صلح کلیت ، تکثریت ، ابتدائی نقشبندی روایت اور شیخ ابن عربی – عامر حسینی

sufi saint

شیخ ابن عربی کے ابتدائی نقشبندی روائت پر اثرات میں نے شیخ احمد سرہندی کے بارے میں جب اپنے ایک مضمون میں تفصیل سے شیخ احمد سرہندی کے بارے میں جڑی کئی ایک کہانیوں کا جائزہ لینے کی سعی کی تھی تو مرے زھن میں اس دوران یہ جان کر کہ شیخ احمد سرہندی کے والد شیخ واحد سلسلہ چشتیہ صابریہ سے منسلک اور وہ فصوص الحکم و فتوحات المکیہ کو اپنے دروس میں شامل رکھتے تھے

اور شیخ احمد سرہندی کے حضرت خواجہ باقی باللہ نقشبندی کو لکھے گئے ایک خط میں اس بات کے تذکرے کو موجود دیکھ کر کہ شیخ نے کہا کہ ان سے ارادت سے قبل وہ ایک زمانے میں ” حالت کفر و ایمان ” کے بین بین رہے تھے ( یعنی وحدت الوجود و وحدت الشہود کے درمیان اور کفر سے مراد صرف دونوں کی اثبات و نفی کے درمیان رہنا ہے اس سے مراد شرعی کفر نہیں ہے کیونکہ شیخ احم سرہندی نے شیخ ابن عربی سے اپنے اختلاف کے باوجود ان کو تصوف کا عظیم شارح اور انسان کامل تسلیم کیا ہے )تو یہ سب دیکھکر مجھے یہ خیال آیا کہ شاید شیخ احمد سرہندی کا اپنے والد کے سلسلہ چشتیہ صابریہ سے نقشبندیہ کی جانب رخ ان کو شیخ ابن عربی سے دور لیجانے کا سبب بنا

لیکن بعد کی تحقیق نے یہ ثابت کیا اور ایسے شواہد پیش کئے کہ یہ سبب بنیادی سبب نہیں تھا اور نقشبندی سلسلہ کی جو شیخ احمد سرہندی سے قبل کی اور اس طریقے کی جو ابتدائی روایت ہے اس پر شیخ ابن عربی کی فکر ، تصورات اور نظریات کی چھاپ دوسرے طرق کی طرح بدرجہ اتم نظر آتی ہے میں یہ تحقیق اس لئے بھی کررہا ہوں کہ شیخ احمد سرہندی کے بارے میں ” کالونیل اور پوسٹ کالونیل ادوار ” میں تحقیقات کا جو در وا ہوا وہ زیادہ تر ایک طرف تو نقشبندی سلسلے کو صرف شیخ احمد سرہندی کی شیخ ابن عربی پر کی جانے والی تنقید کی روشنی میں نتآئج مرتب کرنے کی روش پر مبنی تھیں

اور اس کے ساتھ ساتھ کالونیل دور میں بتدریج جو ” کمیونل ایشو ” ابھر کر سامنے آیا اور اس سے جو “دو قومی نظریہ ” سامنے آیا اس کی بنیادیں بھی شیخ احمد سرہندی سے ہوتے ہوئے خود نقشبندی سلسلے میں تلاش کرنے کی کوشش ہوئی اور پھر یہ بھی ہوا کہ ” صلح کل ” اور ” تکثریت پسندی ” کی روائیت کو ایک جانب تو مسلمانوں کی جمہور روایت سے الگ کرکے اور اسے ” اقلیتی رجحان ” کے طور پر دکھانے کی کوشش ہوئی اور یہ بھی دکھانے کی کوشش ہوئی کہ ” تکثیریت پسند ، صلح کل ” تصوف کی روايت مسلم تاریخ میں اسلامی جمہوری روایت سے منحرف روایت ہے –

اس کا ایک اور فرقہ وارانہ پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ جب پوسٹ کالونیل دور میں ” سعودی وہابی ازم ” کا نفوز اور اثر زیادہ ہوا تو یہ بھی کہا گیا کہ ” سنّی اسلام یا سنّی تصوف ” کا اصل جوہر تو بس شیخ احمد سرہندی کے ہاں ہی ہے اور یہ بھی ہوا کہ شیخ احمد سرہندی کی شیخ ابن عربی پر تنقید کو زبردستی مسخ کرکے شیخ ابن تیمیہ کی تنقید اور اس کے طریقہ کار سے جوڑ دیا گیا اور اس طرح سے خود اسلام کے اندر جو سنّی روایت تھی اور اس سنّی اسلام کے اندر جو صوفی روایت تھی اس کے مین سٹریم رجحان جو کہ ” صلح کلیت ” پر مبنی تھا اسے اقلیتی ، منحرف رجحان کے طور پر پیش کیا گیا

پاکستان کے اندر جماعت اسلامی ، دیوبندی سکالرز ، سلفی اہلحدیث سکالرز نے تاریخ کے سرکاری بیانیوں پر غلبہ حاصل کیا اور ان کے بیانیوں نے ایک طرف تو خود شیخ احمد سرہندی کی شیخصیت اور ان کے افکار کو مسخ کیا اور دوسری طرف خود سلسلہ نقشبندیہ کے جوہر اور مغز کو بھی انہوں نے مسخ کیا پھر اسی سے تنگ فرقہ پرستی کا ظہور ہوا اور نظریاتی طور پر اسی روش نے ہمارے ہاں بالواسطہ طور پر مخصوص مذھبی گروپوں کی نسل کشی ، ان کے شعائر مذھبی پر خودکش حملوں تک معاملات کو پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا میں نے اس معاملے کا فکری پہلو اس آرٹیکل میں بھی مد نظر رکھا ہے

لیکن اس سے مرا مقصد ان مخصوص سماجی مادی تاریخی حالات و واقعات اور شواہد کی نفی یا ان کا نظریات کی تشکیل اور گروہ بندی میں بنیادی کردار ادا کرنے سے نفی نہیں ہے جو بعض اوقات ” فرقہ پرستانہ ” اور تکفیریت و خارجیت و صلح کل مخالف نظریات ” کے غلبے کا سبب بنتے ہیں اور کسی شخصیت کے جملہ افکار میں سے کسی خاص پہلو کو اس شخصیت کی شناخت اور اس سے تشکیل پانے والے مکتبہ فکر کا امتیازی نشان بتلانے اور لکھنے پر اصرار کرتے ہیں – شیخ احمد سرہندی اور ان کی مجددیہ شاخ کے ساتھ یہ جو ” کمیونلسٹ رجحان ” کو بنیادی رجحان بتلانے پر ان کے حامی اور محالف اصرار کرتے ہیں

اس کی جڑیں بھی مخصوص سیاسی – سماجی اور مخصوص سماجی – معاشی حلات میں پیوست ہیں اور ہم ان سے صرف نظر نہیں کرسکتے – علم وتحقیق کا میدان اپنے عصر کی سماجیات و مادیات سے ماوراء ہونہیں سکتا لیکن کم از کم وسعت نظری سے اس عصری سماجیات و مادیات کے اثرات سے مرتب ہونے والی تنگ نظری سے اپنا دامن ضرور بچا سکتا ہے نقشبندی سلسلسے کے بارے میں یہ خیال کہ یہ شاید بنیادی طور پر تصوف کی صلح کلیت کا مخالف سلسلہ طریقت ہے برصغیر پاک و ہند کے اندر ” تکثیریت مخالف طاقتوں ” کا پھیلایا ہوا فکری مغالطہ ہے اور ایک اور بڑا فکری مغالطہ سلسلہ نقشبندیہ کے مجددی سلسلہ کے بانی شیخ احمد سرہندی کے ” طریقہ انتقاد بر شیخ ابن عربی ” کو شیخ ابن تیمیہ کے ” طریق انتقاد بر شیخ ابن عربی ” سے مماثلت دیکر ایک طرح سے شیخ ابن تیمیہ کی روایت جو آگے چلکر ” وہابیت ” سے ملتی ہے کے ساتھ مماثلت پیدا کرنا اور اس کا جوڑ زبردستی محمد بن عبدالوہاب النجدی کے ساتھ جوڑنا ہے

حال ہی میں مرے دوست خالد نورانی جوکہ ثقہ سنّی سکالر ہیں نے دیوبندی عالم عبدالحفیظ مکّی چئیرمین انٹرنیشنل ختم نبوت مقیم مکۃ المکرمہ مقرب آل سعود کی کتاب ” حرکۃ السلفیۃ ” نامی ایک کتاب جس میں مولوی ادریس کاندھلوی کے اس شاگرد نے محمد بن عبدالوہاب اور صوفیاء کے درمیان اشتراک فکری دکھانے کے لئے شیخ مجدد اور محمد بن عبدالوہاب میں اشتراک دکھانے کی کوشش میں بہت سرپٹکا ہے پر ایک تفصیلی مضمون لکھا تو میں نے یہ کتاب پڑھی اور مجھے بیک وقت ہنسی بھی آئی اور غصّہ بھی کہ فقیہ واقعی لغت جحازی کا قارون ہے

اور جو چاہتا ہے کسی عبارت کا مطلب نکال لیتا ہے ہمارے لبرل ساتھی بھی جماعت اسلامی ، دیوبندی اور وہابی اہلحدیث سکالرز اور تاریخ دانوں کی ” لن ترانیوں ” پر مبنی کلیشوں کو سچ مان لیتے ہیں اور ان کے ہآں ہر اس آدمی سے نفرت اور بغض دیکھنے کو ملتا ہے جسے مذکورہ بالا گروہ اپنا محبوب اور فکری شارح قرار دینے لگتے ہيں اس طرح کی جوابی نفرت ہمیں ” لبرل ” تاریخ دانوں کے ہآں بعض اوقات نظر آتی ہے – جیسے نقشبندی سلسلے کے بارے میں اکثر وبیشتر لبرل سکالر منفی رائے رکھتے ہیں اور یہ لبرل اس سے آگے بڑھ کر بعض اوقات ” سنّی اسلام ” کی جمہور کی روایت کا معنی ” سلفی یا آج کی دیوبند کے اندر پائی جانے والی طاقتور تکفیری روایت ” لینے لگتے ہیں ،

ہمیں ان کلیشوں کو چیلنج کرنے کی ضرورت ہے اور بیانات سے آگے تحقیق اور تفتیش کے میدان میں جاکر وسعت کی ضرورت ہے میں جانتا ہوں کہ اس وقت جو ھیجانی کیفیت ہے اور ” نعرے بازی ” کا جو سماں ہے نیز فرقہ پرستی کا جو زھر رگ و پے میں سرایت ہے اس کے ہوتے ہوئے علم و تحقیق کے چراغ کی روشنی اکثر لوگوں تک پہنچانا بہت مشکل کام ہے لیکن کچھ لوگوں کو یہ مشکل اور سخت کام کرنا ہی ہے میں نے اپنے مضمون کی تشکیل کے لئے سب سے پہلے یہ سوچا کہ میں کسی ایسے نقشبندی سکالر سے رجوع کروں جو نقشبندی سلسلے کے آغاز اور اس کے موسسین سے اچھی طرح واقف ہو ، مجھے مولانا راغب علی وارثی نے رجب علی نقشبندی تک رسائی دی جو کہ استنبول میں یونیورسٹی میں ” شیخ بہاءالدین نقشبند ” موسس اعلی طریقہ نقشبندیہ پر ماہر خیال کئے جاتے ہیں

اور ان سے میں نے سوال کیا کہ کیا نقشبندی سلسلہ اپنے جوہر کے اعتبار سے آغاز کار سے ” صلح کل ” مخالف ہے ؟ کیا یہ سلسلہ اتبداء سے ہی ” تکثریت اور شناختوں کے تنوع ” کا محالف رہا ہے ؟کیا اس سلسلہ کی علمآئے اہلسنت کے اندر مقبولیت کا سبب ” صلح کل مخالفت ” ہے ؟ رجب علی نقشبندی نے اس کا جواب دیتے ہوئے جو کچھ کہا میں اسے من و عن درج کررہا ہوں ” اگثر خیال کرلیا جاتا ہے کہ نقشبندی طریقت پر شیخ ابن عربی کے ںظریات اثر انداز نہيں ہوئے اور اس طریقہ میں شیخ ابن عربی کے خیالات کا نفوز نہیں ہوسکا –

اس کی ایک وجہ تو ابتدائی نقشبندی متون سے اکثر لوگوں کی لاعلمی ہے اور دوسری اس کی وجہ نقشبندی سلسلہ کے ” جوہر ” اور شیخ ابن عربی کی فکر کے ” جوہر ” دونوں سے ہی ناواقفیت ہے اور اسی سے آگے چل کر نقشبندی سلسلے کے ” صلح کل مخالف ” اور تکثریت مخالف ” ہونے کا اشتباہ پیدا ہوتا ہے جو اب کلیشے کی صورت اختیار کرگیا ہے ” آپ نے مجھ سے ایک اور سوال نہیں کیا جو اسی سوال سے جڑا ہے

اور ایک بہت اہم پہلو کی جانب اشارہ کرتا ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ دیگر طرق ہائے صوفیاء کو کبھی بھی ” سیاسی نفاذ شریعت ” کی تحریک کے طور پر نہیں دیکھا گیا اور عوموی طور پر طرق ہائے صوفیآء نے اپنے آپ کو ” دربار ” سے دور رکھا اور انھوں نے ” قضاۃ ” سے بھی اپنے آپ کو دور رکھا لیکن ” نقشبندیہ ” سلسلے کے بارے میں ایک تاثر عام ہے کہ ایک تو یہ ” باطنیت و روحانیت و سریت” سے زیادہ شرعی سیاسی تحریک ہے اور اسے تھیوسوفیکل خیالات اور مواد سے خالی ایک نام کی سرّی تحریک بھی بتایا جاتا رہا ہے اور یہ زیادہ تر روش پوسٹ کالونیل دور میں طاقتور ہوئی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے

اور عام طور پر اکثر وہابی اور کئی ایک دیوبندی سکالرز اور اخوانیوں کے ہآں شیخ ابن عربی کے خیالات کو اسلامی روایت تصوف سے بالکل اجنبی سمجھنے اور اسے ارتدادی خیالات خیال کئے جانے کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور اسی بنیاد پر ایک گروہ تصوف اور شریعت کو دو باہم مخالف قطب خیال کرتا ہے سب سے پہلے تو میں یہ بتانا چاہوں گا کہ یہ حقیقت ہے کہ شیخ ابن عربی کے نظریات اور خیالات پر نقشبندی صوفیاء میں سے جس صوفی کی سب سے پہلے تنقید ہمیں تاریخ میں ملتی ہے وہ شیخ احمد سرہندی متوفی 1624 ء / 1034ھ ہیں اور یہ تنقید شیخ ابن عربی کے نظام فکر کے سارے ڈھانچے کی بجائے چند ایک جزو پر ہے اور شیخ مجدد نے یہ تنقید بالکل دشمنانہ انداز میں نہیں کی بلکہ ايک خاص ادب کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے

اور ان کا طریق انتقاد شیخ ابن تیمیہ متوفی 1328ء / 728ھ کے شیخ ابن عربی پر انتقاد کے طریقے سے بالکل الگ ہے کیونکہ شیخ ابن تیمیہ کا شیخ ابن عربی پر طریق انتقاد ” دشمنی ” اور کٹّر مخالفت والا ہے اور جس میں شيخ ابن عربی کے لئے کہیں بھی احترام نظر نہیں آتا جبکہ شیخ احمد سرہندی کا انتقاد دوستانہ ہے اور وہ شیخ ابن عربی کو تصوف کے عظیم استادوں مين سے ایک خیال کرتے ہيں – ایک اور نکتہ جس کی جانب بہت کم لوگوں نے توجہ کی یہ ہے کہ شیخ احمد سرہندی کی تنقیدات دریں بارے شیخ ابن عربی کی جانب ان کے بعد آنے والے نقشبندی زعماء یا تو ماڈریٹ شرح کے ساتھ قبول کیا یا پھر انہوں نے ان کے اختلاف کو ” لفظی یا اصطلاحات ” کے اختلاف سے تعبیر کیا

شیخ احمد سرہندی کے شیخ ابن عربی سے اختلاف کی نوعیت کچھ بھی ہو لیکن ان کی تنقید و انتقادیات کی جڑیں سلسلہ نقشبندیہ کی ابتدائی روایت میں تلاشنا اور اس سلسلے کے شیخ احمد سرہندی سے پہلے کے بزرگوں سے اس تنقید کی سند ڈھونڈنا تاریخ میں ایک ناممکن چیز کو تلاش کرنا ہے بلکہ شیخ اکبّر کی طرف سلسلہ نقشبندیہ کے شغف اور رجحان و اثرات کی تلاش اس سلسلے کے بزرگ اور موسسین میں تلاش کیا جاسکتا ہے نقشبندی سلسلہ اصل میں خراسانی روایات تصوف کی کرسٹلائزیشن کا دوسرا نام ہے اور اس میں خراسان کے اندر ” ملامتیہ رجحان ” نے اہم ترین کردار ادا کیا

لیکن شیخ اکبّر کی تعلیمات اور نقشبندیہ سلسلے کی ابتدائی تعلیمات کے درمیان براہ راست لنک کوئی نہين ہے لیکن ” صلح کلیت ” تکثیریت کا احترام ” اس سلسلے کے آغاز کار سے ہی اس کے بانیوں کے ہاں نظر آتا ہے – ملامتی احساس جو شیخ ابن عربی کی فکر ميں ایک خاص مقام رکھتا ہے ہمیں نقشبندی سلسلے کے اولین چراغ اور بانی مشعال خواجہ ابو یعقوب ہمدانی متوفی 1140ء /535ھ کے ہاں بھی نظر آتا ہے اور شیخ ابن عربی کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ان کے افکار اور شخصیت سے ہمدانی واقف تھے اور عضدالدین کرمانی نے ایک واقعہ ہمدانی کے حوالے سے زکر کیا

اور ہمدانی کے قونیہ میں 1502ء سے 1506ء تک قیام کا زکر کیا ہے اور معروف مورخ اور نقشبندی سلسلے سے وابستہ مرتضی الزبیدی متوفی 1791ء نے ہمدانی کے سلسلہ خرقہ اخباریہ کی نسبت شیخ ابن عربی سے کی ہے نقشبندی سلسلہ چودھویں صدی عیسوی یا آٹھویں صدی ہجری میں خراسان میں ظہور پذیر ہوا اور یہی وہ دور ہے جب خراسان میں شیخ ابن عربی اور ان کے کام سے شناسائی پیدا ہوئی اور یہ بات بھی اہم ہے کہ فصوص الحکم کی ابتدائی دو شروحات لکھنے والوں ميں محی الدین جندی متوفی 1291ء اور سعد الدین فرغانی متوفی 1300 ء کے نام اہم ہیں

اور یہ دونوں سنٹرل ایشیاء یا اس وقت کے خراسان سے تعلق رکھتے تھے اور اس زمانے ميں خراسان کے اندر معروف اشعری سنّی عالم سعد الدین تفتازانی کا طوطی بھی بول رہا تھا – سعد الدین تفتازانی متوفی 1389ء / 791ھ شیخ ابن عربی کے مخالف تھے اور انھوں نے اپنے شاگردوں کو متنبہ کیا کہ خراسان اور اس کے اہم ترین مرکز میں شیخ ابن عربی کے افکار کا پھیلنا انتہائی خطرناک ہے اور اس لئے شیخ ابن عربی کی کتاب ” فصوص الحکم ” کا رد لکھا جانا بہت ضروری ہے محمد علاء الدین بخاری متوفی 1437ء جوکہ سعد الدین تفتازانی کے شاگرد رشید تھے نے ایک کتاب ترتیب دی جس میں انہوں نے نہ صرف شیخ ابن عربی کے خیالات کی تردید کی

بلکہ کئی اور بڑے نامور صوفیآء کرام کی تردید کی خوابہ بہاءالدین نقشبند متوفی 1389ء کے حالات زندگی بہت کم معلوم ہیں لیکن ایک بات جو ابتک واضح نظر آتی ہے کہ وہ براہ راست شاید شیخ ابن عربی کے خیالات سے واقف نہ تھے اور نہ ہی ان کی روحانی تربیت میں شیخ کے خیالات سریت کا کوئی بنیادی کردار نظر آتا ہے لیکن ان کے سب سے چہیتے اور بڑے خلیفہ خواجہ محمد پارسا متوفی 1419ء شیخ ابن عربی کے پرجوش ، سرگرم اور مانے تانے عقیدت مند اور ان کی تعلمیات کے شیدا تھے اور اس حوالے سے ان کے بیٹے اور خلیفہ مجاز خواجہ ابو نصر نے بیان کیا کہ مرے والد کے لئے فصوص الحکم مثل روح اور فتوحات المکیۃ مثل قلب تھیں اور ان کی رآئے تھے کہ فصوص الحکم کا مربوط مطالعہ کا نتیجہ سوائے سنت محمدیہ کی پیروی کے اور کچھ نہیں نکل سکتا نقشبندی سلسلے میں سنت کی پیروی کو سب سے بڑی کرامت کہا جاتا ہے اور خواجہ پارسا اس کرامت کے حوالے سے نقشبندیوں میں بہت ممتاز ہيں

اب ان کے بیٹے کے قول سے یہی بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ شیخ ابن عربی کی تعلیمات اور نقشبندی سلسلے کے جوہر کے درمیان خواجہ پارسا نے ایک بنیادی لنک تلاش کرلیا تھا اور اب اگر ہم شیخ ابن عربی کے تصور انسان کامل کے اندر سے پھوٹنے والی صلح کلیت اور تکثیریت کو خواجہ پارسا کے نکالے جانے والے نتیجے کو ملائیں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سنت محمدیہ بھی ” تکثریت ” کی مخالف نہیں ہے نوٹ : قرآن و سنت سے کیسے “تکثیریت ” کی تائید ہوتی ہے اس سلسلے میں رسالہ ” آج ” کے ایشو 89 میں ہاورڑ یونیورسٹی میں تاریخ کے استاد اور اسلامک اسٹڈیز پروگرام کے ڈائریکٹر رائے پی متحدہ کا مضمون کا ترجمہ ” تکثریت پسندی اور فرقہ وارانہ تقسیم کی اسلامی روایات ” کے عنوان سے شایع کیا ہے

اور اس کے ساتھ ہی دومینک سیلاخان ماہر بشریات کا ایک مضمون ” مسلمانوں کا مذھبی تنوع : جنوبی ایشیاء کی مذھبی تکثریت کے تناظر میں ” کے عنوان ” سے شایع کیا ہے – ان دو مضامین سے بھی رجب علی نقشبندی کی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ قران و سنت کی جمہور تشریحات اور اس سے ترتیب پانے والا مسلم سماج تکثریت پسند ، مذھبی تنوع پسند سماج رہا ہے خوابہ محمد پارسا سلسلہ نقشبندیہ میں علمی و لٹریری روايت کے بانی خیال کئے جاتے ہیں اور انہوں نے 12 سے زیادہ چھوٹے بڑے رسائل تحریر کئے –

ابن عربی کے ساتھ ان کی شیفتگی اور ان کے خیالات سے لگاؤ ان رسالوں میں براہ راست کی بجائے زیادہ بالواسطہ جھلکتا ہے اور انہوں نے حواجہ محمد پارسا کے ملفوظات ان سے سنکر مدوّن گئے جو ” رسالہ قدسیہ ” کے نام سے شایع ہوئے اور اس رسالے میں شیخ ابن عربی کی اصطلاحات ، ٹرمنالوجی ان کا زکر کئے بغیر شامل ہیں اور وہ کہیں کہيں شیخ ابن عربی کا زکر ان کے نام کی بجائے یہ کہہ کر کرتے ہیں ” یکے از کبری ” یعنی بزرگان تصوف میں سے ايک بزرگ صوفی نے کہا – اس رسالے میں وہ شیخ ابن عربی کی مخصوص اصطلاح ” انسان کامل ” کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں

خوابہ محمد پارسا کا سب سے طویل اور مربوط تصنیفی کام ” فصل الخطاب ” کے عنوان سے سے ہے اور اس عنوان سے ہی اس کام کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے ، اس کتاب میں بھی شیخ ابن عربی کے تصورات اور ٹرمنالوجی کا استعمال جگہ جگہ ہے لیکن نام ان کا محض ایک مرتبہ جبکہ شیخ عثمان علی ہجویری ، غزالی و رازی کا تذکرہ بہت جگہ ہے اور شیخ ابن عربی کا نام لیکر تذکرہ ایک مرتبہ وہاں آیا ہے جہاں خواجہ پارسا نے شيخ ابن عربی کی معروف کتاب ” فتوحات المکیّۃ ” کی تعارفی لائنوں کا حوالہ شیخ ابوبکر ابن اسحاق کی کتاب ” اخبار المعانی ” سے بالواسطہ طور پر دیا ہے

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو عدم سے اشیاء کو وجود میں لات اور پھر ان کو عدم کی طرف روانہ کرتا ہے اور خواجہ پارسا ان سطور کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ” عدم ” کا عدم تو وجود ہے اور جو بھی ہے وہ خدا کی مڑضی سے ہے اور خدا ان کے ہونے سے پہلے بھی ان سے واقف تھا اور اس کا علم ان چیزوں کے ہونے کا محتاج نہیں ہے اور نہ ہی خدا ان اشیاء میں حلول ہوا ہے تو اس سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ عدم سے چیزوں کو وجود ميں لانے والا ہے نقشبندیہ سلسلے کی ابتدائی کتب میں سے ایک اہم کتاب ” تحفۃ السالکین ” ہے اور یہ کتاب پہلی مرتبہ 1970ء میں دھلی میں شایع ہوئی اور اسے خواجہ پارسا کی تصنیف کہا جاتا ہے ،

اس میں کوئی عبارت ایسی نہیں ہے جو ہو بہو شیخ ابن عربی کی کسی کتاب میں موجود ہو مگر توحید اور دیگر امور پر گفتگو جو اس کتاب میں ہے اس میں کئی ایک جگہ پر شیخ ابن عربی کی ٹرمنالوجی سے کام لیا گيا گیا ہے ایک کتاب جو معروف صوفی اور فارسی نعتیہ شاعری کے بہت بڑے نام مولانا عبدالرحمان جامی کی مرتب کردہ ہے جو ” سخنان پارسا ” کے نام سے شایع ہوئی اور اس میں شیخ ابن عربی کے اکثر تصورات اور اصطلاحات کی تشریح موجود ہے – بعض لوگ کہتے ہیں مولانا جامی نے خواجہ پارسا کے فرمودات کے نوٹس تیار کیے اور پھر یہ کتابی شکل میں شایع کئے جبکہ مولانا جامی کے ایک شاگرد عبدالغفور لڑی نے کہا کہ یہ ملفوظات جامی کو خود خواجہ پارسا نے املاء کرائے تھے

اب ایک سوال جس کا جواب دینا میں ضروری خیال کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر خواجہ پارسا کو شیخ ابن عربی سے اتنی ہی عقیدت ، مجبت اور لگاؤ تھا تو خواجہ پارسا نے شیخ ابن عربی کا نام اپنی کتب میں اتنے وفور شوق سے درج کیوں نہیں کیا جتنا کہ ان کا وفور شوق ان کے بیٹے نے بتایا تھا تو میں کہتا ہوں کہ ایک تو خواجہ پارسا خراسان کے اندر جس ماحول ميں سانس لے رہے تھے اس وقت خراسان میں بالعموم اور بخارا میں بالعموم ” شیخ ابن عربی ” کے خلاف فضاء بہت معاندانہ تھی اور فرقہ پرستانہ جذبات اپنے عروج پر تھے اور بخارا میں یہ فضا شیخ سعد الدین تفتازانی کے شاگرد علاء الدین بخاری نے وغیرہ نے پیدا کررکھی تھی اور اس فضاء میں ” صلح کلیت ، تکثیریت ، سریت پسندی ” کی روایت اور تصورات کو شیخ ابن عربی کا نام لیکر فروغ دینا بہت مشکل تھا

جبکہ اس بات کو تقویت دینے والا ایک واقعہ اور ہے کہ حاکم بخارا الغ بیگ کے پاس محدثین کا ایک سخت گیر گروہ خواجہ پارسا کی شکائت لیکر پہنچا اور ان پر شریعت مخالف تصورات تصوف کے نام پر پھیلانے کا الزام عائد کیا تھا اور شیخ ابن عربی سے ان کی نسبت بھی جوڑی گئی تھی ، تو شیخ ابن عربی ان دنوں ” خراسان ” میں ايک ناپسندیدہ شخص کے طور پر سامنے آئے تھے اور ایسے میں ان کا نام لینا کئی مصائب کا سبب بن سکتا تھا لیکن ایک امکان اور بھی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ خواجہ پارسا کو زندگی کے آحری دنوں میں شیخ ابن عربی کے خیالات کی حقیقت کا کماحقہ اداراک ہوا ہو اور اس لئے انہوں نے اپنے کام میں ان کا تذکرہ نہ کیا ہو لیکن چونکہ خواجہ پارسا کی کرانیکل ہسٹری ہمارے پاس نہیں ہے تو اس کی تصدیق یا تردید مشکل ہے خواجہ پارسا سے ایک اور کتاب منسوب ہے جو ” شرح فصوص الحکم ” کے نام سے فارسی میں لکھی گئی ہے اور اس کتاب ميں اصطلاحات اور عبارت کی مشکلات کے حل کے لئے محی الدین جندی کی شرح پر انحصار کیا گیا ہے

اور فتوحات المکّیہ سے بھی مدد لی گئی ہے ، اس کتاب کے دیباچہ اور فصوص الحکم کی ایک اور شرح کا تعارف جو میر سید علی ہمدانی متوفی 1827ء نے لکھی میں مماثلت کی طرف عثمان بن یحیحی نے 1964ء میں اشارہ کیا لیکن افغان سکالر نجیب مائل حروی نے اس کتاب کو مماثلت کی وجہ سے خواجہ پارسا کی کتاب ماننے سے انکار کیا اور نجیب مائل حروی کا کہنا ہے کہ جب جامی نے نفحات الانس کتاب لکھی تو بھی خواجہ پارسا کی فصوص پر کسی کتاب کا زکر نہ کیا اور نہ ہی جامی نے ” نقد الفصوص ” مدوّن کرتے ہوئے خواجہ پارسا کا ابن عربی بارے قول زکر کیا اور نجیب مائل حروی کہتا ہے کہ خواجہ پارسا کی جانب پہلی مرتبہ یہ کتاب پاشا اسماعیل بغدادی متوفی 1928ء نے اپنی کتاب ایضاح المکنون میں خواجہ پارسا سے منسوب کی ( رجب علی نقشبندی نے نجیب مائل حروی کے اعتراضات کا جواب بہت تفصیل سے دیا ہے

اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ محض مماثلت سے خواجہ پارسا کی طرف شرح فصوص الحکم کا انتساب غلط نہیں ہوسکتا اور اسی طرح سے جامی کا ” نقد النصوص ” ميں خواجہ پارسا کی کتاب کا تذکرہ نہ کرنا یا نفحات الانس میں اس تذکرے کو نہ لانا بھی اس کا ثبوت نہيں ہے کیونکہ جامی نے اس کتاب میں ہر ایک کتاب کا تذکرہ لانا طے نہیں کیا تھا اور اسی طرح ” نقد النصوص ” میں تو جامی نے محی الدین جندی کی شرح کا تذکرہ نہیں کیا تو اس سے کیا جندی کی شرح کا انکار کردیا جائے گا – رجب کا کہنا ہے کہ ہم تب تک خواجہ پارسا کی طرف اس کتاب کے انتساب کو غلط نہیں کہہ سکتے

جب تک اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہ ملے – اس بحث سے ہم یہ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ نقشبندی سلسلے کی ابتدائی روایت کے موسسین کو ” سخت گیر ” اور کٹّر پنتھ ثابت کرنے کا شعوری یا لاشعوری رجحان بہت عرصہ بعد غالب حثیت اختیار کرگیا اور اس سلسلے میں ” تکثیرت پسندی ” اور ” صلح کلیت ” کو خارج دکھلانے کے لئے آج کے سنٹرل ایشیا ء ، قرون وسطی کے خراسان اور آج کے افغانستان میں اور برصغیر پاک و ہند میں بھی کلیشیوں کی takrytکمی نہیں ہے

 

Source:

http://voiceofaamir.blogspot.nl/2015/09/blog-post_4.html

Comments

comments