نصیرالدین طارق – سب جیالوں کے بھائی جان – عامر حسینی
پی پی پی خانیوال کے سٹی صدر شیخ عرفان کا فون آیا کہ بھائی جان نصیر فوت ہوگئے میں اس کے بعد ایک ایک کرکے اپنے سینئرز، جونئرز جیالے دوستوں کے فون سنتا رہا اور ہم سب ایک دوسرے کو بھائی جان کی وفات کی خبر سناتے اور پرسہ دیتے رہے
میں ابھی لڑکپن میں تھا کہ چوک سنگلہ والہ خانیوال میں، میں نے جیالوں کا اجتماع دیکھا ان میں ایک شخص بڑے جوش خروش سے نعرے مار رہا تھا
بھٹو دے نعرے وجن گے
سرخ سرخ ہے ایشیا سرخ ہے
بھٹو کے قاتل بے غیرت
شاہنواز کے قاتل بے غیرت
شاہنواز کی پیرس میں پراسرار موت کو سب جنرل ضیاء کا کارنامہ قرار دے رہے تھے اور یہ احتجاج اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا، پھر اس احتجاج پر پولیس ٹوٹ پڑی مجھے بعد میں پتہ چلا کہ جو آدمی ایک ردھم کے ساتھ نعرے لگوارہا تھا وہ شیخ نصیر الدین طارق تھا
خانیوال شہر کا اندرون پی پی پی اور روشن خیال نظریات کے پھیلاؤ کے لئے کبھی سازگار نہیں رہا تھا کیونکہ شہر کے اندرون میں اکثریت تاجروں اور لمپئن پرولتاریہ یعنی دیہاڑی دار مزدورں اور ریڑھی بانوں و چھوٹی دکاندار کرنے والوں کی تھی اور شہر پر جمعیت العلمائے پاکستان، جے یو آئی، نصراللہ خان کی پی ڈی پی کا غلبہ تھا، خاص طور پر شہر کے 16 بلاکوں میں دایاں بازو بہت غالب تھا لیکن پھر بھی جب 30 نومبر 1967ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو چوہدری مجید انور ایڈوکیٹ اور چودھری برکت اللہ ایڈوکیٹ جو اس زمانے میں بالترتیب سات اور چھے نمبر بلاک میں رہتے تھے ان بلاکوں سے چند سرپھروں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگئے تھے شیخ قریشی برادری کے لوگ یہاں انبالہ ڈویژن کے اضلاع روہتک، حصار اور ان کی تحصیلوں بھوانی، سونی پت سے بہت زیادہ آباد تھے، سونی پت والوں میں سے چند ایک لوگ مجید انور، چوہدری برکت اللہ کی کوشش سے پی پی پی میں شامل ہوئے ان میں شیخ یامین فریدی’ شیخ عبدالسلام قریشی، شیخ عبدالباسط، نواب عبدالجبار، سالار اصغر کے نام تو پی پی پی کے مساوی ہوگئے،
اسی طرح سے حصاریوں میں قمر شمشاد کا گھرانہ تھا، یہ شہر کے قلب میں رہتے تھے اور یہ شہر کا قلب پی پی پی کے لئے شام اور عبید اللہ ابن زیادہ کے دور کا کوفہ تھا، اس وقت جب یہ اس وقت کے بالغ مرد جو 30 اور چالیس کے درمیان تھے جو اپنی اپنی گلیوں میں تن تنہا پی پی پی کے ساتھ کھڑے تھے جبکہ انھی میں شیخ یونس قریشی، خورشید قریشی، اکرام گولہ کامریڈ وغیرہ تھے جو نیپ کی روایت سے جڑے ہوئے تھے آوٹ بلاشبہ یہ سب دائیں بازو کے نزدیک کافر، کمیونسٹ، دھریے تھے، اس زمانے ایک نئی نسل بھی جوان ہورہی تھی بھائی جان نصیر الدین طارق، ملک اسماعیل، بدر عباس عابدی کا تعلق اسی نسل سے تھا، پی پی پی نے خانیوال کے اندر پی ایس ایف کی تنظیم سازی کرنے کی ذمہ داری جن نوجوانوں کو دی تھی ان میں نصیر الدین طارق کا نام سرفہرست تھا
مرے سیاسی مرشد کامریڈ اعظم خان سمیت اس زمانے کے کئی ایک جیالے طالب علموں کی اولین رہنمائی نصیر الدین طارق نے کی جوکہ اپنے سے کم عمر جیالوں کے ” بھائی جان ” کیا ہوئے کہ وہ ” جگ بھائی جان ” ہوگئے اور سب چھوٹے بڑے ان کو بھائی جان کہنے لگے
بھائی جان چار بلاک میں جس گلی میں رہتے تھے اس کے بالکل ساتھ چوکی ہوتی تھی اور دور عتاب میں وہ سب سے پہلے سیاسی قیدی بنا کرتے تھے
بھٹو خاندان سے بھائی جان کو عشق تھا، ہمارا پرانا گھر تین بلاک کی چھے نمبر گلی میں تھا اور یہ چوک سنگلہ والہ کے ساتھ تھی جبکہ بھائی جان چار بلاک ملحق کچہری بازار میں رہا کرتے تھے اور چوک سنگلہ والہ میں جنت روڈ پر زمیندارہ ہوٹل، چھانو چائے والے کا ہوٹل اور رحمان سویٹس یہ شہر کی پوری سیاست کا مرکز تھے، سب سیاسی کارکن یہیں براجمان ہوتے اور زبردست سیاسی دنگل پڑا کرتا تھا، میں آتا جاتا اس دنگل کو دیکھا کرتا تھا، بھائی جان نصیر الدین طارق بھی اس کا سرگرم حصہ ہوتے تھے، وہ دری بچھانے، بینرز لگانے، پمفلٹ بانٹنے، وال چاکنگ کرنے اور پارٹی جلسوں کی منادی کرنے جیسے سارے کام کرلیا کرتے تھے اور تقریر بھی بڑی زبردست کرتے تھے
بھائی جان نصیر الدین طارق کی شہر میں ایک بڑی برادری تھی لیکن اپنے جیسے کئی ایک سیاسی کارکنوں کی طرح وہ زات، برادری، مسلک سب قسم کی رجعتی سیاست سے بہت دور تھے اور ملائیت کے شدید مخالف تھے اور اسی وجہ سے وہ اور ان جیسے کئی کارکنوں نے اپنے قوم، قبیلے میں شدید تنہائی اور بےگانگی کا سامنا کیا
جب بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک بدترین رجعت پرستانہ مذھبی تنگ نظری پر مبنی پرتشدد تحریک میں بدل گئی اور پی پی پی سے وابستگی کو کفر قرار دے دیا گیا اور ان پر ان کی برادری کی طرف سے زبردست دباؤ پڑا تو وہ اس نازک دور میں بھی پی پی پی کے ساتھ جم کر کھڑے رہے، انھوں نے مسجد میں جاکر بھٹو سے اظہار لاتعلقی کرنے، تجدید ایمان کی رسم کو ادا کرنے سے انکار کرڈالا تھا یہ وہ دور تھا جب خانیوال کے کم از کم 8 بلاکس عملی طور پر پی این اے والوں کے مورچوں میں بدل چکے تھے، ان کے بلاک میں پی پی پی کے حامیوں کی دکانوں کو آگ لگادی گئی تھی اور ایک گروپ دستی بموں سے پی پی پی والوں کے گھروں پر حملہ آور تھا، مولوی حضرات اعلانیہ پی پی پی والوں کا سماجی مقاطعہ کرنے کے فتوے جاری کررہے تھے لیکن بھائی جان نصیر الدین طارق خانیوال کے کوفہ میں اپنے ” حسین ” کی حمائت میں ڈٹے رہے
پھر جب 5 جولائی 1977ء کو مارشل لاء لگا اور چار اپریل 1979ء کو بھٹو صاحب کو پھانسی پر چڑھایا گیا اور جنرل ضیاء الحق کا تاریک ترین مارشل لاء کا آغاز ہوا تو اس پرآشوب دور میں بھی بھائی جان کے قدم میں کوئی لڑکھڑاہٹ نہیں دیکھی گئی
اور ایم آرڈی کی پوری تحریک میں بھائی جان ایک نہایت بالغ باشعور جمہوری سیاسی کارکن بنکر ابھرے اور خانیوال کے نمایاں کارکنوں میں ان کا شمار ہوتا تھا
پھر 1984ء (ایم آرڈی کے قیام ) سے لیکر 1999ء تک انہوں نے اکثر اوقات انتہائی نامساعد حالات میں بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی قیادت میں جمہوری جدوجہد کرتے رہے، اور اس تمام جدوجہد کے دوران اگرچہ کبھی بھی پارٹی نے ان کی سماجی حالت میں بدلاو لانے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا مگر انہوں نے کبھی پارٹی سے علیحدگی اختیار نہ کی اور جنرل مشرف کی آمریت جب آئی تو ایک اور نیا بحران بالغ سیاسی کارکنوں کے سامنے تھا اور اس مرتبہ جبر اور دھونس سے زیادہ لالچ اور ترغیب کا آپشن تھا لوکل گورنمنٹس کے بے پناہ اختیارات اور اربوں کے ترقیاتی فنڈز کے زریعے مقامی جاگیردار گروپوں نے بالغ اور کارآمد سیاسی کارکنوں کی قیمت لگانا شروع کی اور بہت سے لوگ لالچ کے اس سیلاب میں بہہ گئے، ایسے ایسے نام کہ جن کے بارے میں یہ سوچا جاتا تھا کہ مریں گے تو دفن پی پی پی کے تڑنگے جھنڈے میں ہوں گے مگر کوئی ہراج گروپ کی نذر ہوا تو کوئی ڈاھا گروپ کی نذر مگر بھائی جان نصیر الدین اپنی جگہ جمے رہے
اکتوبر 18 میں بے نظیر وطن واپس آئیں تو نصیر الدین طارق کا جوش پھر سے عود کر آیا اور فصیل بیٹرے اور پراڈو گروپ پھر غالب تھا لیکن نصیر الدین طارق بھائی جان اپنی دھن میں مگن رہے اور 27 تاریخ دسمبر کی وہ دلخراش دن تھا جس دن جیالوں کی دنیا اندھیر ہوگئی، بھائی جان نصیر الدین مجھے اس شام جب اندھیرا چھایا ہوا تھا، ہر طرف جلے ٹائروں کی بو پھیلی ہوئی تھی نصیر الدین طارق ملے اور ہم دونوں کی اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکے، لگے پھوٹ پھوٹ رونے اور پھر چوک فاروق اعظم چلے آئے جہاں چوہدری زاہد، شاہین رضا واسطی سمیت کئی کارکن جمع تھے اور ایک کہرام مچا ہوا تھا سب ایک دوسرے کے گلے لگ کر رو رہے تھے، سب کی بے نظیر بھٹو کے ساتھ اپنی اپنی یادیں تھیں اور سارے دکھ و مصائب یاد آرہے تھے،
عجیب بات تھی کہ بے نظیر کی شہادت کے ساتھ ہی بھٹو کی پھانسی، شاہنواز و مرتضی کی شہادتیں، ایاز سموں، ناصر بلوچ، رزاق جھرنا، ادریس طوطی، اقبال ھسبانی، شہداء نواب شاہ، سانحہ کارساز کے شہداء سب یاد آرہے تھے، شاہی قلعے کی جیلیں، کوڑے پھانسیاں اور قید سب ایک فلم کی طرح پردہ سکرین پر چل رہے تھے اور سب کہہ رہے تھے کہ شاید یہ مصیبتوں کا دور کبھی ختم نہیں ہوگا اور پھر 2008ء سے 2012ء تک پی پی پی کا دور اقتدار ایک مرتبہ پھر وہی کنڑولڈ اقتدار، میڈیا ٹرائل، عدالتی ٹرائل، اسٹیبلشمنٹ کی محلاتی سازشیں اور پی پی پی کے وزیروں و مشیروں کی جیبیں بھرنے کی کہانیاں اور کارکنوں کو دھکے جیسے فلیش بیک سین ایک کے بعد ایک پھر سے دہرائے جارہے ہوں اور اس نے بھائی جان کی سیاست کو بریک سی لگادی تھی، وہ پی پی پی سٹی خانیوال کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری تھے مگر ایک اسکول میں وہ عملی طور پر آفس اٹینڈیٹ کے فرائض سرانجام دے رہے تھے،
آنکھوں کی بینائی پر اثر پڑچکا تھا اور بچے بڑے ہوگئے تھے جو بھائی جان نصیر الدین طارق کی طرف شکائتی انداز میں دیکھتے تھے جبکہ نصیر الدین طارق کی اتنی طویل سیاسی جدوجہد کے بعد احساس ر ائیگانی ان کو اندر سے مار ڈالتا تھا، جب ان کا اسکول مرے طارق آباد میں تھا تو میں آتے جاتے ان سے ملتا تھا، مجھے آواز دیکر بلاتےناقدری کا شکوہ کرتے اور دل کی بھڑاس نکالتے تھے پھر جب اسکول کہیں اور چلاگیا تو رابطہ ٹوٹ گیا کبھی کبھی ملاقات ہوجاتی تھی اور پھر ایک لمبا وقفہ آیا اور آج ان کے مرنے کی خبر آگئی، جنازے میں خانیوال شہر کے جیالوں کی ایک بڑی تعداد شریک تھی اور سب ” بھائی جان ” کو یاد کررہے تھے اور وہ سارے لوگ جو اپنی جوانی کے زمانے میں بھائی جان سے متعارف ہوئے خود اب دوہتوں، پوتوں والے تھے اور کئی کی کمر درد سے جھکی ہوئی تھیں،
شمس القمر خان قاسمی کمر درد کے باعث ایک چوترے پر بیٹھ کر یاد کررہے تھے کیسے بھائی جان بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد نوجوانوں کو کیسے موبلائز کرتے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ وہ اب تک “ضلال القدیم ” پرانی محبت میں گم تھے، اپنے بیٹے کا سہارا لئے قمر شمشاد اور جاگنگ سوٹ میں گیلانی صاحب اور پورے وکالتی لباس میں ملبوس جاوید ھاشمی ایڈوکیٹ، سوبر سے بزرگانہ وضع قطع لئے شاھین واسطی اور چھم چھم برستی آنکھوں کے ساتھ توفیق کاکا، نابینا ہوجانے والے پرجوش جیالے محمد اقبال گوریلا، عمر کے چور کرار حیدر، پی وائی او کے سیکرٹری جنرل نووارد راشد رحمانی اور پرانی روح شفیق سب ہی تو اداس چہروں کے ساتھ موجود تھے، فتح محمد کہنے لگا کہ ابا پی پی پی میں تھے انہوں نے سب سے چھوٹے بیٹے کا نام ذوالفقار رکھا تو میں نے بیٹے کا نام بلاول، بیٹی کا نام بختاور رکھا ساری نشانیاں بھٹو کی گھر میں رکھ لیں، میں سوچ رہا تھا کہ یہ اپنی اپنی صلیب اٹھائے لوگ کیا کسی اور جماعت کے پاس بھی ہیں مگر ان لوگوں کی قیادت کرنے والوں میں سے کسے خبر ہے کہ کیسی کیسی چنگاریاں ان کی خاکستر میں ہیں
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را