دہشت گردی اور عدلیہ کے نیم دلانا فیصلے –

 

11993296_1462809377361833_32455696675293461_n

جنوری ۲۰۱۲؁ کو خان پور، ضلع رحیم خان میں چہلم کے جلوس میں بم دھماکہ ہوا، جس میں ۱۸ شیعہ مسلمان شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔ تحقیقاتی اداروں نے اس واقعے کے بعد ۶ مشتبہ افراد کو حراست میں لیا جو کہ تحصیل علی پور میں مئی ۲۰۱۲؁ میں ایک اور دھماکہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ ان تکفیری دہشتگردوں کو اے ٹی سی بہاولپور نے سزا سنا دی لیکن ہایکورٹ نے سزا یہ کہہ کر ختم کر دی کہ تحقیقات میں دھماکے کی کیمیکل رپورٹ کے نتائج شامل نہیں ہیں۔
واضح رہے پولیس نے مذکورہ کیمیکل رپورٹ تین بار عدالت میں جمع کروائی تھی۔ بعد ازاں اس کیس کو فوجی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں کچھ مہینوں کے ٹرائل کے بعد یہ کہہ کر فیصلہ دینے سے انکار کر دیا گیا کہ جُرم کے وقت ملزمان میں سے ایک ملزم کمسن یعنی ۱۷ سال کا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فوجی عدالتیں بھی اس قسم کے خطرناک دہشتگردوں کے خلاف ایسے نیم دلانہ فیصلے کریں گی تو اُن میں اور عام عدالتوں میں کیا فرق رہ جائے گا؟
کمسن ہونا کسی کو ملزم کو یہ چھوٹ نہیں دے سکتا کہ وہ اس قسم کے سنگین جرم کا ارتکاب کرے اور پھر عدالتی کروائی اور سزا سے بھی بچ جائے۔ اس بات کا اطلاق تو اُس وقت ہوتا ہے جب ملزم کا ٹرائل کیا جائے اور بوقت سزا اس بات پر غور کیا جائے کہ آیا قانون ملزم کو کم عمری کی بنیاد پر اُس کی سزا سے متعلق کیا ہدایات دیتا ہے۔ لیکن قانون یہ نہیں کہتا کہ کم alamعمری کی بنیاد پر ملزم کا ٹرائل ہی نہ کیا جائے۔ حیران کُن بات یہ ہے کہ باقی پانچ ملزمان کو بھی ٹرائل نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کی کوئی وجہ بتائی گئی۔

 

Comments

comments