قاضی سلطان محمود – جمہوری جدوجہد کا ایک تاریخ ساز کردار – از حیدر جاوید سید
یہ ٹھٹھرا دینے والے جنوری 1982 آخری دنوں کا ایک عصر تھا لاہور کے ضیا الحقی عقوبت خانے شاہی قلعہ میں ایک ایسا سیاسی قیدی لایا گیا جو خود ایک پولیس حوالدار کے کاندھوں پر سوار تھا قیدی کی ہتھکڑیاں اسی حوالدار کے دوسرے کاندھے پر لٹک رہی تھیں شاہی قلعہ میں ملزم جمع کرنے کی رسم شروع ہوئی راولپنڈی سے آئی پولیس پارٹی کے انچارج انسپکٹر نے چالان کے کاغذات شاہی قلعہ کے نگران کے سامنے رکھے نگران نے کاغذات کی ساری پرتیں بغور دیکھتے ہوئے دریافت کیا ملزم کہاں ہے ؟
انسپکٹر نے حوالدار کو اشارہ کیا اس نے ملزم کو کاندھے سے اتار کر نگران کے سامنے پیش کیا حیرانی سے وہ کبھی ملزم کو دیکھتا اور کبھی انسپکٹر کو پھر اس خطرناک ملزم کو شاہی قلعہ میں جمع کر لیا گیا اس ملزم کو جب قلعہ کی کوٹھڑی میں بند کرنے لگے تو نصف گھنٹے تک اس کے سر کو کوٹھڑی کی سلاخوں سے لگا کر تسلی کی گئی کہ تقریباً تین فٹ کا خطرناک سیاسی قیدی بھاگ نہیں سکے گا / یہ خطرناک سیاسی قیدی راولپنڈی سے پیپلز پارٹی کے رہنما قاضی سلطان محمود تھے / اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے / یادوں کی گھٹڑی کھولی تو یہ تاریخی واقع یاد آگیا سو لکھ دیا تاکہ سند رہے