امریکی خفیہ مراسلے : شام کیسے لہو رنگ ہوا-آخری حصّہ
فروری 21 ، 2006ء کا ایک مراسلہ بتاتا ہے
پس پردہ رابطے ( شام میں امریکی سفارت خانے کے روابط ) امریکی حکومت کی جانب سے شامی حزب اختلاف کے لئے 5 ملین ڈالر کی امداد کے اعلان کی مذمت کررہے ہیں اور اسے ‘ سادہ لوحی اور نقصان دہ قرار دے رہے ہیں – روابط نے زور دیا کہ اس بیان نے اپوزیشن کو پہلے ہی نقصان پہنچایا ہے اور شامی حکومت اپنے مخالفوں کو اب مزید امریکی ایجنٹ کہہ کر بے اعتبار بنائے گی – کئی ایک روابط نے زور دیا کہ یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ نے اپوزیشن کی پرواہ نہیں کی بلکہ انہیں اس گھیل میں ایک چپ کے طور پر استعمال کیا – 2006 ء کے امریکی مراسلے اور اس کیبل کو ملاکر دیکھا جائے تو امریکہ کے شامی روابط کا یہ تجزیہ غلط نہیں تھا
فروری 2006ء کا مراسلہ مزید وضاحت کرتا ہے
بساّم اشک ایک شامی نژاد امریکی ایکٹوسٹ جس نے 2003 ء میں پیپلز اسمبلی میں آزاد امیدوار کی خثیت سے حصّہ لیا نے کہا کہ
سول سوسائٹی اور اپوزیشن کے ساتھوں میں یہ عمومی اتفاق رائے ہے کہ امریکی حکومت ہمارے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے اور ہماری مالی مدد کے بارے میں پبلک اعلان اپوزیشن کی حثیت کا کوئی لحاظ نہ کرتے ہوئے شامی حکومت پر دباؤ کے سواء کچھ بھی نہیں ہے – اس گیم میں ہم صرف ایک چپ ہیں
یہاں پر خود امریکہ کے شام میں سفارت خانے نے اپنے روابط کے حوالے سے بتایا کہ امریکہ کی جانب سے شامی حزب اختلاف کو فنڈنگ کرنے کے پبلک اعتراف نے ان پر حکومتی دباؤ بڑھا ریا ہے اور ان کی ساکھ متاثر ہوئی ہے اور ان کا خیال تھا کہ اگر یہ پبلک بیان نہ آتا تو ان کی ساکھ بھی برقرار رہتی اور شام کے اندر زیبادہ شراکتی حکومت میں ان کی شمولیت کے امکانات میں اضافہ ہوجاتا لیکن بعض ناقدین کا یہ بھی خیال تھا اگر امریکی ایسا نہ کرتے تو خود شامی حکومت اس کا سراغ لگالیتی اور ایسی صورت میں شامی اپوزیشن کی امداد کے صیغہ رراز میں رہنے نہ رہنے کا سوال بے معنی ہوکر رہ جاتا
ایک اور ناقد نے کہا کہ امریکہ تو پہلے ہی خفیہ طور پر شامی اپوزیشن کی مدد کررہا تھا : ممبر پارلیمنٹ نومر الغنیم جئیرمین پارلیمانی کمیٹی برائے خارجہ امور نے فنڈنگ پلان کو سیاسی سٹنٹ کہہ کر مسترد کردیا اور کہا کہ جو رقم مختص کی گئی ہے وہ بہت تھوڑی ہے اس سے جو امریکہ پہلے ہی خفیہ طور پر اپوزیشن کو دے رہا ہے اور اس کا کوئی اثر نہیں ہے – نیا قدم بھی کوئی تبدیلی نہں لائے گا – اس کے خیال میں اس اعلان نے شامیوں کو غضہ دلایا ہے جنھوں نے اسے شام کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے طور پر دیکھا ہے – یہ ایسی ہی مداخلت ہے جیسی امریکہ ہمیشہ سے شام کو لبنان کے حوالے سے اپنی پالیسی بدلنے پر زور دیتا رہا ہے – الغنیم کا کہنا تھا کہ امریکہ شامی حکومت سے مذاکرات کرنے چاہئیں اور آہستہ آہستہ ملک کو مکمل جمہوریت کی طرف لیجانے والے پروسس کی حمایت کرنی چاہئیے نہ کہ اس پروس میں روکاوٹ ڈالنی چاہئیے
