مفتی منیب الرحمان ! افغان وار امریکی پروجیکٹ تھا اور ملّا عمر خود ساختہ خلیفہ
نوٹ : مفتی گلزار نعیمی جامعہ نعیمہ اسلام آباد کے پرنسپل ، جماعت حرم پاکستان کے آرگنائزر ہیں اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کے شاگرد ہیں ، ان کی حالات حاضرہ پر گہری نظر ہے اور وہ فکر اہلسنت کو مسخ ہونے سے بچانے کے لئے اور فتنہ تکفیر کے خلاف ” شمشیر برہنہ ” بنے ہوئے ہیں – انھوں نے انتہائی پرآشوب دور میں اہلسنت کے عقائد اور ںظریات کا علم بلند کیا اور دیوبند و سلفیت سے اٹھنے والے فتنہ تکفیر کے خلاف تقریر ، تحریر اور عمل سے جہاد جاری رکھا اور علمائے حق میں ان کا شمار ہوتا ہے اور وہ حق بات کہنے سے گبھراتے نہیں ہیں – انھوں نے ” جہاد افغانستان ” کے بارے میں ایسے موقعہ پر سچ بیانی سے کام لیا ہے جب کہ اس طرح کی سچ بیانی کرنے والے لوگ آج بہت کم ہیں اور برملا کہا ہے کہ
جہاد افغانستان ” جہاد نہیں امریکی ، برطانوی پروجیکٹ تھا جس کا اسلام اور جہاد سے دور کا واسطہ بھی نہیں تھا “
مفتی منیب الرحمان اور جہاد افغانستان
میں اپنے مدرسہ میں اپنے طلباء کے ہمراہ بیٹھا تھا کہ مرے ایک دوست صحافی کآ فون آیا ، کہنے لگا کہ
مفتی صاحب آپ لوگو ں نے کب سے جہاد افغانستان کی برکتیں حاصل کرنا شروع کی ہیں؟‘‘
میں نے گزارش کی کہ میں جناب کی بات نہیں سمجھ سکا۔ فرمانے لگے آ پکے مفتی منیب الرحمن صاحب نے تو ملا عمر کو ایک افسانوی کردار اور بہت بڑی حقیقت قرار دے دیا ہے۔افغانستان کی لڑائی کو جہاد، تحریک طالبان کو نیشنل اسلامسٹ موومنٹ اور ملا عمر کی حکومت کوامارات اسلامی افغانستان قرار دیا ہے ۔ میں نے اپنا لیپ ٹاپ کھولا اور روزنامہ دنیا کی ویب سائٹ پر جا کر قبلہ مفتی صاحب کا کالم بعنوان
’’ملا عمر مجاہد‘‘
پڑھنا شروع کیا۔ کالم کا پہلا جملہ تھا
’’ملا محمد عمر مجاہد ایک افسانوی کردار ہیں اور ایک ایسی حقیقت بھی جس نے اپنے عہد پر گہرے نقوش ثبت کیے
اسی پیراگراف میں مفتی صاحب نے تحریر فرمایا
انکی زندگی بلاشبہ عزیمت و استقامت سے عبارت تھی
میرے لیے یہ الفاظ بالکل نئے تھے میں نے اس انداز سے آج تک اپنے اہل سنت کے کسی چھوٹے سے چھوٹے طالب علم سے یہ مدح سرائی نہیں سنی تھی ۔اس لیے میں نے اس کالم کو پورا پڑھا ، پھر پڑھا اور پھر کئی بارپڑھا۔
مفتی منیب الرحمن اہل سنت کے ایک نامور اور صف اوّل کے راہنما ہیں ۔ ہمارے لیے بہت ہی عزت و تکریم کے لائق ہیں۔آج کل تو ماشاء اللہ
مسلکِ اہل سنت کے وہ گویا اکیلئے ہی ترجمان ہیں۔ان کے دم قدم سے تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان ترقی اور عروج کی اعلیٰ منازل طے کر رہا ہے ۔لہذا جو موقف انہوں نے اس کالم میں بیان فرمایا ہے اور جو اسلوب انہوں نے اپنایا ہے، ظاہر ہے وہی اہلسنت کا موقف سمجھا جائے گا ۔ بہرحال طالبان اور افغان وار کے بارے میں یہ بالکل نیا موقف ہے اور میری دانست کے مطابق اس سے قبل اہل سنت کے کسی راہنما نے طالبان یا ان کے کسی راہنما کو مجاہدفی سبیل اللہ نہیں سمجھا ۔ انکی زندگی کو عزیمت واستقامت کی داستان قرار نہیں دیا اور نہ ہی تحریک طالبان کو نیشنل اسلامسٹ موومنٹ سمجھا ہے اور یہ بھی اہل سنت کے کسی عالم دین سے پہلی دفعہ سننے میں آیا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کی آشیر باد سے بننے والی طالبان حکومت ،امارت اسلامی افغانستان ہے بلکہ میں گستاخی کر رہا ہوں قبلہ مفتی صاحب کا بھی مؤقف اس سے قبل یہ نہیں تھا جو آج اس کالم میں پڑھنے کو مل رہا ہے ۔ مفتی صاحب 2014ء کو ملتان تشریف لائے تو ایک صحافی نے آپ سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا جو 23 فروری2014ء کو تعمیرپاکستان (LUBP)کی ویب سائٹ پر شائع ہوا اور آج بھی اس ویب سائٹ پر موجود ہے ،وہاں دیکھا جا سکتا ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں مفتی صاحب نے فرمایا:
’’سب سے پہلے تو میں واضح کر دوں کہ پاکستان ، افغانستان ،وسط ایشیاء مڈل ایسٹ میں اس وقت جو دہشت گردی ہے اور عام مسلمان جس کا نشانہ بن رہے ہیں ،اسکی جڑیں اس نام نہاد جہاد افغانستان کے اندرپیوست ہیں جو امریکی سامراج کا ایک پروجیکٹ تھا اور اس پروجیکٹ کے لیے سعودی عرب کا کردار بہت ہی اہمیت کا حامل تھا۔
‘‘ اسی سوال کے جواب میں آگے چل کر فرمایا۔
’’امریکی سامراج تو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اس پروجیکٹ سے الگ ہوگیا لیکن بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کی مقتدر طاقتیں اس پروجیکٹ سے الگ نہ ہوئیں اور یہاں ایک نام نہاد عسکریت پسند ایمپائر وجود میں آ گئی،جن کے مراکز دیو بندی اور غیر مقلد مسالک کے مدارس اور انکی تنظیمیں تھیں اورآج بھی ہیں ‘‘ ایک اور سوال کے جواب میں مفتی صاحب نے اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے فرمایا ’’اہلسنت بریلوی کے اسلاف نے پاکستان سمیت پوری دنیامیں ہمیشہ امن پسندی ، برداشت اور رواداری کا علَم بلند کیا ہے اور اہلسنت بریلوی نے پاکستان ، افغانستان سمیت کسی بھی مسلم ملک کے اندر کبھی بھی دہشت گردی یا پرائیویٹ لشکر سازی کی حمایت نہیں کی اور نہ ہی ہم کسی پراکسی کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔‘‘
اس انٹرویو میں مفتی صاحب نے جس افغان وار کو
’’2014ء میں نام نہادجہاد افغانستان
‘‘اور امریکی سامراج کا ایک
پروجیکٹ قرار دیا تھا،اسی افغان وار کو 2015ء میں اپنے اس کالم میں جہاد فی سبیل اللہ قرار دے رہے ہیں۔ فرماتے ہیں ۔’’جو مجاہدین محض اللہ کی رضا کے لیے اور وطن کی آزادی کی خاطرباطل اور غاصب قوتوں کے خلاف جہاد کر چکے تھے ، ان کو اس صورت حال نے مایوس کر دیا، ملا محمد عمر مجاہد ان میں سے ایک تھے ۔‘‘ میرے جیسے طالب علم کے لیے یہ سمجھنا نہایت ہی مشکل ہو گیا ہے کہ افغان وار امریکی سامراج کا پروجیکٹ ہے ، پراکسی وار ہے یا جہاد فی سبیل اللہ ہے۔میری سمجھ سے یہ چیز بھی بہت بالا تر ہے کہ ایک سال کے اندر مفتی صاحب کے موقف میں یہ تبدیلی کن غیر مرئی عوامل کی وجہ سے آئی ہے کہ وہ اپنے پُرانے مؤقف سے دستبردار ہو کر افغان وار کو جہاد فی سبیل اللہ سمجھ رہے ہیں حالانکہ میرے مسلک کے دیگر اکابرین نے بھی افغان وا ر کو فساد اور امریکی اور سعودی پراجیکٹ ہی سمجھا ہے اور کبھی اسے جہاد قرار نہیں دیا۔ جماعت اہل سنت پاکستان کے ناظم اعلی جناب عزت مآب سید ریاض حسین سے تعمیر پاکستان (LUBP)کے ہی صحافی نے انٹرویو کیا جو 23مارچ2014 ء کو اس سائیٹ پر شائع ہوا ۔ایک سوال کے جواب میں شاہ جی نے فرمایا ،
’’1980ء میں دیو بندی مدارس کے طلباء اور ان کے زیراثر نو جوانوں کو سی آئی اے اور سعودی عرب کے تحت چلنے والے جہاد ی پروجیکٹ کا حصہ بنایا گیااور نائن الیون کے بعد سے دیو بندی فرقے کے لوگ اور تنظیمیں سعودی عرب ، بھارت ، افغانستان اور کئی ملکوں کے بھاڑے کے ٹٹو بنے ہوئے ہیں اور یہ امریکہ سے کوئی لڑائی نہیں لڑ رہے بلکہ افغانستان ،پاکستان ،ہندوستان ، بنگلہ دیش میں مسلمانوں اور معصوم غیر مسلم اقلیتوں کے خلاف دہشت گردی کی کاروائیاں کر رہے ہیں اور اسے یہ سامراج امریکہ سے جہاد کہتے ہیں ۔ حالانکہ دیو بندی فرقے کے راہنماپٹروریال بٹورنے کے لیے اپنے نوجوانوں کو دہشت گردبنا رہے ہیں ‘‘ اسی انٹرویو میں ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے شاہ جی فرماتے ہیں ۔’’پاکستان 1980ء میں جس نام نہاد جہاد افغانستان کا حصہ بنا تھا ۔اس کا نتیجہ پاکستانی عوام آج تک بھگت رہے ہیں اور اس سے دیو بندی ،سلفی دہشت گردی کا جو عفریت بر آمد ہوا وہ آج تک ٹھیک سے قابو میں نہیں آیا اور اب ایساہی عفریت مڈل ایسٹ میں سعودی عرب شام میں پیدا کرنے جا رہا ہے۔‘‘
سید ریاض حسین شاہ صاحب کے علاوہ اور بھی اہلسنت کے صف اول کے راہنما ہیں جو افغان وار کوقطعاًجہاد فی سبیل اللہ نہیں سمجھتے، انکی قیمتی آراء بھی پیش کی جا سکتی ہیں مگر کالم نہایت طویل ہو جائے گا ۔ مفتی صاحب کے تازہ موقف کی کوئی بھی حمایت نہیں کر سکتاکیونکہ
یہ جہاد تھااور نہ ہی اسلامی دنیا میں صالح فکر رکھنے والے زعماء نے اسے جہاد کے طور پر قبول کیا ہے ۔ یہ ایک امریکی اور سعودی بندوبست تھا جو امریکہ کودنیا میں ایک تنہا عالمی قوت کے طور پر منوانے اور جنوبی ایشیاء میں امریکہ کے قدم مضبوط کرنے کے لیے کیا گیا۔
محترم قارئین ! افغانستان کی طویل تاریخ میں ہمیں کوئی قابل ذکر جدوجہد نظر نہیں آتی جس سے ہم اندازہ لگانے کے قابل ہو سکیں کہ اس ملک میں بھی اسلامی انقلاب کے لیے علماء یا عوام الناس اٹھ کھڑے ہوئے ہوں اور ایک شعوری جدوجہد کے ذریعے اسلام کے ضابطہ حیات کے نفاذ کے لیے سرگرم عمل ہوئے ہوں۔میں نہایت اختصار کے ساتھ افغانستان کی تاریخ اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اور پھر ہم مفتی صاحب کے کالم کی طرف دوبارہ آتے ہیں۔
افغانستان ایک ایشیائی ملک ہے ۔ اس کے جنوب اور مشرق میں پاکستان ، مغرب میں ایران ، شمال مشرق میں چین اور شمال میں ترکمانستان ، ازبکستان اور تاجکستان کی ریاستیں واقع ہیں جو ا نہدام روس سے پہلے سویت یونین کا حصہ تھیں ۔یہاں کی 90% آبادی مسلمان ہے ۔ یہ ملک ایرانیوں، یونانیوں ،عربوں ، ترکوں، منگولوں ، برطانویوں ،روسیوں اور اب امریکیوں کے قبضے میں رہا ہے ۔یہ ملک اٹھارویں صدی کے وسط میں احمد شاہ ابدالی کے دور میں بطور ملک ابھرا ۔1919ء میں شاہ امان اللہ خان کی قیادت میں افغانستان انگریزوں سے آزاد ہوااوراس کے بعد افغانستان کو ایک مکمل ملک کی حیثیت حاصل ہوگئی۔
افغانستان کی تاریخ کا ایک حصہ قبل ازاسلام کا ہے ۔قبل ازاسلام کی تاریخ ہزاروں سالوں پر مشتمل ہے ۔کئی ہزار سال پہلے بھی اس خطے میں آبادی موجود تھی ، زمین پر جن انسانوں نے سب سے پہلے زراعت کی ان میں افغانیوں کا نام بھی آتا ہے ۔2000قبل مسیح میںآریاؤں نے افغانستان کوتاراج کیا ۔ آریاؤں سے اسے ایرانیوں نے چھینا پھر 329قبل مسیح میں ایرانیوں سے سکندر اعظم نے اس کے کئی حصے چھین لیے ۔اس طرح سکندر یونانی یہاں قابض ہو گیا۔642ء عیسوی تک یہ علاقہ ہنوں،منگولوں، ساسانیوں اور ایرانیوں کے قبضے میں رہا۔
642ء میں مسلمانوں نے اس علاقے کو فتح کیا ۔ مسلم فاتحین نے اسکا انتظام مقامی باشندوں کے ہاتھ میں دے دیا۔ علاقائی حکمرانوں نے اپنے آپ کو باہمی جنگ و جدل کا شکار رکھا ۔ خراسانیوں سے غزنیوں نے اقتدار چھینا ، عزنیوں سے غوریوں نے ۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا ۔ حتی کہ 1219ء میں چنگیز خانی منگولوں نے افغانستان کو خوب تباہ و برباد کیا ۔انہی منگولوں کو خدائے بزرگ و برتر نے اسلام کی دولت سے نواز دیا۔تیمور نے یہاں چودھویں ( 14 )صدی میں ایک عظیم الشان سلطنت قائم کی ۔اسی کی اولاد سے بابر نے سولہویں صدی میں پہلی دفعہ کابل کو اپنا دارلحکومت بنایا۔سولہویں صدی سے اٹھارویں صدی تک پھر افغانستان کئی حصوں میں تقسیم رہا۔1709ء میں پشتونوں نے میر ویس خان ھو تک کی قیادت میں صفویوں کے خلاف جنگ لڑی اور 1719ء سے 1729ء تک افغانستان پر قابض رہا۔ 1729ء میں ایرانی بادشاہ نادرشاہ نے پشتونوں سے اقتدار واپس لے لیا اور قندھار اور غزنی پر قبضہ کر لیا۔
احمد شاہ ابدالی کو جدید افغانستان کا بانی کہا جاتا ہے ۔نادرشاہ کے قتل کے بعد احمد شاہ کو درانی قبیلے نے اپنا سردار بنایا۔ اس کے بعد احمد شاہ درانی (ابدالی ) نے افغانستان کو ایک ملک بنانے میں بہت ہی اہم کردار ادا کیا۔ احمد شاہ ابدالی ایک عظیم سلطنت کا بادشاہ بن گیا۔ اسکی بادشاہی کی وسعت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسکی سلطنت میں موجودہ افغانستان ،ایران ، پاکستان، بھارت کے کچھ علاقے شامل تھے۔ ایران کے مشہور شہرمشہد سے لے کر کشمیر تک اسکی حکومت پھیلی ہوئی تھی۔
1772ء تک احمد شاہ ابدالی اور پھر اسکی اولاد کی حکومت رہی ،1823ء میں ابدالی کے خاندان کے ایک فرزند ایوب شاہ کو قتل کر دیا گیا۔ یوں حکومت محمد شاہ کے پاس آگئی اور پھر 1826ء میں دوست محمد خان کے قبضے میں چلی گئی ۔ دوست کے ساتھ انگریزوں نے دو جنگیں کیں۔پہلی جنگ1838 ء سے1842ء تک رہی اور اس میں انگریزوں نے دوست محمد کو گرفتار کر لیا تھا ۔ لیکن افغانیوں نے بھی کمال بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے انگریز فوج کے ایک مکمل حصے کو نیست و نابو د کر دیا ۔ یہ حصہ 16001 فوجیوں پر مشتمل تھا۔ افغانیوں نے انگریز فوج کے سولہ ہزار فوجی قتل کر دیے ان میں سے صرف ایک بچا ۔ انگریزوں کے لیے افغانیوں سے جنگ جیتنا مشکل تھی ۔ اس لیے انہوں نے دوست محمد خان کو رہا کر دیا ۔دوسری جنگ1878ء سے 1880ء تک تھی ۔ اس جنگ میں انگریزوں کی مدد سے امیر عبدالرحمن نے افغانستان کا اقتدار حاصل کر لیا اور یوں افغانستان کے تمام معاملات انگریزوں کے کنٹرول میں چلے گئے ۔ انگریزوں نے افغانستان کی سرحدات کا تعین کیا اور امیر عبدالرحمن کے بیٹے امیر حبیب اللہ کو افغانستان کابادشاہ بنا دیا ۔اب یہاں مغربی کلچر کو فروغ دینے کے لیے عملی اقدامات شروع ہو گئے ۔ مغربی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے اور مغربی اقدار کو معاشرے میں رواج دینے کے لیے وسیع پیمانے پر اقدامات کیے گئے ۔انگریزوں کے ساتھ جب حبیب اللہ کی دوستی بڑھی تو اسے اپنے ہی رشتے داروں نے 20فروری 1919ء کو قتل کر دیاکہ یہ دوستی انہیں پسند نہیں تھی ۔ وہ انگریز کے اثر و رسوخ کو افغانی اقدار کی موت سمجھ رہے تھے۔اس کے بعد اس کا بیٹا امان اللہ خان افغانستان کا نیا فرما ں روا بنا اور اقتدار سنبھالتے ہی انگریزوں کے خلاف صف آراء ہو گیا ۔ ایک مضبوط جدوجہد کی وجہ سے وہ افغانستان کو انگریزوں سے واگزار کرانے میں کامیاب ہو گیا۔ 19اگست 1919ء کو پاکستان کے شہر راولپنڈی میں امان اللہ اور انگریزوں کے درمیان معاہدہ ہوا جس کے تحت انگریزوں نے افغانستان سے اپنے اقتدار کے خاتمے کا اعلان کر دیا ۔
امان اللہ خان 1919ء سے1929ء تک بر سر اقتداررہا۔ 1929ء میں اس نے یورپ اور ترکی کا دورہ کیا۔اس دورے نے امان اللہ خان کے اقتدار کے خاتمے کی بنیاد رکھی ۔وہ افغانستان میں کمال اتا ترک کا ماڈل لانا چاہتا تھا (جیسے جنرل مشرف کی پاکستان میں خواہش تھی ) صدیوں سے با پردہ رہنے والی خواتین کو وہ بے پردہ بازاروں اور گلیوں میں دیکھنا چاہتا تھا ۔اس وجہ سے قبائل میں پھوٹ پڑ گئی ۔ جلال آباد سے شنواری قبیلے نے بغاوت کا آغاز کیا ۔امان اللہ قندھار بھاگ گیا ۔ پھر بھارت فرار ہو گیا ۔ وہاں سے اٹلی اور پھر سوئٹزرلینڈ جا پناہ لی اور 1960ء میں وہیں فوت ہوا۔ اس بغاوت کا حبیب اللہ کلاکانی المعروف بچا سقا نے بھرپورفائدہ اُٹھایا اور جنوری1929ء کو کابل پر قبضہ کر لیا اور حبیب اللہ شاہ غازی کے نام سے حکومت قائم کر لی ۔ بچا سقا کی حکومت زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی اوراکتوبر 1929 ء کو جنرل نادر نے کابل کو گھیر لیا اور بچا سقا فرار ہو گیا۔نادر خان کو انگریزوں کی مکمل حمایت حاصل تھی ۔ انگریزوں نے اسے وزیرستان سے ایک ہزار جنگجو بھی دیے۔ نادر نے بچا سقا کو قرآن کی ضمانت پر واپس بلایا۔ جب وہ واپس آچکا تو بد عہدی کرتے ہوئے اسے قتل کر دیا ۔ نادر کا اقتدار 1929ء سے 1933ء تک رہا، اسے ایک طالب علم نے کابل میں قتل کر دیا ۔ اس کے بعد اسکا بیٹا ظاہر شاہ افغانستان کا بادشاہ بن گیا اور 1973 ء تک افغانستان کا بادشاہ رہا ۔ اس نے حکومت چلانے کے لیے بہت سے وزرائے اعظم یکے بعد دیگرے تبدیل کیے۔ سردار داؤد خان اسکا بہت ہی اہم وزیر اعظم تھا۔
سردار داؤد پاکستان کا بہت سخت مخالف تھا لیکن 1963 میں اس نے استعفیٰ دے دیا ۔اپنے استعفیٰ کے ٹھیک 10 سال بعد 1973ء کو اس نے فوجی بغاوت کے ذریعے افغانستان پر قبضہ کر لیا ۔ اس بغاوت کو سویت یونین کی مکمل حمایت حاصل تھی ۔ ظاہر شاہ فرار ہو کر اٹلی چلا گیا جبکہ 27 اپریل 1978 ء کو سردار داؤد بھی ایک بغاوت کے نتیجے میں مارا گیا ۔ روس نے اپنے مکمل اثرو نفوذ کو بڑھانے اور قائم رکھنے کیلئے کیمونزم رائج کرنے کیلئے افغانستان میں عملی جدو جہد کا آغاز کیا ۔ سوویت یونین اپنے مقاصد میں کسی حد تک کامیاب بھی ہو گیا تھا کیونکہ سردار داؤد کے بعد نور محمد ترکئی سوویت یونین کی مدد سے ہی افغانستان کا صدر بنا تھا ۔ یہ سوویت یونین کی ایک بہت بڑی کامیابی تھی ۔دراصل یہ کمیو نزم کی کامیابی تھی جو امریکہ کو کسی صور ت میں قبول نہیں تھی ۔چنانچہ سی آئی اے نے افغانستان میں مختلف گروہوں اور قبیلوں کو جنرل ضیاء الحق اور جنرل اخترعبدالرحمن کے ذریعے اکٹھا کرنا شروع کیا اور انہیں مضبوط کرنے کی حکمت عملی مرتب کی کیونکہ کمیونزم کے خلاف افغان عوام کو کھڑا کرنے کیلئے اسلام سے بڑھ کر اور کوئی نعرہ موثر نہیں ہو سکتا تھا ۔اس طرح افغانستان میں کیمونسٹوں اور ان اسلامیوں کے درمیان فسادات شروع ہو گئے اور ان فسادات کو ختم کرنے کیلئے افغان حکومت نے سوویت یونین کو مداخلت کرنے کی دعوت دی اور سوویت یونین نے افغانستان میں اپنی فوجیں اتار دیں ۔ یہاں سے افغانستان میں امریکہ کی مداخلت اور طالبان کی تخلیق کا آغاز ہوا اور ایک ایسی ہولناک صورت حال نے جنم لیا جو آج تک جاری ہے۔
میرا افغانستان کی پوری تاریخ ملخصاً بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ قارئین کرام اس امر سے بخوبی واقف ہو جائیں کہ افغانستان کی تاریخ صدر اسلام سے لیکر نور محمد ترہ کئی تک ہمیں واضح طور پر بتار ہی ہے کہ اس ملک میں اسلامی انقلاب کی شعوری جدو جہد علماء نے کبھی بھی نہیں کی۔ یہ ملک ہمیشہ جنگجوؤں کے قبضے میں رہا ہے اور علماء یا طلباء نفاذاسلام کیلئے کبھی بھی میدان عمل میں نہیں نکلے ۔اسی وجہ سے امریکہ اور سعودی بندو بست کے تحت معرض وجود میں آنے والی حکومت جسے مفتی صاحب ’’امارات اسلامی افغانستان ‘‘ فرما رہے ہیں ، ہوا کا جھونکا یا نقش بر آب ثابت ہوئی ۔اس نام نہادامارات اسلامی افغانستان کی کل مدت ( 1996 ء سے 2001 ء ) پانچ سال بنتی ہے۔ جن لوگوں نے طالبان بنائے تھے انہوں نے ہی اس نام نہاد اسلامی انقلاب کی بساط لپیٹ دی ۔ کیونکہ یہ کوئی قرآن و سنت کی تعلیمات پر مبنی جہاد نہیں تھا اور نہ ہی ان جہادیوں نے شعوری طور پر اس انقلاب کی کوئی مضبوط بنیاد رکھی تھی ۔ یہ سب لوگ شدت پسند مسلکی مدرسوں کے تربیت یافتہ تھے ۔ ان میں کوئی دوربین و صاحب بصیرت رہنما نہیں تھا ۔ افغانستان میں جس طرح سوویت یونین کمیونزم لے آیا تھا بالکل اسی طرح یہاں روس کی شکست کے بعد امریکہ اسلام لے آیا تھا ۔ امریکہ نے پہلے کمیونزم کو ختم کرنے کیلئے افغانستان میں جنگ لڑئی اور پھر اپنے ہی بپاکردہ’’ اسلامی انقلاب‘‘ کے خلاف نبرد آزما ہوا کہ اسکا پور ی دنیا میںیہی وطیرہ رہا ہے کہ پہلے دشمن تخلیق کرو پھر اس کو ختم کرو ۔ تو حضرت قبلہ مفتی صاحب !اسلامی انقلاب ایسی کمزور بنیادوں پر کھڑا نہیں ہوا کرتا اور جسے آپ راہ عزیمت کا مسافر اور جسکی زندگی کو عزیمت و استقامت سے عبارت فرما رہے ہیں ۔ یہ صاحب تو 1995 ء میں طالبان کو اکٹھا کرتے ہیں جب روسی فوجیں افغانستان سے واپس جا چکی ہوتی ہیں اور امریکہ بہادر 9/11 کا منصوبہ بنانے میں مصروف تھا ۔تو یہ کوئی اسلامی امارات نہیں تھی ،یہ افغانستان پر امریکی قبضے کا مقدمہ تھا ۔ نہ جانے جناب کو اس پروجیکٹ میں کیا اسلامی لگا جو طالبان حکومت کو امارات اسلامی افغانستان فرما رہے ہیں ۔ یہ کوئی جہاد نہیں تھا یہ ایک فساد تھااورمفتی صاحب! آپ کو یاد دلاتے ہوئے مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ آپ نے 2014 ء کے انٹرویو میں اس طالبان حکومت کو ’’نام نہاد عسکریت پسند ایمپائر ‘‘ قرار دیا تھا جسے آج آپ ’’ امارات اسلامی افغانستان ‘‘ قرار دے رہے ہیں ۔وہ ٹھیک تھا یا یہ درست ہے ؟ براہ کرم اہل سنت پر شفقت فرمائیں اور پاکستانی عوام کو مغالطوں میں ڈالنے کے بجائے انہیں ایسے خوفناک مغالطوں سے نکالیں۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ اس نام نہاد جہاد کا پورا نصاب امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں تیار ہوا تھا ۔ اور اس فساد کے پیچھے امریکہ اور سعودی عرب مکمل طور پر کھڑے تھے ۔
مفتی صاحب نے فرمایا کہ ہم نے 1996 ء میں علامہ غلام محمد سیالوی ، مفتی محمد رفیق حسنی اور مولانا غلام دستگیر افغانی کی معیت میں افغانستان کا دورہ کیا لیکن مفتی صاحب نے اس ’’سفر سعادت
