سانحہٴ پشاور: لال مسجد کے سامنے ’درجن بھر‘ شہریوں کا احتجاج
سول سوسائٹی کے درجن بھر ارکان نے لال مسجد کے بالمقابل واقع سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر شدت پسندی، دہشت گردی اور طالبان کے خلاف نعرے بازی کی۔ اس موقع پر مسجد کے اردگرد رینجرز، ایف سی اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔ مظاہرین کی نعرے بازی میں شدت آئی تو پولیس نے کراچی سے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ احتجاج کے لیے آنے والے سول سوسائٹی کے ایک رکن خرم ذکی اور دیگر کو گرفتار کر لیا، جنہیں بعد میں ڈپٹی کشمنر مشتاق احمد کی مداخلت پر رہا کر دیا گیا۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس سولہ دسمبر کو آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردانہ حملوں میں ڈیڑھ سو طلباء اور اساتذہ کی ہلاکت پر لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز نے ابتدائی طور پر اس واقعے کی مذمت کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا تھا، جس پر سول سوسائٹی نے لال مسجد کے باہر کئی دن تک احتجاجی مظاہرہ کیا تھا، تب کہیں مولانا عبدا لعزیز نے کہا تھا کہ وہ اس واقعے کی مذمت کرتے ہیں۔
چند ہفتے قبل بھی مولانا عبدالعزیز کی جانب سے ملک میں شریعت کے نفاذ کے مطالبے کے حق میں تقاریر اور مظاہرے کے اعلان پر صورتحال کشیدہ ہو گئی تھی تاہم بعد میں اسلام آباد کی انتظامیہ اور عبد العزیز کے درمیان ایک مبینہ معاہدے کے بعد اس معاملے پر وقتی طور پر قابو پا لیا گیا تھا۔
اسلام آباد کی لال مسجد دو ہزار سات میں فوجی آپریشن کے دوران مسجد کے نائب خطیب عبدالرشید غازی سمیت سو افراد کی ہلاکت کے بعد دنیا کی نظروں میں آئی تھی۔ اس کے بعد مسجد کے گرفتار خطیب مولانا عبدالعزیز نے رہائی اور قتل سمیت دیگر مقدمات میں ضمانت کے بعد خطابت کی ذمہ داریاں دوبارہ سنبھال لی تھیں۔
گزشتہ برس لال مسجد سے منسلک خواتین کے مدرسے جامعہ حفضہ کی طالبات کی جانب سے دہشت گرد تنظیم داعش کےحق میں ایک ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد ایسے سوالات اٹھائے گئے تھے کہ آخر انتظامیہ لال مسجد کی سرگرمیوں کو پھر کیوں نظر انداز کر رہی ہے؟
سول سوسائٹی کی رکن اور قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں صنفی تعلیمات کے شعبے کی سربراہ فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ آج جب پوری قوم سانحہٴ پشاور پر رنجیدہ ہے تو ’ہم یہاں ان عوامل کی نشاندہی کرنے آئے ہیں، جو انتہا پسندی اور دہشت گردی کا سبب بنتے ہیں‘:’’اسلام آباد کی لال مسجد انتہا پسندی کی علامت ہے اور ایسی جگہوں پر لوگوں کو شدت پسندی کا درس دیا جاتا ہے۔ اگر یہ علامت اسی طرح قائم ہو اور حکومت اور فوج لوگوں کو شدت پسندی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے پیغام سنائے تو کوئی اسے سنجیدگی سے نہیں لے گا اور لوگ اس پر کیسے یقین کریں گے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’لال مسجد کا معاملہ ہمارے لیے لٹمس ٹیسٹ بن گیا ہے، جب تک حکومت اس پر قابو نہیں پاتی، ہم دہشت گردی کےخلاف اس کی کارروائیوں کو مکمل کر کے نہیں دیکھ سکتے‘۔
دوسری جانب لال مسجد کے وکیل طارق اسد کا کہنا ہے کہ چند لوگ بیرونی اشاروں پر پاکستان اور اسلام آباد میں امن کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا:’’یہ کون سی سول سوسائٹی ہے۔ یہ ایک خاص فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں، جو سول سوسائٹی کی آڑ میں لال مسجد کے خلاف اپنا زہر اگلتے ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں طارق اسد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مولانا عبدالعزیز نے نہ صرف آرمی پبلک سکول پر حملے کی مذمت کی تھی بلکہ وہ اب بھی اس پر قائم ہیں اور غمزدہ خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔
سول سوسائٹی کے ایک رکن خرم ذکی کا کہنا ہےکہ لال مسجد کی انتظامیہ کا رویہ دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسے کچھ مقتدر حلقوں کی سر پرستی حاصل ہے، ورنہ وہ کبھی بھی اس طرح سے حکومتی عملداری چیلنج نہ کر رہے ہوتے۔
Source: