خود کشی اور خود کشوں کا رجحان اور ہمارے معاشرتی المیے – ید بیضاء
تھوڑی دیر کے لئے آپ کی دلیل مان لیتا ہوں۔۔تھوڑی دیر کے لئے تسلیم کر لیتا ہوں کہ فاطمہ اور نمروز کی خود کشی کی کسی لو اسٹوری کا شاخسانہ ہے۔۔کسی فلم، کسی ڈرامے کا نتیجہ ہے۔۔تھوڑی دیر کے لئے قبول ہے کہ یہ مخلوط تعلیم کی دین ہے۔۔جس ہمت سے میں نے آپ کا موقف سنا اسی ہمت سے اب میرا درد بھی سنیے۔آپ کا المیہ ایک ہے۔۔میرے مگر ذیادہ ہیں۔۔انسان کی سرشت ہے کہ ہر دکھ پر اس کے اپنے غم تازہ ہو جاتے ہیں۔۔انسان کی خمیر ہے کہ ہر درد پر اس کے اپنے درد سے ٹھیس کی لہریں اٹھتی ہیں۔
نمروز تو سولہ سا کا تھا۔۔کم عمر تھا۔۔نا سمجھ تھا۔۔سلیم مگر جوان تھا۔۔پختہ کار تھا۔۔چھبیس سال کا تھا۔غریب ماں باپ کا بیٹا تھا۔۔اس کا پینسٹھ سالہ بوڑھا باپ ایک ادارے میں چپڑاسی تھا۔۔سلیم چھ بہنوں کی امید تھا۔باپ پڑھا نہ سکا۔۔میٹرک کے بعدسلیم کراچی گیا۔۔ایک ہوٹل پر بیرے کی نوکری کرنے لگا۔۔پھر سلیم غائب ہو گیا۔۔ماں نے ہر دروازہ کھٹکٹایا۔۔ہر پیر ہر فقیر کے در پر گئی۔۔لیکن نہ ملنا تھا نہ ملا۔ایک سال بعد ڈاکیا آیا۔اس کے باپ کی جھولی میں ایک لفافہ ڈال گیا۔اس لفافے میں سے ایک سی ڈی نکلی۔۔اس سی ڈی میں بارہ بچوں کے ساتھ سلیم بھی تھا۔۔ایک ہی کہانی تھی سب کی۔۔وہی نمروز کے خط کی۔۔ہم ماں باپ سے معافی مانگتے ہیں مگر ہم نے اسلام کی سربلندی کی قسم کھائی ہے۔۔ہم خودکش کرنے جا رہے ہیں۔
اس کی موت کے تین ماہ بعد اس کے باپ نے فاتحہ کاکمبل بچھایا۔۔ماں روتی تو کس کو روتی۔۔بہنیں بین کرتیں تو کس پر کرتیں؟؟ نہ جسد تھا۔۔نہ کفن ، نہ جنازہ۔۔نہ قبر۔۔بس ایک ویرانی تھی۔
آپ کا دکھ بجا ہے کہ نمروز بے راہ روی کے شکار معاشرے کی نظر ہوا۔۔آپ کی بات ٹھیک ہے کہ اسلام سے دوری کا نتیجہ ہے۔۔آپ ہی کے ہمنوا مگر سلیم کے باپ کو مبارک باد دینے آئے تھے۔۔میں اور سلیم جہاں رہتے ہیںوہاں کوئی مخلوط تعلیم نہیں ہے۔۔میں اور سلیم جہاں رہتے ہیں وہاں پی ٹی وی بھی نہیں آتا۔۔پھر سلیم کا دکھ میں کیسے روﺅں؟
میرے معاشرے کا المیہ وہ نہیں ہے جو آپ کا ہے۔۔میرے معاشرے میں ماں باپ اپنے بچے کو خدا کا دین سیکھنے بھیجتے ہیں مگر آپ کے ہمنوااسے افغانستان کے جہنم میں کسی اسٹریٹیجک ڈیپتھ کی آگ میں جھونک دیتے ہیں۔۔آپ تو واویلا بھی کر لیتے ہیں۔۔خدا کے دین سے دوری کی دہائی بھی دے دیتے ہیں۔میں مگر کیا کروں؟ واویلا کروں تو خدا کا نام سامنے لایا جاتا ہے۔۔شور مچاﺅں تو دین دشمن قرار دیا جاتا ہوں۔۔آواز اٹھاﺅںتو ویگو آفرین لمبی زلفوں والے گھر پہنچ جاتے ہیں۔۔
میرے ہزاروں بچے اس آگ کی نظر ہوئے۔ کسی نے خود کش کیا۔۔کوئی لڑتے ہوئے مرا۔ کوئی گم ہوا۔۔کوئی دوستم کے ہاتھ لگا۔۔کوئی مزرا میں قید ہوا۔۔۔کسی کو پنچ شیر کے پہاڑوں میں کتوں اور جانوروں بھنبھوڑا۔
آپ نمروز اور فاطمہ کے دکھ کی ذمہ داری شاہ رخ خان اور کاجول پر ڈال دیں۔۔شان اور ریما پر ڈال دیں۔۔بیکن اور روٹس پر ڈال دیں۔۔مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
میں مگر سلیم کا سوال کس سے پوچھوں؟ مجھے نہیں لانا افغانستان اسلام۔۔افغان جانیں ان کا ملک جانے۔۔وہ نور محمد کو پسند کریں۔۔وہ نجیب کو پسند کریں وہ ظاہر شاہ کو پسند کریں۔۔مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔۔لیکن میرے بچے آپ نے کیوں پرائی جنگ میں جھونک دئیے؟ میرے بچے کیوں خود کش بن گئے؟
میری بے بسی دیکھیے۔ فاطمہ اور نمروز کی موت پر بھی آپ نے میرے سامنے خدا کھڑا کر دیا۔۔اور سلیم اور عصمت کی موت پر بھی آپ نے میرے سامنے خدا کھڑا کر دیا۔۔۔جاﺅں تو کہاں جاﺅں؟ روﺅں تو کیا روﺅں؟