ایڈوکیٹ یعقوب سندھو کی یاد میں ” اس نے کونسا جیت جانا ہے ” – عمار کاظمی
چونیاں شہر میں یعقوب سندھو ایڈوکیٹ نامی ایک گمنام شریف آدمی ہوا کرتا تھا جو ہر الیکشن میں یہ کہہ کر حصہ لیا کرتا تھا کہ مجھے کوئی ووٹ دے یا نہ دے یہ بعد کی بعد ہے مگر مین اپنے رب کے سامنے سرخرو ہونے کے لیے انتخاب میں حصہ لیتا ہوں کہ کل اگر میری موت کے بعد مجھ سے حساب کے وقت پوچھا جائے تو میں کہہ سکوں یا اللہ میں نے تو اپنی کوشش کی مگر تیری اُمت نے ہی چوروں اور رسہ گیروں کو ووٹ دینا پسند کیا۔ ان کے مقابلے میں جو دو اُمیدوار ہوا کرتے تھے وہ کورے ان پڑھ انگوٹھا چھاپ اور رسہ گیر ہونے کے باوجود فیورٹ ہوتے تھے اور انہی میں سے کوئی ایک ایم پی اے منتخب ہوا کرتا تھا۔
ان جیتنے والے دونوں امیدواروں میں سے ایک کا تعلق مسلم لیگ نواز تھا اور دوسرے کو بعد میں پیپلز پارٹی نے اپنا لیا تھا۔ جب الیکشن مہم زوروں پر ہوتی اور دونوں مقبول امیدواروں کے کامیاب جلسکے دوران شہر کے بعض کھلنڈرے نوجوان یعقوب سندھو صاحب کو بیچ بازار کرسی یا سٹول پر کھڑے ہو کر خطاب کرنے کو کہتے۔ اور جب وہ اس پر کھڑے ہوتے تو نیچے سے کرسی کو دھکا مار کر کرسی یا سٹول نکال دیا جاتا اور وہ خطاب کیے بغیر ہی نیچے گر جاتے۔
اس پر خوب تالیاں بجائی جاتیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سندھو صاحب کے بیلٹ باکس سے محض وہی ووٹ نکلتے جن پر ان پڑھ بزرگ نظر کی کمزوری یا کم علمی کے باعث مہر لگا جاتے تھے۔ مختلف انتخابات میں ان کے حاصل کردہ ووٹوں کی درست تعداد کا اندازہ نہیں مگر میرے خیال میں ان کے ووٹوں کی تعداد کبھی بھی پچاس سے اوپر نہیں گئی ہوگی۔ وہ جتنے بھی الیکشن لڑے ان کی ضمانت ضبط ہوئی۔ میرا دوست رانا اقبال مراکہ ان سے مزاق بھی کرتا اور کبھی کبھی ان کی دلجوئی بھی کرتا۔ وہ انھیں کہتا کہ آپ اچھے بھلے بندے ہیں کیوں اپنا مزاق بنواتے ہیں؟
تو سندھو صاحب وہی جواب دیتے کہ میں نے اللہ کو جواب دینا ہے اس لیے الیکشن میں حصہ لیتا ہوں۔ ہم سارے دوست آپس مین بیٹھ اکثر اس بات پر بحث کرتے اور ایک دوجے سے سوال پوچھتے کہ جب سب جانتے ہیں کہ یعقوب سندھو صاحب ہر لحاظ سے ان دو ان پڑھ رسہ گیروں سے بہتر اُمیدوار ہیں تو پھر لوگ انھیں ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ تو ہر کسی کا جواب یہی ہوتا کہ اس نے کونسا ہمارے ووٹوں سے جیت جانا ہے۔ میری فیملی ان دنوں پیپلز پارٹی سے گہری نظریاتی وابستگی رکھتی تھی تو محض پیپلز پارٹی ہی کی سپورٹ سوجھتی تھی۔ مگر آج سوچتا ہوں کہ ہم اپنی جھوٹی سچی نظریاتی وابستگیوں کے نقاب پہنے بہت بڑے منافق ہیں۔ ان کی سپورٹ نہ کرنے کا کلنک آج بھی ذہن کے کسی کونے میں موجود ہے کہ کیسے ہم ایک صاف ستھرے پڑھے لکھے آدمی کی جگہ لچے لفنگوں کی سپورٹ محض اس بنیاد پر کرتے رہے کہ وہ ہماری پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر تھے۔
گو ایاز صادق اور علیم خان چونیاں کے دو سابقہ ممبران صوبائی اسمبلی جیسے ان پڑھ تو نہیں ہیں مگر جس انداز میں انھوں نے اس ضمنی انتخاب پر پیسہ خرچ کیا اس سے تو یہی لگا کہ یا تو ان کا پیسہ رزق حلال نہ تھا یا پھر وہ کوئی بہت بڑا کاروباری سودا، کوئی فیکٹری یا مل خرید رہے تھے۔ ایک دوست کے مطابق دونوں نے ضمنی انتخاب پر کم و بیش ایک ایک ارب روپیہ لُٹایا۔ عقل والوں کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ ہوگا کہ اگر دو ارب روپے کے فلاحی کاموں سے کتنے لوگوں کی زندگی بدل سکتی ہے۔
کتنے سکول کالجز کو بہترین معیار کے مطابق تا حیات چلایا جا سکتا ہے۔ چھوٹے شہروں میں کتنی ڈسپنسریز چلائی جا سکتی ہیں۔ مگر خان صاحب تو اپنے ایک انٹرویو میں نادیہ خان کو یہ کہتے نظر آئے کہ الیکشن لڑنے کا حق تو صرف امرا کو ہونا چاہیے، جو پہلے سے بھوکا ہوگا تو وہ تو آ کر سب سے پہلے اپنا ہی پیٹ بھرے گا۔ پتا نہیں غربا کو سیاست میں “دلت” کے طور پر پیش کرنے کے اس فلسفے کی روشنی میں متوسط طبقے کی اُس یوتھ کا کیا ہوگا جسے خان صاحب نے دھرنوں کے دوران یہ سپنے بھی دکھائے کہ تم بھی بلاول اور حمزہ شہباز بن سکتے ہو۔ بہر حال اب تو دھرنوں کی تقریریں بھی کافی پرانی ہو چکیں۔
ریاستی بیانیے میں ولن کو ہیرو بنا کر پیش کرنے کی مستند و مستقل روایت نے قوم کی اکثریت کو بھی مستقل ولن بنا رکھا ہے۔ ایڈوکیٹ یعقوب سندھو صاحب کافی عرصہ پہلے اللہ کو پیارے ہوچکے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان تبدیلی کی روش میں بہت آگے بڑھ چکا۔ مگر ولن نما ہیروز ہمیشہ کی طرح مضبوط ہیں۔ ایڈوکیٹ سندھو کی جگہ کس نے لی یہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ بڑی تبدیلی یقینا یہی ہے کہ آج کا یعقوب سندھو کم از کم پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہا ہے۔ تاہم اُمہ کے لیے آج بھی صاف شفاف شہرت کا حامل متوسط طبقے کا اُمیدوار ترجیح نہیں۔ شاید اسے ووٹ نہ دینے کا بہانہ بھی وہی ہوگا کہ