اپریل 28، 2009ء امریکی خفیہ مراسلہ ” رويے میں اصلاح : ہیومن رائٹس کے لئے اگلی حکمت عملی ” – پالیسی ریویو کے ایک پیریڈ سے لیکر جس میں نئی اوبامہ ایڈمنسٹر؛یشن شام کی طرف کم حریفانہ پالیسی کو دریافت کررہی تھی – شام میں امریکی فنڈڈ سول سوسائٹی کی پیش بندی ، نے تسلیم کیا کہ بی ہیور ریفارم پروگرام کے برخلاف بعض پروگرام کو پبلک کیا گیا تاکہ اسد حکومت کو کمزور کیا جاسکے- یہ بھی بیان کیا گیا کہ شامی حکومت کا بلاشک و شبہ یہ خیال تھا کہ امریکی امریکہ کی کالعدم سیاسی گروپوں کو فنڈنگ شامی حکومت کو گرانے کے لئے کی جارہی ہے – اس فنڈنگ میں تارکین وطن شامیوں کے کچھ ایسے گروپ بھی شامل تھے جن کا شامی سول سوسائٹی یا ہیومن رائٹس کی تحریکوں پر کوئی اثر نہیں تھا – اس مراسلے میں یہ بھی بتایا گیا کہ کہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا جو ایو ایس – مڈل ایسٹ پارٹنرشپ انشی ایٹو – ایم ای پی آئی تھا اس نے آٹھ بڑے شام سے خاص انی شیٹو کو سپانسر کیا جن کا سلسلہ 2005ء تک جاتا ہے اور ان پروگراموں کو 12 ملین ڈالر 201ء ستمبر تک ادا کئے گئے
ان انی شیٹو میں سے درج ذیل کا زکر کیا گیا : ڈیموکریسی کونسل آف کیلی فورنیا ، سول سوسائٹ؛ی سٹرینتھننگ انی شیٹو – سی ایس ایس آئی ( ستمبر 2006ء – ستمبر 2010ء 6،300،562، ڈالر ) ، سی ایس ایس آئی ایک مشترکہ پروگرام تھا جو ڈیموکریسی کونسل اور مقامی شراکت داروں نے ملکر شروع کیا اور انہوں نے اعلامیہ دمشق تیار کیا اور ایک ویب سائٹ ڈبلیو ڈبلیو ڈبلیو ڈاٹ ندائے سیریا ڈاٹ اوآرجیاور کئی براڈکاسٹ کانسپٹس آن آئر کرنے کے لئے تیار کئے اپریل میں
فروری 7، 2010ء کیبل ، ہیومن رائٹس اپ ڈیٹس – شامی حکومت زرا سی پیچھے ہٹی ہے مگر زیادہ نہیں ” اشارہ دیتا ہے کہ بہت سے براڈکاسٹ کانسپٹس شامی اپوزیشن کے ایک سیٹلائٹ ٹی وی نیٹ ورک برادہ ٹی وی کو فراہم کئے گئے – برادہ ٹی وی کو فروری 2010ء کا امریکی خفیہ مراسلہ ایم ای پی آئی ( امریکہ کا شام کے حوالے سے ایک فنڈڈ پروجیکٹ ) سے حمایت شدہ بتاتا ہے – اور اس میں کہا گیا کہ آکر شامی حکومت کو پختہ یقین ہوجاتا ہے کہ امریکہ برادہ ٹی وی کو فنڈنگ جاری رکھے ہوئے ہے تو وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہوگا کہ امریکہ کا شام کی حکومت رویہ خفیہ ، جارحانہ انداز کے ساتھ ہے – لیکن اپریل 2009ء کا امریکی خفیہ مراسلہ یہ پہلے ہی بتا چکا تھا کہ امریکہ کی طرف سے کسی بھی قسم کی فنڈنگ کالعدم سیاسی گروپوں کو رجیم تبدیلی کی کوشش سمجھی جائے گی اور امریکہ جو کم معاندانہ پالیسی شام سے اپنانا چاہتا ہے اسے امریکہ کی یو ایس سپانسرڈ سول سوسائٹی اور ہیومن رائٹس پروگرامنگ کے ساتھ کیسے ہم آہنگ کیا جائے گا اور یہ ایک ایسا کور ایشو تھا جو امریکہ شام کے حوالے اپنی ہیومن رائٹس سٹریٹجی کے حوالے سے فیس کررہا تھا
اپریل 2009ء کا مراسلہ بتاتا ہے
امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا بیورو آف ڈیموکریسی ، ہیومن رائٹس اینڈ لیبر افئیر کی اکثریت اور ایم ای پی آئی پروگرامز امریکہ کے عزائم کی طرف شامی حکومت کے شکوک میں اضافہ کرتے ہیں – اگر ہم شام سے انسانی حقوق پر اپنے مذاکرات کو کامیاب دیکھنے کے خواہش مند ہیں تو ہمیں شام کے ساتھ ملکر غیر دھمکی انداز میں کام کرنا ہوگا
یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اپریل میں جس پالیسی شفٹ کی بات کی گئی تھی وہ کبھی نہیں ہوئی – اور 2009ء میں ہی امریکی سفارت خانے نے کہا تھا کہ امریکی سرگرمیاں شام کے حوالے سے شامی حکومت کو پتہ چلیں تو امریکہ کے ساتھ اس کے مذاکرات طے نہیں ہوسکیں گے
جولائی 2008ء کا امریکی سفاارتی مراسلہ بارے شامی اپوزیشن ، دھندلے اتحاد : اخوان المسلمون ، تحریک برائے انصاف و جمہوریت ، اور اعلامیہ دمشق ، ” پریشان کن حقیقت تازہ ترین معلومات سے یہ پتہ چلی کہ شامی حکومت ایم جی ڈی کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئی ہے اور اسے امریکی حکومت کا حساس ترین پروگرام برائے شام پتہ چل چکا ہے – مراسلہ اس ایشو پر مزید بات یوں کرتا ہے
ایم جے ڈی : شگاف شدہ کشتی
ہشتم : (س ) اعلامیہ دمشق کے رکن فواز طلوع نے ہمیں ماضی میں بتایا تھا کہ تحریک برائے جمہوریت و انصاف ( ایم جے ڈی ( نے اپنی سیکورٹی ڈھیلی رکھی ہے اور انتہائی حساس ایشوز پر یہ اکثر کھلے عام بات کرتی ہے —— آخری نکتہ ایک قانون دان / صحافی اور انسانکی حقوق کی کارکن رضان زیتونہ کی ایک رپورٹ سے متعلقہ ہے جو کہ ہم سے یکم جولائی کو ملی اور اس نے وہ گفتگو ہم سے ڈسکس کی جو کہ اس سے سیکورٹی سروسز نے 29 جون کو کی تھی
نہم : ( ایس / این ایف ) زیتونہ نے ہمیں بتایا کہ سیکورٹی سروسز نے اس سے سوال کیا کہ کیا وہ ہماری فارن منسٹری کے کسی آدمی سے ملی ہے ؟ اور کسی بھی ایسے آدمی سے جس کا تعلق ڈییموکریسی کونسل سے ہو ( ایم جی ڈی اور برادا ٹی وی کے لئے امریکی فنڈنگ وصول کرنے والی آرگنائزیشن ) – [ کامنٹ : سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ فارن افئیر آفیسر جوزف براوفٹ حال ہی میں شام میں تھا اور وہ زیتونہ سے ملا تھا ؛ ہمارا خیال ہے کہ شامی حکومت نے معلومات کے لئے اسے چارے کے طور پر استعمال کیا – براوفٹ شام کے دورے پر گیا تو اس وقت جم پرنس بھی 25 فروری کو دمشق میں موجود تھا اور ہماری انڈرسٹینڈنگ ہے کہ وہ وہ اس وقت زیتونہ سے ملا یا اس نے ایسا الگ سے دورے کے دوران کیا – تبصرہ ختم شد ) اس نے یہ بھی مزید کہا کہ پوچھ تاچھ کرنے والوں نے اس سے براوفٹ بارے نام لیکر نہیں پوچھا لیکن انہوں نے جم پرنس کا نام لیا – [جم پرنس دیموکریسی کونسل کا سرابرہ ہے ] یازدہ – ( ایس / این ایف ) : زیتونہ کی رپورٹ یہ سوال پیدا کرتی ہے کہ شامی حکومت شام میں ڈیموکریسی کونسل بارے کتنے عرصے سے واقف ہے اور اور ایم جی ڈی کی اس میں شرکت سے کب سے واقف ہے ؟ یہ رپورٹ دوسرے معنوں میں یہ بھی بتاتی ہے کہ شامی ” مہا بھارت ” شاید پہلے ہی ایم جے ڈی میں داخل ہوچکی ہے اور ایم جے ڈی کے رابطوں کو امریکی جمہوری پروگرامنگ کو ٹریک کرنے کے لئے استعمال کررہی ہے
ستمبر 23، 2009ء مراسلہ ، ” مینوں نوٹ وکھا ! شامی حکومت کو امریکی فنڈنگ کا شک ہے ،” یہ مزید اس بات کا ثبوت ہے کہ شامی حکومت امریکہ جو فنڈنگ کررہا ہے اس سے باخبر ہے
اول : ( ایس / این ایف ) خلاصہ : شامی حکومت ، گزشتہ چھے سال
شامی سیکورٹی ایجنٹوں کی شام اور خطّے میں امریکی پروگرامنگ بارے سول سوسائٹی اور ہیومن رائٹس کارکنوں سے پوچھ گچھ بڑھتی جارہی ہے اور اس تفتیشش میں یو ایس سپیکر اور ایم ای پی آئی انی شیٹو بارے سوالات بھی شامل ہیں – اس کے علاوہ پوچھ تاچھ کرنے والوں نے شامی مرکز برائے آزادی اظہار و میڈیا اور امریکی حکومت فنڈڈ آی ثی آے این اے پریس کے ڈائریکٹر اور ملازمین سے بھی پوچھ پڑتال کی ہے اور انسانی حقوق کے وکیل محمد الحسنی کے خلاف مزید الزامات لگائے گئے ہیں جو کہ غیرقانونی طریقہ سے امریکی فنڈنگ کے الزام میں نظربند ہیں اور اس سے شامی حکومت کی جانب سے انوسٹی گیشن میں سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے
دوم – ( ایس / این ایف ) گزشتہ چھے ماہ سے سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے کارکنوں سے سیکورٹی افسران نے جو سوالات کئے ہیں اس میں انہوں نے خاص طور پر ان کے امریکی سفارت خانے اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے روابط بارے پوچھا ہے – جیسا کہ پہلے بتایا گیا تھا کہ رضان زیتونہ نے جون میں اپنے ساتھ ہونے والی انٹروگیشن بارے بتایا تھا جس کے دوران اس سے ایم ای پی آئی فنڈڈ ڈیموکریسی کونسل کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ آفیشل بارے بھی پوچھا گیا تھا – کردش فیوچر موومنٹ کی کارکن ہروین اوسے سے اگست میں پوچھ گچھ کی گئی اور اس سے بھی غیر ملکی سفارت خانوں سے فنڈنگ بارے پوچھا گیا – ایم ای پی آئی سے گرانٹ لینے والے عبدالسلام نے بتایا کہ حال ہی میں اس کے ایک ایمپلائی کو 4 ستمبر کوبلایا گیا جس میں سیکورٹی ایجنٹس نے اس سے آٹھ ماہ قبل ای ای پی آئی فنڈ سے ہونے والے “ّپی آئی این ” پراگ سیمنار میں شرکت بارے سوال کیا گیا
چہارم ( سی ) انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے شامی نژاد وکیل مہند الحسنی کے کیس نے ایک اور برا ٹرن لیا ہے کہ اس کے خلاف شامی حکومت نے ایک اور نیا الزام لگایا ہے – 18 ستمبر کو الحسنی کی ساتھی کیتھرائن التعالی نے ہمیں ایک ای میل روانہ کی جس میں بتایا کہ ملزم حسنی نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ اس کو امریکی حکومت کی فنڈنگ قاہرہ میں موجود اندلس سنٹر کے زریعے سے ملتی تی ۔۔۔۔۔۔ قاہرہ میں امریکی سفارت خانے نے ہمیں خبر دی ہے کہ یہ سنٹر اب سفارت خانے یا ایم ای پی آئی سے کوئی امداد نہیں لے رہا اگرچہ پہلے یہ لیتا رہا ہے