‘‘ کے مقاصد بیان نہیں فرمائے۔ ہم چاہیں گے کہ وہ بھی کسی کالم میں ارشاد فرما دیں تو ہمیں بھی مستفیض ہونے کا موقع ملے سکے ۔ اس سفر کا البتہ ایک مشاہدہ مفتی صاحب نے اپنے کالم میں ذکر کیا وہ ہدیہ قارئین کرتا ہوں فرماتے ہیں
’’ ہمیں کئی ایسی علامات ملیں جن سے عیاں تھا کہ افغانستان پاکستان کے مسلکی خلافیات سے متاثر نہیں مثلاً ملاعمر کے دفتر کے باہر ایک بورڈ پر، دفتر میں ایک طغر ے پر اور مسجد خرقہ مبارک کے محراب پر یا اللہ عزوجل ، یا محمدصلی اللہ علیہ وسلم لکھا ہوا تھا یہ بات میں اس لیے کر رہا ہوں کہ ہمارے ہاں کچھ لوگ مسلکی خلافیات کے
حوالے سے ان کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں
‘‘ میں اس بیان پر کیا لکھوں ؟ جب صورت حال یہ ہو جائے کہ میرے مسلک کے ایک نامور عالم دین طالبان کمانڈر کے مسلک کو ایسی کلین چٹ دے رہے ہوں تو انا للہ ۔۔۔۔ ہی پڑھا جاسکتا ہے ۔
’’منفی رائے ‘‘ کیا ہے ؟
جو میں سمجھا ہوں وہ تو یہ ہے کہ اہل سنت اور ملا عمر کے نظریات میں کوئی فرق نہیں ہے ۔۔۔ جو پاکستان کو دارالحرب کہیں، اسکی غیر مسلم اقلیت کو حربی کافر کہیں ، محب وطن افواج پاکستان کو کافروں کی فوج کہیں اور راسخ العقیدہ اہل حق کو مشرک اور بدعتی کہیں اور انکا قتل جائز سمجھیں ،انکی مسجدوں ، مزاروں اور مدارس پر خود کش دھماکے کرائیں وہ مفتی صاحب کے مطابق راہ عزیمت اور استقامت کے راہی ہیں تو میں اس پر کیا کہ سکتا ہوں ۔ یہ بات دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں خود کش دھماکے افغان وارکے طالبان برانڈ کا تحفہ ہیں۔ ان خود کش دھماکوں سے ہزاروں پاکستانی گھر اجڑ چکے ہیں۔ کتنی قد آوراور آسمان کی بلندی کو چھوتی ہوئی عظیم شخصیات ان دھماکوں کی نظر ہوئی ہیں لیکن آگ جب گھر کو لگے تو ہی اسکی حدت کا احساس ہوتا ہے ،جن کے گھر محفوظ ہیں( اور اللہ سبحانہ انہیں ہمیشہ ہمیشہ محفوظ رکھے ) انہیں کیا پتہ اس آگ کی شدت کتنی ہے ؟
مفتی صاحب کیا یہ حقیت نہیں کہ خود کش حملوں کی ابتداء افغانستان سے ہوئی تھی ؟ اس سے قبل تو یہاں کوئی خود کش حملوں کا رواج نہیں تھا ۔آپ ہی فرمائیں کہ پاکستان میں خود کش حملوں کی ابتداء بھی فساد افغانستان سے پہلے ہوئی یا بعد میں ؟ آپکو یقیناًیاد ہو گا 2004 ء میں آپ نے خود کش حملوں کی حرمت کا فتوٰی جاری فرمایا تھا ۔ اور غالباً 2 سال بعد سرفراز ملت، شہید پاکستان ڈاکٹرمحمد سرفراز نعیمی ؒ نے تمام مسالک کے علماء کو جامعہ نعیمیہ میں جمع کر کے خود کش حملوں کی حرمت کا متفقہ فتویٰ جاری کیا تھاخدا جانے آپ اس پرکیوں بہت چیں بجیں ہوئے تھے ۔ آپ کو تو اپنے 2004 ء کے فتویٰ پر قائم رہنا چاہیے تھا کیونکہ وہ ہی اہل سنت اور دیگر صائب فکر علمائے اسلام کانظریہ تھا ۔انہیں راہ عزیمت کا راہی قرار دے کر آپ نے اپنے ہی فتویٰ کی روح کے منافی نقطہ ء نظر اختیار فرمایا ہے ۔ آپ نے جامع مسجد خرقہ مبارک میں یا اللہ عزوجل ، یا محمدصلی اللہ علیہ وسلم لکھا ہوا دیکھ کر کیسے اندازہ لگا لیا کہ وہ مسلکی خلافیات پر یقین نہیں رکھتے ؟وہ مسجد تو تھی ہی اہل سنت کی ،اسکا نام کسی تاریخی واقعے کا پتہ دے رہا ہے ۔ان لوگوں کا خرقوں سے کیا واسطہ ؟ یہاں پاکستان میں یہ بندہ نا چیز آپکو بیسیوں مساجد دکھا سکتا ہے جہاں
یااللہ عزوجل ، یا محمدصلی اللہ علیہ وسلم لکھا ہو ا ہے اور ان کے مینارون پر جھنڈے ان تکفیروں کے لگے ہوئے ہیں ۔آپ مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں لال مسجدک کے بارے میں۔ کیا وہ اہل سنت کی نہ تھی ؟ یہاں بھی مولوی عبداللہ کے دور میں بھی
یا اللہ عزوجل ، یا محمدصلی اللہ علیہ وسلم لکھا ہوا تھا ۔تو کیا میں سمجھوں کہ یہاں مسلکی خلافیات پر لوگ یقین نہیں رکھتے ؟ یہ کیسا استدلال ہے جناب آپکا ؟ افغانستان سے لیکر سری لنکا تک یہاں نبی کے عاشقوں کی حکمرانی تھی، اسی لیے یہ عشاق مسجدوں پر یا اللہ یا محمد لکھتے تھے ۔اب بھی مسجدیں تو وہی ہیں مگر قبضہ ان کا ہے جنہوں نے محبت کی سرزمین کو نفرتوں کی آماجگاہ بنا دیا ہے ۔ انہوں نے اسے کہیں کہیں دکھاوے کیلئے چھوڑ دیا ہے ۔تو آپ جیسا مفکر اسے مسلکی تساویات کیوں سمجھ بیٹھا ہے؟ ہم اہل سنت راہ اعتدال کے لوگ ہیں جبکہ وہ تو انتہا پسندی اور دہشت گردی کی خوفناک وادیوں میں اتر چکے ہیں۔ اگر وہ ہمیں اپنا ہم مسلک سمجھتے تو وہ ہماری مساجد ، مزاروں اور مدارس پر حملے کیو ں کرتے ؟
مفتی صاحب نے اس کالم میں فرمایا
’’ علمائے اہلسنت بالعموم جہاد افغانستان سے لا تعلق رہے ہیں
‘‘اس کے جواب میں، میں اہلسنت کی عظیم المرتب شخصیت حضرت علامہ شاہ احمد نورانی ؒ کے انٹرویو کے کچھ اقتباسات پیش کر رہا ہوں جو انہوں نے جنوری 2002 ء کو نامور صحافی جناب سہیل وڑائچ کو دیا تھا۔ جب آپ سے سوال کیا گیا کہ آپکے مخالفین کہتے ہیں کہ جہاد افغانستان میں آپکا کوئی کردار نہیں تو جواب میں آپ نے فرمایا ’’آپ ان سے پوچھیے کہ سید احمد گیلانی ،مولانا نبی محمد ی اور صبغت اللہ مجددی ( انکا مفتی صاحب نے بھی اپنے کالم میں ذکر فرمایا ہے ۔ ) جہاد کی فرنٹ لائن پر تھے، یہ سب ہمارے مکتب فکر کے لوگ ہیں ۔ یہ افغانستان کے رہنے والے تھے اور ہم انکی مدد کر رہے تھے ۔ یہ سبھی دورد و سلام پڑھنے والے لوگ ہیں افغانستان کے جہاد میں ہمارا ان جماعتوں سے رابطہ رہتا تھا ۔جب صحافی نے آپ سے سوال کیا کہ افغان جہاد کے بارے میں آپکے کوئی تحفظات تھے ؟تو جواب دیا ۔نہیں تحفظات نہیں تھے بلکہ جان بوجھ کر ہمیں الگ رکھنے کی کوشش گئی کیونکہ آپکو معلوم ہے ضیا ء الحق صاحب سے ہماری کچھ کھٹ پٹ چل رہی تھی ۔تو جن جماعتوں کی کھٹ پٹ نہیں تھی انکو مدد ملتی تھی اور ان ہی کو کیمپوں میں جانے کی اجازت تھی اب آپ سمجھ گئے ہو نگے ۔ صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپکو کیمپوں میں جانے سے روکا گیا؟ جواب فرمایا نہیں کیمپوں میں جانے کی اجازت ہی نہیں تھی کیونکہ کیمپوں کے ٹھیکے دیے گئے تھے ۔
حضرت نورانی ؒ کے اس انٹرویو سے آپکو سمجھ آگئی ہو گی کہ اہل سنت کو اس نام نہاد جہاد سے دانستہ طور پر دور رکھا گیا کیونکہ یہ جہاد نہیں تھا ۔ ایک پرو جیکٹ تھا اور بقول ہلری کلنٹن وہابی برانڈ آف اسلام امریکہ کو سوٹ کرتا تھا ۔
محترم قارئین ! میں نے یہ کالم کسی شخصیت کی ذاتی پسند و ناپسند کے حوالے سے نہیں لکھا بلکہ حقیقت کو واضح کرنے کیلئے اور اہل سنت کے موقف کے دفاع کیلئے لکھا ہے باقی دلوں کے حال اللہ جانتا ہے اس سے اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں ۔
Comments
Tags: Afghanistan, Al-Qaeda, Religious extremism & fundamentalism & radicalism, Takfiri Deobandis & Wahhabi Salafis & Khawarij, Taliban & TTP
Latest Comments
ulma e deobnd ne kufar ka DAT kr mukabla kea ha ye hlwa khor molvi kea janen k jehad kea ha