امریکی خفیہ مراسلے : شام کیسے لہو رنگ ہوا -تیسرا حصّہ
یہ تسلیم کرنے میں ناکام رہنا کہ امریکہ کے حریفوں کے تحفظات ریشنل ہیں یہ ایک ایسے عالمی نظریہ کو سامنے لاتے ہیں جس میں امریکی دھمکیاں نارمل ، ناقابل زکر اور ایک لینڈ سکیپ کا ناگزیر حصّہ ہیں جن پر صرف دماغی طور پر بیمار لوگ ہی اعتراض کرسکتے ہیں اور ان کے تحفظات ہی ان کی نامعقولیت کا ثبوت بن جاتے ہیں – 1980ء میں امریکہ کی نکاراگوا کے خلاف منظم کانٹرا وار کے دوران ایک یو ایس کانگریس مین کے نکاراگوا کے بارے میں خیالات کے الیگزینڈر کوک برن یوں یاد کرتا ہے
نکاراگوا کے باشندے ان امریکی فیکٹ فائنڈرز کے بارے میں ایک حاص قسم کی کجرو بے اعتباری کے ساتھ کہانیاں سناتے ہیں – ایک کانگریس مین نے ایک سردار کو کانٹرا کے دیوانہ وار قتل عام بارے بات کرتے سنا اور پھر وہ پھٹ پڑا ، ‘ فرض کرتے ہیں 5000 کانٹرا آپ کا باڈر کراس کرتے ہیں ، تمہارے اوپر پوری ہنڈراس کی فوج حملہ آور ہوجاتی ہے ، تو تم کیوں پریشان ہوتے ہو ، کیا تم غیر محفوظ ہو ؟ اسی طرح روئے بک بھی اقتصادی اصطلاحات کو ایک کمزوری ( جس کو بنیاد بناکر حملہ کیا جاسکے ) کے طور پر نشان زد کرتے ہوئے لکھتا ہے
کمزوری
اصلاح پسند فورسز بمقابلہ اہلیان بعث – دوسرے بدعنوان اشراف
بشار بتدریج اقتصادی اصلاح کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور یہ یقینی طور پر ممکن ہے کہ اسے یقین ہے کہ شام کے لئے یہ اس کا ورثہ ہے – شامی تارکین وطن کی جانب سے شام میں سرمایہ کاری دوبارہ کرنے کے لئے یہ محدود اور غیر موثر اقدام ہیں لیکن انہوں نے بڑھتے ہوئے کھلے پن کے بارے میں ایک ابہام کو جنم دیا ہے تو ایسے طریقہ کار کی تلاش جس سے بشار کے اصلاحی کوششوں پر عوام کے اندر قابل اعتراض ٹھہرادیا جائے – مثال کے طور پر اس کے ریفارم ایجنڈے کو کرونی ازم ( اقرباء پروری ) کے لئے ایک نقاب ٹھہرادیا جائے ( تو یہ امریکی مقصد کو آگے بڑھانے میں مدد کرے گا ) یہ بشار الاسد کو خفت سے دوچار کرے گا اور اس کے جواز حکمرانی حاصل کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے میں مددگار ہوگا
بظاہر یہ مانتے ہوئے کہ اقتصادی اصلاحات کا ایک مقصد شامی تارکین وطن کو سرمایہ کاری پر آمادہ کرنا تھا تو تو اگر ان کا کوئی اثر تھا تو پھر وہ غیر موثر تو نہ تھے – یہ ایک مرتبہ پھر واضح کرتا ہے کہ روئے بک کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ، اس کو شام کی اقتصادی اصلاحات کی نجی سرمایہ کاری کو سہولت فراہم کرنے سے کوئی دلچسپی یا لگاؤ نہیں تھا بلکہ اسے تو ان کی ناکامی میں دلچسپی تھی – اگر ان سے کسی بہتری کی امید بھی پیدا ہونے کا امکان ہوتا تو وہ اسے ناکام کرنا چاہتا تھا اور وہ ان کوششوں کو برباد کرنا چاہتا تھا تاکہ بشار الاسد اس کو اپنے اقتدار کے جواز کے لئے استعمال نہ کرسکے
جواز جکمرانی امریکی حکومت کی ان ملکوں کی اپنی حریف حکومتوں جن سے اسے کوئی فوجی خطرہ نہیں ہوتا کے بارے میں بنائی پالیسی کی اہم کلید ہے – امریکی خارجہ پالیسی کے تناظر میں ” جوآز حکمرانی ” اس آرٹ کی ایک ٹرم ہے جس کے خاص معانی ہیں –بین الاقوامی قانون یا سفارت کاری میں ” جائز حکومت ” کی عمومی اصطلاح جسے امریکہ کسی بھی سوال کے بغیر اپنے اتحادیوں کی حکومتوں پر منطبق کرتا ہے اس کا اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کہ آپ اس حکومت کی پالیسیوں کو پسند کرتے ہیں یا نہیں یا ان کو جائز تصور کرتے ہیں یا نہیں – آیا آپ اییسی حکومت ہیں جس کو تسلیم کیا جارہا ہو اور وہ اقوام متحدہ کی رکن ہو یا آپ ایسے نہیں ہو – واشنگٹن میں کوئی ایسا آدمی مشکل سے مہے گا جوکہ سعودی عرب ، بحرین ، اردن یا اسرائیل کو ناجائز حکومت کہے اس بنا پر کہ ان کو ان کی عوام نے منتخب نہیں کیا یا وہ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی میں ملوث ہیں – نہ ہی واشنگٹن میں آپ کو ایسے لوگ اب کثرت میں ملیں گے جو روس یا چین کی حکومتوں کو ان کے ہآں جمہوریت کی کمی کی وجہ سے قانونی جائز حکومتیں ماننے سے انکاری ہوں – یہ ممالک ایٹمی ہتھیار رکھتے ہیں – اور ان کے پاس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل نشستیں ہیں اور ویٹو کا حق ان کے پاس ہے تو ان کے جواز حکمرانی کو چیلنج کرنے کے حطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں – امریکہ ان کی پالسیوں پر شکایت تو کرساکتا ہے لیکن ان کے جواز حکمرانی کو چیلنج کرنے کا کوئی چانس نہیں ہے
ممالک جیسے شام ، عراق ہیں وہ 2003ء میں امریکی حملے سے پہلے اور لیبیاء وہ 2011ء میں امیکی – نیٹو کی قذافی گراؤ مہم سے پہلے ایک مختلف کیٹگری کے ممالک سے تعلق رکھتے تھے – اگر امریکی حکومت کو یہ خیال ہوتا کہ ان ملکوں کی حکومتوں کو کرایا جاسکتا ہے تو وہ ان کو اسی وقت ” جواز حکمرانی ” سے محروم حکومتیں قرار دے ڈالتے – امریکہ کا کسی حکومت کو ” غیر قانونی ” قرار دینے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اس کو گرانے کی کوشش کرے گا
روئے بک اس نکتہ کو ایسے بیان کرتا ہے
گلف سے براہ راست فارن انوسٹمنٹ کی حوصلہ شکنی
شام گوشتہ دو سال سے برہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے ژزے لوٹ رہا ہے اور اب اس میں مزید اصافہ ہونے کے آثار ہیں – اور سب سے اہم یہ ہے کہ یہ ایف ڈی آئی بلاشک و شبہ گلف ریاستوں سے آرہی ہے
روئے بک کا یہ تسلیم کرنا کہ شام کے اندر سرمایہ کاری میں اضافہ ہورہا ہے اس بات کا ثبوت تھا کہ اقتصادی اصلاحات کام کرتے ہوئے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کررہی تھیں – لیکن روئے بک اس کو برا شگون مانتا ہے – اگر زیادہ ایف ڈی آئی گلف ممالک سے ہورہی تھی جیسا کہ اس نے بتایا تو امریکہ اور شام کے منحرف سابق نائب صدر خدام کے دعوؤں کے برعکس یہ بات تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ شام کی پالیسی عرب ملکزں سے اپنے تعلقات خراب کرنا ہے – سرمایہ کاری کا گلف ریاستوں سے ہونا روئ بک کے ںزدیک بہتر نہ تھا اور اس نے امریکہ کو اسے روکنے کے لئے کہا
روئے بک شامی حکومت کے خلاف پرتشدد احتجاج پر خوشی سے تالیاں پیٹتے ہوئے کہتا ہے
کمزوری
کرد : بہت منظم اور شجاع
سیاسی اپوزیشن اور سول سوسائٹی گروپ نسلی اقلیتی گروپ کردوں ( جوکہ شام کے شمال مشرقی حصّے میں اکثریت میں ہیں ) اور دمشق و الیپو کی کمیونٹیز سے آرہے ہیں – یہ گروپ اپنے آبائی شہروں میں پرتشدد احتجاج پر تیار ہیں جبکہ دوسرے ایسی جرآت نہیں کرتے (زور دیکر کہا )
Daring
کا جو انگریزی میں لفظ ہے یہ مثالی جرآت کے لئے بولا جاتا ہے – امریکی اخبارات مثال کے طور پر فلسطینیوں کے امریکی قبضے کے خلاف تشدد کو اس لفظ کے ساتھ بیان نہیں کرتے کیونکہ اس لفظ کے ساتھ تشدد کو بیان کرنا ظاہر سی بات ہے حوصلہ مندی کا تقاضا کرتا ہے اور اسے امریکہ میں مثالی خیال نہیں کیا جاتا – اس سے یہ بات بھی پتہ جلتی ہے کہ روئے بک جیسے امریکی سفارت کار دنیا کو کیسے دیکھتے ہیں : آکر آپ امریکہ کی اتحادی حکومتوں کے خلاف احتجاج کررہے ہیں جیسے بحرین ، مصر یا اسرائیل ہیں تو پھر آپ کے احتجاج میں تشدد نہیں ہونا چاہئیے – لیکن اگر آپ کا احتجاج ایک ایسی حکومت کے خلاف ہے جس کو امریکہ گرانا چاہتا ہے تو ایسے احتجاجوں میں تشدد کا استعمال ” شجاعانہ اور جرآت مندانہ ” ہوگا اور روئے بک اس کمزوری سفے فائدہ اٹھانے کا مشورہ دیتا ہے
ممکنہ اقدام :
کرد شکایات کو نمایاں کریں : کردوں کی شکایات کو عوامی بیانات میں نمایاں کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی پامالی کی شہرت کرنے سے شامی حکومت کے کرد آبادی کے بارے میں تحفظات بڑھتے جائیں گے – اس اقدام کا مقصد شامی حکومت کو کردوں کے انسانی حقوق کا احترام کرنے پر مجبور کرنے کا یہاں کوئی اشارہ نہیں ہے – اس کا مقصد شامی حکومت کو غیر مستحکم کرنا ہوگا – روئے بک نے اپنا یہ رویہ شام میں دھشت گردی کی طرف بھی ظاہر کیا
کمزوری :انتہا پسند عناصر تیزی سے شام کو اپنے ایک اڈے کے طور پر استعمال کررہے ہیں – جبکہ شام کی حکومت ایسے گروپوں کے خلاف کاروائی شروع کرتے ہوئے ان کے القائدہ سے روابط کا بیان دے چکی ہے – دسمبر کے شروع میں القائدہ لیڈر کے لبنان کی سرحد کے ساتھ مارے جانا اور ستمبر 12 میں امریکی سفارت خانے پر حملے کے بعد شام کے اندر دھشت گرد حملوں میں تیزی آرہی ہے اور شام نے عراق کے اندر دھشت گردوں کی مدد جیسی پالیسیاں جو اختیار کی تھیں اب اس کا خمیازہ اسے اپنی سرزمین پر بھگتنا پڑرہا ہے
ممکنہ اقدام
شام میں دنیا بھر سے آئے انتہا پسند گروپوں کا شہرہ کیا جائے اور یہ صرف حماس اور پی آئی جے تک محدود نہیں ہونا چاہئیے – شامی حکومت کے ان انتہا پسندوں کے خلاف اقدام کی شہرت ایسے طریقے سے کی جائے جس سے شامی حکومت کی کمزوری ظاہر ہو ، اس کے عدم استکام کی علامتیں ظاہر ہوں اور اس کے ردعمل کو کنٹرول نہ کرنے کی اہلیت ظاہر ہو – اور شامی اکثر دھشت گرد حملوں کے بعد جب یہ دلیل دیتی ہے کہ وہ خود دھشت گردی کی متاثرہ ہے تو اسے خود شام کے اندر پھیلتے ہوئے عدم استحکام کو ظاہر کرنے کے لئے اس کے خلاف استعمال کیا جائے
اس بات کو نوٹ کریں کہ خفیہ مراسلت میں روئے بک شام کے دھشت گردی سے متاثرہ ہونے کو تسلیم کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا اور اسے یہ ماننے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوتا کہ شامی حکومت دھشت گردوں کے حلاف اقدام اٹھارہی ہے – لیکن اگر شام دھشت گردی کا شکار ہے اور وہ اس بارے کچھ کرنے کی کوشش کررہا ہے تو ری بک کے خیال میں امریکہ کو اسے دنیا کے سامنے اس بات کے ثبوت کے طور پر پیش کرنا چاہئیے کہ شام کمزور اور غیر مستحکم جو ہے اور یہ جن چیزوں کا سامنا کررہا ہے تو اس کی وجہ ہرجگہ دھشت گردوں کی حمایت بناکر دکھائی جائے
فرض کریں اگر کسی ایسے ملک کا سفارت کار جوکہ امریکہ کا حریف ہو یہ کہتا کہ 11 ستمبر 2001ء میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹا گان پر دھشت گردانہ حملے اور مستقبل میں ایسے حملوں کو روکنے کی امریکی کوششیں امریکہ کے کمزور اور غیر مستحکم ہونے کا ثبوت ہیں اور امریکہ یہ ماضی میں امریکہ کی ہر جگہ دھشت گردوں کی سپورٹ کی وجہ سے بھگت رہا ہے جو اب اس کے اپنے گھر کو جلانے آگئے ہیں تو اس کو امریکہ میں کیسے دیکھا جاتا ؟
اس بارے میں قیاس ارائی کرنا مشکل نہیں ہے کیونکہ جب مئی 2007ء میں ریپلکن صدارتی امیدوار ران پال نے 11 سمتر کے واقعات کو امریکی خارجہ پالیسی کا شاخسانہ قرار دیا تو ریپبلکن کے فرنٹ رنر روڈی جولیانی نے اس کو سازشی نظریہ ساز کہہ کر رد کیا – جب 2010ء میں امریکہ میں ایک تقریر میں ایرانی صدر نے یہ کہا کہ ایک بڑی اقلیت کا خیال یہ ہے کہ نائن الیون حملے خود امریکی حکومت نے کرائے تھے تو امریکہ نے اس تقریر کی مذمت کرتے ہوئے واک آؤٹ کردیا تھا – تو یہ معقول بات ہے کہ اگر شامی حکومت کو شام میں دھشت گردی کا خود زمہ دار امریکہ قرار دے گا تو وہ اسے بہت ہی جارحانہ اقدام خیال کرے گی
