سب سے بڑی اور خطرناک کرپشن – عمار کاظمی
چوہدری غلام حسین نے شیخ رشید سے سوال کیا کہ سندھ میں تو سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کرپشن کے خلاف بڑا کام کر رہی ہے پنجاب میں کیوں خاموشی ہے؟ جواب میں شیخ رشید کہہ رہے تھے کہ پنجاب میں احتساب کا فیصلہ 23 مارچ کے بعد ہوگا۔ یہ بتاتے ہوئے ان کی زبان پھسلی اور وہ یہ بھی کہہ گئے کہ راحیل شریف کے دورہ امریکہ سے واپسی پر پنجاب میں احتساب کا فیصلہ ہوگا۔ یعنی کیا وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ پنجاب کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کرپشن پر ہاتھ ڈالنے کے لیے فوج کو امریکہ کی اجازت درکار ہوگی؟
کیا سندھ میں ایکشن کرتے بھی ایسا کوئی اجازت نامہ حاصل کیا گیا تھا؟ اور کیا پنجاب میں ایکشن شروع ہونے کی صورت میں اس خودمختار ریاست کے شہریوں کو شکریہ راحیل شریف کی جگہ شکریہ اوبامہ کہنا ہوگا؟ ٹرکوں بسوں ویگنوں کے پیچھے اب کیا شکریہ کے ساتھ اوبامہ کا پورٹریٹ بنایا جائے گا؟ اور کیا آئندہ ضمنی اور بلدیاتی انتخابت کے پوسٹروں میں راحیل شریف کی فوٹو کی جگہ اوبامہ کی فوٹو لگا کرے گی؟ محترم شیخ رشید صاحب کی قومی غیرت بھی لائقِ تحسین ہہے کہ جناب کمال مہارت سے بے شرمندگی بیان کر جاتے ہیں۔
یہ کہنا کسی طور غلط نہ ہوگا کہ ہماری ریاستی اور قومی ترجیحات ہر معاملے میں شروع سے ہی غلط رہی ہیں اور رشوتستانی اور بد عنوانی بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ یعنی جو کرپشن براہ راست خطرے کا باعث ہے اس پر بات نہیں ہوتی مگر جو نسبتاً کم اہم اور سیاسی نوعیت کی ہوتی ہے اسی پر سارا زور رہتا ہے۔ عمران خان نے اپنی سیاسی برتری کی خاطر نوجوان نسل کو کرپشن کا لفظ تو رٹا دیا ہے مگر یہ نہیں بتایا کہ جب کرپشن کی بات کرنی ہو تو سب سے پہلے کن شعبوں کی بات کرنی چاہیے۔ کرپشن کرپشن کا یہ سیاسی ورد کبھی نواز اور زرداری سے آگے نہیں بڑھ سکا۔
اگر آپ دوا ساز کمپنیوں کے مارکیٹنگ کے طریقوں سے تھوڑی سی بھی واقفیت رکھتے ہوں تو یہ سمجھنے میں ذرا مشکل نہ ہوگی کہ کس طرح میڈیکل ریپ کے ذریعے ڈاکٹر اور ہسپتال کے میڈیکل سپرینٹنڈنٹ کو خریدا جاتا ہے، کس طرح ڈاکٹرز کے ذریعے عام مصنوعات کو نسخہ والی دوا بنا کر بیچا جاتا ہے اور کس طرح ڈاکٹرز ڈھٹائی سے میڈیکل ریپ کو کہتے ہیں کہ اس بار گھر کے اے سی نہیں گاڑی تبدیل کرنی ہے۔ ڈاکٹروں کو جھوٹی بے ثمر میڈیکل کانفرنسسز کے دعوت نامے، سیمینارز، مفت کے جہاز کے ٹکٹ اور فائیو سٹار ہوٹلوں کی عیاشی فراہم کر کے ملٹی نیشنل اور مقامی کمپنیوں کی مصنوعات کو قدرتی غزا اور دودھ وغیرہ سے بہتر قرار دلوایا جاتا ہے۔ گوالے کا دودھ استعمال نہ کرو، وہ اس میں گندا پانی شامل کرتے ہیں، پانی زیادہ دودھ کم ہوتا ہے، جراثیم سے پاک نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ۔
مگر یہ کسی ڈاکٹر کو بتانے کی زحمت گوارا نہیں ہوتی کہ ڈبے والے دودھ میں کتنے فیصد دودھ ہوتا ہے؟ اس میں شامل کیمیکل صحت کے لیے کتنے خطرناک ہوتے ہیں؟ یہ حقیقت تب تک سامنے نہیں آتی جب تک کہ کچھ رپورٹرز اس حقیقت کو سامنے نہیں لاتے۔ کبھی کسی ڈاکٹر نے اپنی اخلاقی، قومی اور پیشہ ورانہ ذمہ داری ادا کرتے اپنے مریض کو ٹیٹرا پیک کی حقیقت سے آگاہ نہیں کیا۔ تاہم طب اور دوا سازی کے شعبے میں کرپشن کی یہ بہت معملولی سی مثالیں ہیں۔
چند ماہ پہلے اینٹی ٹیٹنس انجکشن کی قیمت ۴۱ روپے سے بڑھا کر ۸۹ روپے کر دی گئی۔ پھر کسی نے احتجاج کیا تو حکومت قیمت واپس ۴۱ روپے پر لے آئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اینٹی ٹیٹنس انجکشن میڈیکل سٹورز سے غائب ہو چکا ہے۔ گلیوں سڑکوں پر روز بچے گرتے ہیں اور ان حالات میں کسی کو یہ انجکشن لگوانا ہے تو اسے سرکاری ہسپتال جانا پڑتا ہے۔ ۱۰۰ میں سے ۴ فیصد نجی میڈیکل سٹورز جن پر یہ انجکشن اب دستیاب ہے وہ اسے بلیک میں ۹۱ روپے کا بیچ رہے ہیں۔ اسی طرح سے چند سال پہلے وائتھ کمپنی کا پینیڈیور انجکشن مارکیٹ سے غائب ہوا۔
وائتھ نے حکومت وقت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ انجکشن کی قیمت ۹ روپے سے بڑھا کر ۱۳ روپے کر دے۔ مگر حکومت نے انکار کیا اور وائتھ نے اس کی پروڈکشن بند کر دی۔ اسی دوران ایک مقامی کمنی نے مختلف نام سے یہ پینسلین انجکشن بنانا شروع کر دیا جو معیار میں کسی طور بھی پہلے والے کے برابر نہیں تھا۔ ایک تو مقامی انجکشن کا اثر دیرپا نہ تھا اوپر سے اسے لگانے کے بعد پورا ہفتہ بازو ایسے اکڑا رہتا کہ جیسے اس میں سیمنٹ بھر دیا گیا ہو۔
جبکہ پینیڈیور ایل اے لگائے جانے کے بعد نہ صرف مسلز میں بہتر طریقے سے ڈزالو ہوجاتا تھا بلکہ اس کا اثر بھی دیرپا تھا۔ تاہم اسے ختم کر کے مقامی کمپنی کے کم معیاری انجکشن کی قیمت ۲۳ روپے مقرر ہوگئی۔ اب کہاں وائتھ جیسی بڑی نامور تجربہ کار کمپنی کا انجکشن ۱۳ روپے کا بھی نہ ہو سکا اور کہاں ایک نئی مقامی کمپنی کا تیار کردہ نسبتاً کم معیاری انجکشن ۲۳ روپے کا؟ فولک ایسڈ کی گولیاں جو عورتوں کو زچگی کے دوران خون کی کمی کے باعث دی جاتی تھیں اس کی ۳۰ گولیاں ۳۰ روپے میں ملتی تھیں۔ لیکن اب وہ بھی مارکیٹ سے غائب ہے اور اس کی جگہ جو متبادل میڈیسن میسر ہے اس کی تیس گولیاں ۳۰۰ روپے میں مل رہی ہیں۔
ان دو تین مثالوں کے علاوہ نہ جانے اور کتنی روزمرہ استعمال کی زندگی بچانے والی سستی اور معیاری ادویات مارکیٹ سے غائب کر کے انہی طریقوں سے کھربوں روپے کی کرپشن ہو رہی ہے۔ اگر کوئی سمجھنے ولا ہو تو یہ اپنے حجم کے اعتبار سے سب سے بڑی اور اپنی نوعیت کے اعتبار سے سب سے خطرناک کرپشن ہے۔ مگر اس پر سوچنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے پاس شاید وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ تو ہر وقت محض سندھ اور پیپلز پارٹی اور متحدہ میں کرپشن ڈھونڈنے کے مشن میں مصروف رہتی ہے۔
آخری بات جو میں یہاں ریاسستی دوغلے پن کے حوالے سے ضرور لکھنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ کل آخر کار عدالت نے پھانسی کی سزا پانے والے مجرم نوید کے بیان پر رانا ثنا اللہ کو بھولے گجر کے قتل کے مقدمے میں شامل تفتیش کرنے کا حکم دے دیا۔ اور میں سوچ رہا ہوں کہ صولت مرزا کی طرح ایک انٹرویو مجرم نوید کا بھی سفید بیک گراونڈ اور ساونڈ پروفنگ کے ساتھ ڈیتھ سیل سے ٹیلی کاسٹ ہونا چاہیے۔ اگر نہیں تو ریاست، حکومت، ایجنسیاں، میڈیا ہاوسسز اور ان کی ٹاوٹ عوام سندھ اور بلخصوص متحدہ کے لوگوں کو جواب دے کہ صولت مرزا کا انٹرویو کیوں اور کس کے کہنے پر دکھایا گیا؟
ہم جانتے ہیں ان سوالوں کے جواب میں کہا جائے گا کہ بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کی طرحہ صولت مرزا کے انٹروکا حوالہ بھی نہیں دیا جا سکتا۔ وہ unprecedented تھا۔ مگر یہ سارے unprecedented کام سندھ کے حصے میں ہی کیوں آتے ہیں؟ سارے اصولی تقاضے پنجاب کے لیے ہی کیوں پورے ہوتے ہیں؟ بندروں والے میزان نے پاکستان میں عدل و انصاف اور مساوات کا حلیہ بگاڑ ڈالا ہے۔ تاہم اب پردے کے پیچھ بیٹھے بندروں کو سمجھ لینا چاہیے کہ محض unprecedented کہہ دینے اور عدالتی قتل مان لینے سے یہ ریاست زیادہ دیر چل نہیں سکتی۔ ہم نہیں کہتے کہ کرپشن نہ پکڑو اور قاتل نہ پکڑو۔ قاتل بھی پکڑو کرپشن بھی پکڑو لیکن اگر ملک چلانا ہے تو انصاف کا معیار چھوٹے بڑے، سب صوبوں، سب لوگوں کے لیے ایک جیسا رکھو۔