ہشتم – ( ایس / این ایف ) تبھرہ : یہ اب بہت واضح ہوچکا ہے کہ شام کی انٹیلی جنس سروسز یہ سمجھ گئے ہیں کہ امریکی حکومت کیسے شام میں پیسہ داخل کرتی ہے اور وہ کیسے اس کی آلہ کار ایجنسیوں تک پہنچتا ہے – جو بات صاف ہے تاہم یہ ہے کہ سیکورٹی ایجنٹس اب زیادہ سے زیادہ اس ایشو پر فوکس دوران تفتیش رکھے ہوئے ہیں – اور وہ زیادہ سے زیادہ خاص ناموں پر اپنا فوکس رکھنے میں بھی کامیاب ہورہے ہیں – یہ الزام کہ حسنی امریکی حکومت سے فنڈنگ اندلس سنٹر کے زریعے سے وصول کررہا ہے پریشان کن ہے اور یہ بتاتا کہ شامی حکومت خاص طور پر ایم ای پی آئی کے آپریشن کے اندر داخل ہوچکی ہے
فروری 7 ، 2010ء مراسلہ پہلے ” ہیومن رائٹس اپ ڈیٹس میں یہ بتا چکا تھا کہ شامی حکومت تھوڑا سا ہلی ہے مگر زیادہ نہیں اور اس نے یہ بھی بتایا کہ شامی حکومت برادا ٹی وی کو امریکی فنڈنگ سے واقف ہوچکی ہے
برادا ٹی وی : روشنی میں نہائی شامی اپوزیشن
نہم – ( س ) دمشق سے تعلق رکھنے والے ایم ای پی آئی فنڈڈ برادا ٹی وی کے ڈائریکٹر سھیر اتاسی نے دسمبر 23 کی ملاقات میں چینل کو درپیش کئی ایک چیلنچز پر روشنی ڈالی
دہم – (س ) اتاسی نے ان رپورٹس کی تصدیق جس میں ہم نے دوسرے رابطوں سے سنا تھا کہ شامی حکومت برادا کے پیچھے فنانشل اور سیاسی سپورٹ میں گہری دلچسپی لے رہی ہے اور سیکورٹی ایجنٹس نے اس کو اکتوبر میں بلایا اور اس سے بار بار اس کے امریکی سفارت خانے سے تعلق اور جم پرنس سے شناسائی بارے سوال کیا – اگر شامی حکومت کو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ برادا ٹی وی کو امریکی مسلسل فند کررہے ہیں تو اسے يہ یقین بھی ہوجائے گا کہ امریکی حکومت خفیہ طور پر شامی حکومت کے خلاف سرگرم اور اس کا رویہ اس کے خلاف جارحانہ ہے – حال ہی میں شامی حکومت نے امریکہ کی آپریشن کاسٹ لیڈ اینڈ گولڈ سٹون رپورٹ پر پوزیشن کو استعمال کیا ہے اور ہیومن رائٹس پر مذاکرات بند کردئے ہیں ، اسی طرح یہ برادا ٹی وی کے ایشو کو استعمال کرتا ہوا ہماری ساکھ کو مسترد کرتے ہوئے یہ سب ختم کردے گا
جولائی سے ستمبر 2009ء تک اور پھر فروری 2010ء کے شام بارے امریکی سفارتی مراسلے اسی سچوئشن بارے بات چیت کررہے ہیں جس بارے اپریل 2009ء میں امریکی خفیہ مراسلے میں خبردار گیا گیا تھا کہ شامی حکومت کو امریکی فنڈنگ کا پتہ چل جائے گا لیکن ان مراسلوں میں 2009ء کے مراسلے کی وہ بات زیر بحث نہیں آئی کہ اس کے نتائج کیا نکلیں گے کہ شامی حکومت سے امریکی حکومت کے کم مزاحمتی رویہ کے ساتھ مذاکرات اور شامی حکومت سے رابطے ختم ہوجائیں گے ، اس لئے امریکی فنڈنگ کو نئی انگیجمنٹ پالیسی سے مطابقت میں لانے کی ضرروت ہے – ان سفارتی مراسلوں سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ بش ایڈمنسٹریشن کی 2005ء میں جو پالیسی تھی
اس سے اوبامہ انتظامیہ کی شامی حکومت کے سوال کے حوالے سے جو پالیسی تھی وہ قدرے بدلی ہوئی تھی اور اس بدلاؤ کو عوام کے اندر زیادہ مشتہر نہیں کیا گیا تھا – امریکہ نے شامی اپوزیشن کو فنڈ کرنا جاری رکھا اور ان کو یہ یقین تھا کہ اگر شامی حکومت اس سے واقف ہوئی تو اسے پتہ چل جائے گا کہ امریکہ انگیجمنٹ پالیسی میں سنجیدہ نہیں ہے ؛ امریکہ نے ان سرگرمیوں کو فنڈ کرنا جاری رکھا جبکہ ان کے علم میں یہ آرہا تھا کہ شامی حکومت زیادہ سے زیادہ اس بارے میں معلومات حاصل کرتی جارہی ہے – جب یہ فنڈنگ پبلک کو پتہ چلی تو امریکی حکومت نے اس بات سے انکار کیا کہ اس فنڈنگ کا مقصد حکومت گرانا ہے لیکن اب ہم امریکیوں کی اندرونی کمیونیکشن سے یہ بات جانتے ہیں کہ امریکیوں کے اس انکار کی شامی حکومت کے نزدیک کوئی حثیت نہ تھی
یہ بات ایک اور سوال کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اوبامہ ایڈمنسٹریشن کس حد تک اپنی پالیسی کو انگیجمنٹ کی طرف شفٹ کررہی تھی اور کتنا زیادہ اس نے اپنی پالیسی کو اس طرف موڑا جبکہ سعودیہ عرب اور دوسرے ممالک 2011ء میں ہی کھلے عام ” اسد حکومت گراؤ” پالیسی اختیار کرچکے تھے – حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہی امریکی انۃطامیہ نے پالیسی شفٹ کا اعلان کیا ویسے ہی سعودی عرب اور دوسرے ممالک نے ” اسد حکومت گراؤ ” پالیسی کا دروازہ کھول دیا جبکہ امریکہ نے اس حقیقت کو چھپاتے ہوئے ایک اور علط کہانی اپنی عوام کو سنائی کہ امریکہ نے شامی حکومت سے ملکر شام کے اندر مسائل کے حل کی تلاش کی مگر جب 2011ء میں شامی حکومت نے اپنے خلاف ہونے والے احتجاج کے خلاف کریک ڈاؤن کیا تو امریکہ کے پاس کوئی اور گنجائش نہیں رہ گئی تھی کہ وہ اپنی پالیسی بدل ڈالے
لیکن امریکہ کے خفیہ سفارتی مراسلوں کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ امریکہ کبھی بھی شامی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی پالیسی میں سنجیدہ نہ تھا – ایک طرف یہ شامی حکومت کے ساتھ رابطے کی پالیسی رکھتا تھا تو دوسری طرف یہ حکوم گراؤ پالیسی پر بھی عمل پیرا تھا –ایرانی حکومت نے اپنے ہاں اٹھنے والی احتجاجی لہر کے خلاف 2009ء میں کریک ڈاؤن کیا لیکن امریکی حکومت نے ایرانی حکومت سے اپنے رابطے مکمل منقطع نہیں کئے ، شاید ان کو یہ خطرہ تھا کہ ایرانیوں سے مکمل انقطاع کی قیمت بہت زیادہ ہوگی اور ایران یورینیم افزدوگی مزید تیز کردے گا اور ڈپلومیسی ناکام ہوئی تو اوبامہ پر ایران کے خلاف فوجی کاروائی کا دباؤ مزید بڑھے گا اور شامی حکومت بارے شاید ان کا کمان یہ تھا کہ وہ امور اس کے اتحادی طاقت سے آسانی سے اسے ہٹانے میں کامیاب ہوجائین گے اور ایرانی حکومت بھی اس میں اپنا کردار ادا نہیں کرسکے گی
یہ بات حان لینے کے بعد کہ امریکہ نے کبھی بھی شام میں حکومت گرانے کی پالیسی ترک نہیں کی تھی ہمیں باخر کرتا ہے کہ آج کے شام میں امریکی فوجی مداخلت کا سوال کیا ہے ؟ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ امریکہ حالات کا مارا ہوا نہیں ہے کہ اسے طاقت کا استعمال اس لئے کرنا پڑرہا ہو کہ ڈپلومیسی کا راستہ بند ہوگیا تھا بلکہ امریکہ ان حالات کا گرفتار ہے جن کو پیدا کرنے میں خود اس نے مدد دی ہے کہ یہ کئی سالوں سے ” اسد حکومت گراؤ ” کی پالیسی پوری طاقت سے چلارہا تھا جبکہ اس نے ” سفارت کاری ” کے چینل کو کبھی پوری طرح سے استعمال ہی نہیں کیا
Source: