غامدی – دور حاضر کا مودودی – پیجا مستری
یونیورسٹی کالج کے دنوں میں جاوید احمد غامدی کی حیثیت محلے کی مسجد میں خطبہ دینے والے مولوی سے زیادہ نھیں تھی ، اسکو عام طور پر جماعتیے امین احسن اصلاحی کا ” خاص شاگرد ” اور میرے جیسے پیپلیے مسجد میں بچوں کے ساتھ غیر اخلاقی حرکات کرنے والا مولوی کہتے تھے۔
جب مشرف کے زمانے میں یہ ٹی وی پر آکر ڈرامے کرنے لگا تو میں نے اسے رنگیلے مولوی کا خطاب دیا ۔ تب بھی اسکے جو واھیات پروگرام میں نے دیکھے اس سے صرف یہ اندازہ ھوا کہ اس نے کچھ عادتیں چھوڑدی ھے ۔ باقی ڈرامے بازی محلے کے مولوی سے زیادہ کچھ نھیں۔
اسکی میزان کتاب میں نے بہت عرصہ پہلے پڑھی تھی اور اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دی تھی کیونکہ وہ سواے چربہ سازی کے کچھ نھیں
مگر گذشتہ کچھ عرصے سے میں نے امریکہ میں اس کی تقریریں سننا شروع کی تو اندازہ ھوا کہ محلے کی مسجد کا مولوی مودودی کے ھم پلہ ھو گیا ھے- ابھی اس نے اپنے خطبات ڈیلاس کے نام سے لیکچر یوٹیوب پر لگای ھیں انکو سننے کے بعد مجھے لگا کہ غامدی خطرناک بھی اتنا ھی ھے جتنا مودودی تھا- مودودی نےپاکستان کی نوجوان نسل کو خراب کیا تھا غامدی یہ کام عالمگیر پیمانے پر کرنے نکلا ھے۔
جاوید احمد غامدی، طرز کہن اور طریق کوہ کن….
علی ارقم
مولانا مودودی کی کتاب اسلامی ریاست کی جو کاپی ہمارے بڑے ماموں کی لائبریری میں تھی اس کی جلد بندی میں غلطی ہوگئی تھی اس لئے جب آپ کتاب کھولتے تو وہ الٹی ہوتی، جب جماعت اسلامی والے ان سے سابق ساتھی ہونے کی بنیاد پر چندہ لینے آتے تو وہ کتاب اٹھا کے دکھاتے کہ مودودی صاحب کی اس کتاب کی جلد بندی تمھارے ظاہر وباطن کے فرق کی عکاس ہے۔
بہر حال سابق جماعتی ہونے کی بنا پر ماموں کی مودودی صاحب کے بارے میں خوش گمانی اب بھی ہے بلکہ وہ تو کوثر نیازی صاحب کی آخری عمر کی زندگی میں تنہا رہ جانے کو مودودی صاحب کی بددعا کا نتیجہ ہی گردانتے ہیں ۔ کم و بیش یہی حالت دبستان مودودی کے خوشہ چینوں کی اکثریت کا ہے کہ ان میں سے نہ تو مولانا کی عقیدت جاتی ہے نہ ہی ان جیسی عادات ، بلکہ پوری جماعت اسلامی ہی ان عادات کا مرقع ہے
جماعت اسلامی کی بابت بات کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں سردست ان کے دبستان کے ایک اور خوشہ چیں کی کرتے ہیں
ہمارے جاوید احمد غامدی صاحب جو پرویز مشرف کے زمانے پر ٹی وی و الیکٹرانک میڈیا کے منبر پر ہمہ وقت ایستادہ نظر آتے تھے پھر فضا بدلی تو راندہ درگاہ ٹھہرے پھر بھی گاہے گاہے نظر آہی جاتے ہیں اور اب پھر فضا بدلنے کی نوید سنائی دیتی ہے اور برادرم ندیم فاروق پراچہ کو جنرل مشرف کے بعد ایک مرتبہ پھر راحیل شریف کی صورت میں بیانیہ بدلتا نظر آرہا ہے جس میں خالد احمد بھی ان کے مویّد ہیں اسی بدلتے منظر نامے میں غامدی صاحب بھی پھر سے ابھرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
غالباً سہ ماہی تاریخ میں ایک مضمون پڑھا تھا کہ کس طرح سے مختلف فوجی حکمرانوں کو ڈاکٹر فضل الرحمٰن ، میاں طفیل ، ڈاکٹر اسرار وغیرہ کی صورت میں ایسے ہم نشینوں کا ساتھ حاصل رہا ہے جو مذہبی فکر کے میدان میں ان فوجی طالع آزماوں کے رجحان یا ضرورتوں کے نمائندہ رہے ہیں۔ اسی ضمن میں ہمارے دوست شہریار علی جاوید احمد غامدی صاحب کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا نیا پوپ قرار دیتے رہے ہیں
