دیوبندی مولوی حسن جان کو سپاہ صحابہ کے تکفیریوں نے کیوں قتل کیا – قاری حنیف ڈ ار
ھمیں بہت سوچ سمجھ کر بات زبان سے نکالنی چاھئے بعض دفعہ ھم بات کر کے خود تو توبہ کر لیتے ھیں مگر جس کو ھم اپنی تقریر سے بم بنا دیتے ھیں وہ تو جگہ جگہ پھٹتا پھرتا ھے ! بہت سارے لوگ جنہوں نے فرقہ وارانہ تشدد کی آگ بھڑکائی اور لوگوں کے دل و دماغ کو تندور بنا دیا،، جب خود روش بدلنے اور اعتدال کی راہ اختیار کرنے کی کوشش کی اپنوں کے ھاتھوں ھی مار دیئے گئے ! حضورﷺ نے معراج میں ایک چھوٹے سے سوراخ سے ایک بیل کو نکل کر بڑا ھوتے دیکھا جو واپس اس سوراخ میں داخل ھونے کی کوشش کرتا ھے مگر داخل نہیں ھو سکتا ۔حضورﷺ کے استفسار پر جبرائیل نے بتایا کہ وہ آپ کی امت کے خطیب کے منہ سے نکلا کلام ھے جو ایک دفعہ نکل کر واپس نہیں پلٹ سکتا بلکہ بڑے سے بڑا ھوتا جاتا ھے
میں آج پڑھ رھا تھا کہ اسپین کو جب مسلمانوں نے چھوڑا تو وہ ایک متمدن اور ترقی یافتہ فن تعمیر کا ایک شاھکار ملک تھا،مگر جاھل اسپینیوں نے اسے پھر سے کھنڈر بنا دیا تھا، مسلمانوں کو نکالنے کے لئے،چرچ نے ضرورت کے تحت مذھبی جنونیوں کو استعمال کیا ،مگر مسلمانوں کے نکل جانے کے بعد یہی مذھبی جنونی قریہ قریہ اور بستی بستی کے خدا بن بیٹھے،، احتساب چرچ قائم کر دیئے گئے،،جہاں ھر اتوار کو عورتوں کو جادوگرنی قرار دے کر جلایا جاتا،، کسی بھی فیشن ایبل عیسائی کو بے دین قرار دے کر ،ایک لیور کے ساتھ اس کے ھاتھ پاؤں باندھ کر کھینچا جاتا اور اس کے ھاتھ اور پاؤں کے جوڑ نکل جاتے، ایک صندوق جس میں میخیں گڑھی ھوتیں لٹا کر ڈھکن بند کیا جاتا تو میخیں بدن کے اندر گھس جاتیں اور بندہ قطرہ قطرہ خون ٹپک کر دو دن میں سسک سسک کر مرتا،، ایک وھیل نما چَۜکے پر لٹا کر جب اس گھمایا جاتا تو اس مرد یا عورت کی ریڑھ کی ھڈی ٹوٹ جاتی،، یہ تمام اوزار آج بھی اسپین کے شہر ٹولیڈو میں ایک احتساب چرچ میں رکھے ھوئے ھیں
مذھبی خداؤں کی یہی کہانی ھمارے یہاں بھی دھرائی گئی ھے، ،وہ عفریت وھاں کے چرچ سے قابو نہیں ھوا تھا،اور یہ عفریت ھمارے علماء کے قابو سے باھر ھے، وہ بے چارے اپنی جان چھپاتے پھرتے ھیں، مولانا حسن جان نے اس عفریت کو قابو کرنے کے لئے چلہ شروع کیا تھا مگر چلہ ناکام ھو گیا جس کا خمیازہ انہیں اپنی جان دے کر بھگتنا پڑا،،اس کے بعد کوئی عالم یہ چلہ کرنے کو تیار نہیں،، تاریخ لکھنے والے جس طرح چرچ کو کوستے ھیں،،کل ان مساجد اور اس مذھبی قیادت کو کوسیں گے جنہوں نے دور اندیشی کی بجائے فوری فوائد اور ایجنسیوں کی ترغیب پر اس عفریت کو سماج کی بوتل سے نکالا اور جنگلوں میں بھیج دیا ! اور پھر واپسی کا منتر بھول گئے