اس مراسلے سے پتہ چلتا ہے کہ دسمبر 2006ء میں ٹاپ امریکی ڈپلومیٹ کو یہ یقین تھا کہ امریکہ کی شام میں پالیسی کا مقصد شامی حکومت کو غیرمستحکم کرنا ہے چاہے وہ کسی بھی دستیاب زریعہ سے ہو ؛ اور یہ یقین بھی تھا کہ امریکہ کو شام کے اندر سنّی آبادی کے اندر ایرانیوں کی کاروباری سرگرمیوں اور مساجد کی تعمیر بارے پروپیگنڈے کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے میں مدد دیتے ہوئے ، شامی سنّی آبادی کے تحفظات کو تیلی دکھاتے ہوئے شیعہ – سنّی فرقہ واریت کو بڑھانا چاہئیے – امریکہ کو عرب اتحادیوں پر زور دینا چاہئیے کہ وہ شامی منحرف نائب صدر کو زیادہ سے زیادہ اپنے زیر کنٹرول عرب میڈیا تک رسائی دے تاکہ وہ امریکی حکومت کا تختہ الٹنے کی شامی عوام سے اپیل کرسکیں – امریکہ کو عرب ممالک اور شامی حکومت کے درمیان خلیج بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئیے اور پھر اس تناؤ و کھچاؤ کا الزام بھی شامی حکومت کو دنیا چاہئیے – امریکہ کو شامی حکومت کے اقتصادی ریفارم ایجنڈے میں کھنڈت ڈال دینی چاہئیے – اور بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئیے – اور امریکی حکومت کو شامی حکومت کو ناجائز حکومت قرار دینے کی کوششیں تیز کردینی چاہیں ، شام میں احتجاجوں کو قابل تعریف قرار دینا چاہئیے اور شام کو ہی شام میں دھشت گردی کا زمہ دار ٹھہرانا چاہئیے اور اس کے لئے اس کی خارجہ پالیسی کو الزام دینا چاہئیے
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ریاض میں امریکی سفارت خانے کی نظر میں شام امریکہ سے تعلقات بہتر بنانا چاہتا تھا جبکہ امریکہ یہ اس صورت میں چاہتا تھا جب اسد ایران سے دور ہوجائے
ہم دوسرے امریکی خفیہ مراسلوں سے جانتے ہیں کہ امریکی حکومت شامی حزب اختلاف کو فنڈنگ کررہی تھیں – امریکی حکومت نے اس فنڈنگ کا اعتراف ویکی لیکس کی جانب سے امریاکی خفیہ مراسلت کے شایع ہونے کے بعد کیا – امریکہ نے پہلے شام میں جمہوریت کو فروغ دینے کے لئے فنڈنگ کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن پہلے ہ پبلک کو معلوم نہیں تھا کہ امریکی حکومت کس حد تک اپوزیشن گروپوں کے ساتھ کام کررہی تھی اور وہ کیا سرگرمیاں تھیں جن میں امریکہ مصروف تھا جسے شامی حکومت اپنے آپ کو گرانے کی کوششیں خیال کرتی تھی
فروری 21 ، 2006ء کا ایک مراسلہ بتاتا ہے
پس پردہ رابطے ( شام میں امریکی سفارت خانے کے روابط ) امریکی حکومت کی جانب سے شامی حزب اختلاف کے لئے 5 ملین ڈالر کی امداد کے اعلان کی مذمت کررہے ہیں اور اسے ‘ سادہ لوحی ” اور نقصان دہ قرار دے رہے ہیں – روابط نے زور دیا کہ اس بیان نے اپوزیشن کو پہلے ہی نقصان پہنچایا ہے اور شامی حکومت اپنے مخالفوں کو اب مزید امریکی ایجنٹ کہہ کر بے اعتبار بنائے گی – کئی ایک روابط نے زور دیا کہ یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ نے اپوزیشن کی پرواہ نہیں کی بلکہ انہیں اس گھیل میں ایک چپ کے طور پر استعمال کیا – 2006 ء کے امریکی مراسلے اور اس کیبل کو ملاکر دیکھا جائے تو امریکہ کے شامی روابط کا یہ تجزیہ غلط نہیں تھا
Source: