فرانس کا داعش کے خلاف اعلان جنگ
جب برطانوی وزیراعظم انتونی ایڈن نے 1956 ء میں برطانیہ کی مصر کے خلاف فریب کن جنگ کے خاتمے کا فیصلہ کرلیا تو امریکی صدر آئزن ہاور نے اسے ایک خشک سی تجویز بھیجی تھی
Whoa,Boy !
اس کے الفاظ تھے – اور اب یہ الفاظ ان سیاست دانوں ، تاریخ دانوں اور دوسرے لچربازوں کے لئے دوھرانے چاہیں جو کہ خود کو ایک ” ابدی جنگ ” ( کی شروعات ) پیشن گوئی کرنے والے نجومیوں کے طور پر پیش کررہے ہیں
جب بھی میں صبح بیدار ہوتا ہوں تو ہالی ووڈ کی ہارر فلموں میں پیش کئے جانے والے من گھڑت ” خوفناک منصوبوں ” کو اپنے سامنے پاتا ہوں جوکہ ہماری خفیہ پولیس یا ہمارے ان سیاست دانوں کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں جو پبلک ریلیشنز سے انسپائریشن پائے ہوتے ہیں
جرمنی کا جاسوس اعظم ہمیں خبردار کرتا ہے کہ ایک ” دھشت گرد عالمی جنگ ” کا خطرہ سروں پر منڈلارہا ہے ” – میں پیشن گوئی کی اس مہارت کو قبول کرتا ہوں ، کیونکہ بہرحال جرمنی نے اپنے آپ کو ” عالمی جنگوں ” کو شروع کرنے کا بہترین اہل ثابت کیا ہوا ہے – جبکہ کامل معقول و دانا اور ویسے ایک شاندار مورخ ” یورپ کی حالت زار ” کا تقابل رومن امپائر کے زوال سے کرتا ہے – پیرس ہلاکتوں کے واقعے کے بعد کہا جارہا ہے کہ اس نے پیرس کو ہمیشہ کے لئے بدل کررکھ دیا ہے یا یہ کہا جارہا ہے کہ اس نے ” فرانس کو ہمیشہ کے لئے بدل دیا ہے ” میں یہ تو تسلیم کرتا ہوں کہ
General Petain
کی نازی جرمنی سے اتحاد نے فرانس کو ہمیشہ کے لئے بدل دیا تھا لیکن اس ماہ پیرس میں ہونے والے ظلم کا موازنہ 1940ء میں پیرس پر جرمنی کے قبضے کے دوران ہونے والے ظلم سے نہیں کیا جاسکتا – فرانسیسی فلسفیوں میں سے سب سے زیادہ تھکادینے والا فلسفی
Bernard – Henry Levy
ہمیں بتاتا ہے کہ ” داعش ” والے
Fascistislamist
ہیں مجھے یاد نہیں پڑتا کہ اسی طرح سے عجیب و غریب طریقے سے اسی مسٹری لیوی نے ہمیں مسلمہ طور پر بتایا ہو کہ 1982 میں صابرہ شتیلہ مہجر کیمپ میں 1700 فلسطینی شہریوں کے بیروت میں کرسچن لبنانی قاتل – اسرائیل کے بدکار لبنانی مسلح اتحادی ” فاشسٹ کرسچن ” تھے
یہ ایک دھشت گردانہ اقدام تھا جس کے ساتھ میں بھی بخوبی واقف تھا – اپنے دو ساتھی صحافیوں کے ساتھ ، میں ” زبح ہونے والوں ” اور عصمت داری کا نشانہ بننے والی لاشوں کے درمیان چلا تھا – امریکی فوجیوں اور اسرائیل فوج نے بھی وہ ” ذبح عظیم ” دیکھا تھا —- لیکن کیا کچھ نہیں – پھر بھی ایک بھی مغربی سیاست دان کو میں نے یہ اعلان کرتے نہیں سنا تھا کہ ” اس خوفناک واقعہ نے مڈل ایسٹ کو ہمیشہ کے لئے بدل ڈالا ہے ” – اور اگر 1700 معصوم شہری 1982ء میں بیروت کے اندر بغیر ” عالمی جنگ ” کے اعلان کے مار ڈالے جائیں ، تو کیسے صدر فرانکوس الاندے 130 معصوم شہریوں کی ہلاکت کے بعد یہ اعلان کرتا ہے کہ ” فرانس ” حالت جنگ ” میں ہے ؟
پھر بھی اب مڈل ایسٹ کے غریب اور ہجوم بے ترتیب پر مشتمل عوام کو مرا دوست نیل فرگوسن ایسا بیوقوفوں کا سیلاب کہتا ہے جو قدیم روما کی طرف جارہا ہے – فرگوسن مانتا ہے کہ وہ پندرھویں صدی کی رومن تاريخ بارے زیادہ نہیں جانتا کہ وہ اس موضوع پر رومن کا حوالہ درج کرنے کے قابل ہو لیکن رومن نے نئے مفتوحہ لوگوں کو رومن شہریت دی تھی ؛اور فرگوسن نیل کم از کم تیسری صدی کی رومن تاریخ کو پڑھنے کی تکلیف تو اٹھاسکتا ہے جب نیا رومن شہنشاہ ، سیزر مارکس جولیس فلیپس آگسٹس شام سے آیا تھا – وہ دمشق سے 30 میل دور ایک قصبے میں پیدا ہوا تھا اور اسی لئے وہ ” فلپ دی عرب ” کہلایا تھا لیکن آئے ہم جدید تاریخ کو اپنے انتقام لینے کی خواہش کے راستے میں آنے کی اجازت نہ دیں
گزشتہ ہفتے مالی میں ہوئی ہلاکتوں کو لیں – فرانسیسوں نے وہآں شمالی مالی میں اسلامسٹوں کے قبضے کے بعد جنوری 2013 ء میں مداخلت کی تھی جبکہ وہ مالی کے دارالحکومت باماکو پر قبضہ کرنے کی طرف بڑھ رہے تھے – ” فیلڈ مارشل ” الاندے جیسا کہ فرانسیسی پریس اس پر طنز کرتے ہوئے اسے اس لقب سے مخاطب کرتا ہے ، نے اپنے جوانوں کو ” دھشت گردوں ” کو تباہ کرنے کے لئے وہاں بھیجا تھا ، وہ دھشت گرد جو کہ مالی کے شہریوں پر اپنی باغیانہ سزاؤں ” کو نافذ کررہے تھے ، اس دوران فیلڈ مارشل الاندے نے نے مالی میں دھشت پسندی بارے یہ بتانا پسند نہ کیا کہ یہ دھشت
Tuareg-Malian government Civil war
کا حصّہ بھی ہے – جنوری کے آخر میں ، یہ رپورٹش آنے لگیں کہ فرانسیسی فوج کے اتحادی مالی کی افواج ‘ نسلی منافرت کے تحت بدلے ” میں معصوم شہریوں کو بھی قتل کررہی ہیں – اس وقت کے فرنچ وزیر دفاع
Jean – Yuves Le Drian
نے تسلیم کیا کہ ” اربن گوریلا وار ” کو قابو کرنا بہت پیچیدہ کام ہے
ستمبر میں اسلامسٹ ان مالی باشندوں کو قتل کررہے تھے جنھوں نے فرانسیسیوں سے تعاون کیا تھا – جبکہ فرانس پہلے ہی ” دھشت گردوں ” کے خلاف فتح کا اعلان کرنے میں مشغول تھا تو اسلامسٹوں کے اس ” ترجمان ” کے اس اعلان پر کم ہی توجہ دی گئی کہ ” فرانس ہمارا دشمن ہے جوکہ مالی ، نائجر ، سینگال ، ٹوگو کی افواج کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف کاروائیاں کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ تمام ممالک ہمارے دشمن ہیں اور ہم ان کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کرنے جارہے ہیں ” یہ اعلان باماکو میں ہونے والے قتل عام کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے – اور وہ جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ مغرب کے سپاہی تلواروں کی جھنکار کے ساتھ افریقی ممالک جارہے ہیں تو وہ ان مالی کے باشندوں کے کے جذبہ انتقام کو نہیں جگائیں گے یہ نوٹ کرلیں کہ کیسے ہم نے بتدریج فرنچ پولیس مین اور چار فرنچ یہودیوں کے پیرس سپر مارکیٹ میں قتل کے زمہ داروں کی داعش سے وابستگی کو نظرانداز کردیا تھا
Amedy Coulibaly
فرانس میں مالی نژاد والدین کے گھر پیدا ہوا تھا اور اب آئیے 2013ء کی ابتداء میں مالی پر شایع ہونے والی یہ رپورٹ پڑھتے ہیں : کہ فرنچ جنگی طیارے مسلسل مشکوک باغی کیمپوں ، کمانڈ پوسٹوں ، لاجسٹک اڈوں اور دھشت گرد گاڑیوں پر شمالی مالی میں بمباری کررہے ہیں – حالیہ دنوں میں ، حکام نے کہا ، 24 گھنٹوں میں انہوں نے ٹمبکٹو اور گاؤ ریجن میں کئی مقامات کو نشانہ بنایا اور فضائی کاروائی کی – —– ٹمبکٹو اور گاؤ ریجن کی جگہ رقّہ اور ادلیب لگادیں اور یہ وہ ایک جیسا سوپ ہے جو ہمیں پیرس ( اور ماسکو ) سے داعش پر فضائی حملوں کے بارے میں فراہم کیا جارہا ہے — اور اس کے اندر ہی پی آر ڈیو خود بھی اب ہماری منی ایچر ائر فورس کی قیادت کرنا چاہتا ہے
ہمارا ردعمل ؟ سارے بلند آہنگ نعرے بازی ، بہرحال ہماری بے خبری کو ، ہماری جانب سے مڈل ایسٹ کے ساتھ ہوئی ناانصافی کو سمجھنے سے انکار کرنے اور ہماری طرف سے ” تنازعہ ” کے ساتھ سیاسی منصوبوں اور مقاصد کے ساتھ نبٹنے سے سستی برتنے کو ظاہر کرتی ہے – اگر آج ہم
“Whoa, Boy “
ایڈوائس کو اپلائی کرسکتے ہیں تو اسے مکمل طور ایک نئی اپروچ کے ساتھ اس ” کلٹ مافیا ” کی طرف ہونا چاہئیے جو کہ مڈل ایسٹ میں پایا جاتا ہے اور ایک عالمی کانفرنس اس خطے پر شاید انہی خطوط پر ہونی چاہئیے جو سان فرانسسکو میں 1945ء میں ہوئی تھی اور اس میں شریک سٹیٹس مین نے ایک ” اقوام متحدہ ” تشکیل دی تھی جس نے نئی عالمی جنگوں کو روکنے میں کردار ادا کرنا تھا اور مہاجروں کے لئے
Nansen
مہاجر پاسپورٹ 1914- 18 کی جنگ کے بعد لاکھوں بے گھر و بے دخل مہاجروں کے لئے بنایا تھا جس کو اس وقت 50 اقوام نے قبول کیا تھا ، نہ کہ دھشت گرد عالمی جنگ ، آفاقی تباہی اور قدیم روم کی پیشن گویاں کریں – ہمارے اپنے ہر ایک پی آر دیو کے نام میں یہی دوھرا سکتا ہوں
“ whoa, Boy ! “
نوٹ : یہ آرٹیکل رابرٹ فسک نے تحریر کیا جس کا ترجمہ و تلخیص عامر حسینی نے کی ہے اور اصل آرٹیکل اس لنک پر پڑھا جاسکتا ہے