غامدی صاحب اگرچہ محولہ بالا لسٹ میں موخرالذکر دو ناموں یعنی میاں طفیل اور ڈاکٹر اسرار سے بہت مختلف ہیں اگر چہ ڈاکٹر فضل الرحمان جیسے تبحر علمی سے بہرحال محروم ہیں البتہ روایتی مذہبی طبقے اور سیاسی مذہبی فکر کے حاملین کی ناپسندیدگی میں وہ ضرور ڈاکٹر فضل الرحٰن کے ہم سر ہیں ۔
چوں کہ غامدی صاحب علمی حوالے سے پوسٹ اسلامسٹ ہیں اس لئے ان کا طرز فکر بھی نسبتاً متوازن ہے۔ اسی لئے سیاسی مذہبیت کی نمائندہ جماعتوں کے مخالفین یعنی لبرل احباب میں پسند بھی کئے جاتے ہیں اسی لیئے اس پسندیدگی کا جواب دیتے ہوئے وہ اس طبقے کے سیاسی رجحانات کے تحت آراء کے اظہار یعنی پاپولر پرسیپشن (مقبول تاثر) کا ساتھ دینے میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے ماضی کے برعکس رائے کے اظہار سے بھی نہیں چوکتے بلکہ کبھی کبھی تو حقیقت کے برخلاف وہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ماضی میں بھی وہ یہی کہتے رہے ہیں جس کی ایک مثال جنرل ضیا الحق کے حوالے سے ان کی رائے ہے جیسے ایک ٹی وی پروگرام میں انہوں نے یہ دعویٰ کیا. . .
میں نے اس زمانے (روس افغان جہاد ) میں بھی اس طرف بڑی شدت سے توجہ دلائی تھی کہ ہم اپنے وجود میں بارود بھر رہے ہیں اور اپنی قبر کھود رہے ہیں . . . میرے نزدیک اصل جرم امریکا نے کیا کہ مذہبی بنیادوں پر لوگوں کو منظم کیا اور اس وقت کی اسٹبلشمنٹ نے کیا…. میں ہمیشہ یہی کہتا رہا ہوں۔ (سما ٹیلی ویژن ۔غامدی کے ساتھ ۔ 28 فروری 2014 اور اشراق…. ستمبر 1988
جبکہ جنرل ضیا الحق کی موت پر ان کا ردعمل کچھ یوں تھا
”یہ قوم ان (جنرل ضیا) کی ہر بات فراموش کر سکتی ہے لیکن جہاد افغانستان کے معاملے میں جس طرح وہ اپنے موقف پر جمے رہے اور فرزندان لینن کے مقابلے میں حق کا علم بلند کیے رکھا، اسے اب زمانے کی گردشیں صبح نشور تک ہمارے حافظے سے محو نہیں کر سکیں گی۔ (اشراق ستمبر 1988
لیکن ہمارا انتخابی معیار شاید حمید گل اور شجاع خان زادہ کی طرح اس معاملے میں بھی اس رائے کو فراموش کرنے کو تیار ہے جو کہ شاید درست بھی ہوتا اگر آج وہ اس حوالے سے اپنی رائے کے بارے میں معذرت خواہانہ انداز یا صریح جھوٹ کے بجائے دیانت دارانہ انداز میں اپنی غلطی کا اعتراف کرتے، جو ایک علمی شخصیت کے شایان شان بھی ہے
اسی طرح جب پچھلے سال جب غامدی صاحب نے طالبان کی خون ریزی اور گلے کاٹنے کو قبائلی علاقے کے پختونوں کے کلچر کا حصہ ٹھہرایا اور اس پر پشتون دوستوں نے احتجاج کیا تو بھی غلطی کا اعتراف کرنے کی بجائے حیلے اور عذر تراشنے کے رویئے کا مظاہرہ کیا گیا۔
پھر مسئلہ یہ ہے کہ یہاں اس امر پر بات کی جائے تو ان حضرات کے بہت سے وکیل سامنے آجاتے ہیں جو اصل بات کے بجائے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ اینٹی ملا ہیں آپ ان کی مخالفت کیوں کرتے ہو تو بھائی آپ کے توازن فکر کے لئے یہ دلیل بہرحال کافی نہیں ہے کہ دراصل کٹ حجتی اور اپنی بات پر بے جا اصرار بھی تو وہی رویے ہیں جن پر ملاوں کو متہم کیا جاتا ہے، پھر امتیاز کا دعویٰ کیسا؟
http://dunyapakistan.com/31425/ali-arqam/#.Vk6oHd_hDBJ