستان پشاور کے سکول کے بچوں پر حملے کی برسی منا رہا ہے اور امریکہ کے کئی حلقوں میں شدت پسندي کے خلاف پاکستانی فوج کی كارروائي کی تعریف بھی ہوئی ہے۔

دوسری جانب پاکستان کا ایک فوجی وفد امریکی فوج کے اہلکاروں کے ساتھ مذاكرات کے لیے واشنگٹن میں ہے۔

ایڈ رائس کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ مضبوط شراکت داری کے حق میں ہیں لیکن امریکی پاليسي میں بڑی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نئی پالیسی کے تحت ایک بات یہ ہو سکتی ہے کہ جو پاکستانی اہلکار شدت پسندی سے منسلک اداروں کے ساتھ تعلقات رکھتے ہوں ان پر معاشي پابندیاں اور ان کی آمد و رفت پر روک لگانے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’اس سے یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان اور امریکہ صحیح معنوں میں اس وقت تک سٹریٹیجک پارٹنرز نہیں بن سکتے جب تک پاکستانی فوج دہشت گرد اداروں سے اپنے تعلقات پوری طرح سے ختم نہیں کرتی۔‘

کمیٹی کے تقریبا سبھی ارکان نے پاکستان کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انھیں حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ سمیت تمام شدت پسند گروہوں کے خلاف كارروائي کرنی ہوگی۔

بعض ارکان نے پاکستان کے بڑھتے ہوئے جوہری ہتھیاروں پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا اور خدشہ ظاہر کیا کہ یہ ہتھیار غلط ہاتھوں، خاص طور سے القاعدہ اور دوسرے دھڑوں تک پہنچ سکتے ہیں۔

امریکی دفتر خارجہ کی کمیٹی کی طرف سے پاکستان کو ایف 16 جنگی طیارے فروخت کرنے کی پالیسی پر بھی تنقید کی گئی اور کچھ ارکان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج ان کا استعمال دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ بھارت کے خلاف اور بلوچستان میں اپنے ہی لوگوں کو نشانہ بنانے کے لیے کر رہی ہے۔

کمیٹی کے ارکان کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے پاکستان اور افغانستان پر امریکہ کے خاص سفیر رچرڈ اولسن کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان بہت سے معاملات پر ایک رائے نہیں ہے لیکن امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے اس کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنا اہم ہے۔

اولسن کا کہنا تھا کہ گذشتہ ڈیڑھ برس میں پاکستان کی پالیسی میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں اور دہشت گردي کی وجہ سے ان کے اپنے 2000 فوجیوں اور ہزاروں شہریوں کی جانیں گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’انھوں نے لشکر طیبہ پر لگام ڈالی ہے لیکن ابھی اور بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔‘

اولسن حال تک پاکستان میں امریکہ کے سفیر تھے اور انھوں نے افغانستان پاکستان پر امریکہ کے خاص سفیر کے طور پر اپنا نیا عہدہ حال ہی میں سنبھالا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خطے میں امن و امان بحال کرنے کے لیے، خاص طور سے افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے میں، پاکستان ایک مثبت کردار ادا کر رہا ہے۔

لیکن پاکستان کے بڑھتے ہوئے جوہری ہتھیاروں پر انھوں نے بھی تشویش کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا: ’ہمیں اس بات کا خوف ہے کہ ان ہتھیاروں کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں ایک روایتی جنگ جوہری جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ اور اس معاملے پر ہم اعلیٰ سطح پر بات کر رہے ہیں۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ نے بھارت کے ساتھ جس طرح کا جوہری معاہدہ کیا ہے اس طرح کا معاہدہ پاکستان کے ساتھ ہونے کے کوئی امکان نہیں ہیں۔

پاکستان کو ہتھیار اور دوسری معاشي امداد دینے کے لیے امریکی انتظامیہ کو کانگریس سے منظوری لینی ہوتی ہے اور اس طرح کے بحث و مباحثے انتظامیہ پر خاصا دباؤ ڈالتے ہیں۔

لیکن دفترخارجہ کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ فی الحال ان کی پاکستان کے متعلق پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کے آثار نہیں ہیں۔

Source:

http://www.bbc.com/urdu/world/2015/12/151218_usa_pakistan_relation_policy_sz

Comments

comments